حضرت حافظ نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ سکنہ فیض اللہ چک ان اصحاب میں سے تھے جنہیں دعویٰ سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میسر رہی۔ آپؓ نماز تہجد کے لئے بیدار ہونے کی خاطر حضورؑ کے کمرہ میں سویا کرتے اور سیر پر بھی حضورؓ کے ہمراہ جاتے تھے۔ حضورؑ نے بعض مواقع پر آپؓ کو بھی دعا کرنے کی تحریک کی اور آپ ان احباب میں شامل تھے جنہیں حضورؑ نے اپنے رؤیا و کشوف، حضورؑ کی تصدیق میں شائع کرنے کا ارشاد فرمایا۔ خلافت ثانیہ کی تائید میں آپؓ کے کشوف کی اشاعت کے باعث بھی کثیر احباب فتنہ سے محفوظ رہے۔
حضرت حافظ صاحبؓ کو بچپن میں دینی علوم کی تحصیل کا بہت شوق تھا۔ آپؓ کے حافظ قرآن تایا آپؓ کو بھی حافظ قرآن بنانے کی آرزو رکھتے تھے لیکن آپؓ کے بچپن میں ہی وہ وفات پا گئے اور آپؓ کے والد نے آپؓ کو کام پر لگا دیا۔ جب آپ 17 برس کے ہوئے تو ایک حافظ محمد جمیل صاحب گاؤں میں آئے جن سے آپؓ نے اپنے شوق سے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ پھر آپؓ دینی علوم سیکھنے میں مگن رہنے لگے اور آپؓ کے والد صاحب نے کام کاج خود ہی سنبھال لیا۔ اس دوران ایک دفعہ آپؓ کے والد بصارت سے محروم ہو گئے تو کام کا سارا بار آپؓ کے کاندھوں پر آ پڑا اور تحصیل علم میں دقت پیدا ہوگئی۔ تب آپؓ نے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی تو آپؓ کے والد صاحب کو خواب میں بتایا گیا کہ آنکھوں میں کھمب ڈالیں۔ اس پر عمل کرنے سے اُن کی بصارت عود کر آئی اور تا وفات قائم رہی اور انہوں نے پھر سے کام سنبھال لیا۔
حضرت حافظ صاحبؓ کے دادا بھی بہت بڑے صوفی اور بزرگ تھے۔ اُن کے رؤیا و کشوف علاقہ بھر میں مشہور تھے اور اُن کے مرید سینکڑوں میں تھے۔ آپؓ کے والد نے بھی پیری مریدی کا سلسلہ جاری رکھا لیکن آپؓ نے 21؍ ستمبر 1889ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے کے بعد اپنے مریدوں کو جواب دیدیا۔
حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ کا مختصر ذکر محترم ملک صلاح الدین صاحب کی تصنیف ’’اصحاب احمد‘‘ سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍ اگست 1996ء میں منقول ہے۔