حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور تدوین قرآن

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ ستمبر 2007ء میں حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے حالات زندگی تاریخ حفاظت و جمع قرآن کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں۔ آپؓ کا ابتدائی نام حسیل یا حسل بن جابر العبسی تھا۔ یمان لقب ہے۔ بنو غطفان کے عبس قبیلہ سے تعلق تھا۔ کنیت ابو عبداللہ اور ابوسریحۃ تھی۔ آپ کی والدہ الرباب بنت کعب انصار کے قبیلہ اوس سے تھیں۔
آپؓ کے والد حسیلؓ، چچا صفوانؓ اور آپؓ جنگِ اُحد میں شامل تھے۔ ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے آپؓ کے والد کو ایک دوسرے بزرگ حضرت رفاعہ انصاریؓ کے ساتھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ اُونچے ٹیلے پر بھیج دیا گیا تھا۔ مگر ہنگامہ کے دوران وہ لڑائی میں شامل ہوگئے تو اُن کو بعض مسلمانوں نے مخالف فریق کا سمجھتے ہوئے گھیرلیا۔ حذیفہؓ نے دیکھا تو پکار پکار کر بتایا کہ یہ آپؓ کے والد ہیں لیکن کسی کو آپ کی بات سمجھ نہ آئی اور مسلمانوں نے ان کو شہید کردیا۔ اس پر آپ نے فرمایا:

یغفر اللّہ لکم و ھو ارحم الراحمین

یعنی اللہ تم سب کی مغفرت کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ آپؓ نے اپنے والد کا خون اوردیت مسلمانوں کو معاف کر دی۔ جب آنحضور ﷺ کو یہ معلوم ہوا تو آپؐ نے اسے بہت سراہا۔ آپؓ نے بعد ازاں نصیبین میں سکونت اختیار کی تھی اور وہیں نکاح کرلیا۔ آپؓ کے دو بیٹے صفوان اور سعید جنگ ِ صفین میں شہید ہوئے۔ اُن دونوں نے آپؓ کی وصیت پر حضرت علی ؓ کی بیعت کی تھی۔ ایک اور بیٹے کا نام سعید تھا جبکہ ایک بیٹی امیّہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔
حضرت حذیفہؓ کبار صحابہ میں سے تھے۔ آپ کے مناقب بھی نہایت معروف تھے۔ فقر وفاقہ محبوب تھا۔ علوم قرآن و حدیث اور فقہ میں فضیلت رکھتے تھے۔ عہدِ نبوی ﷺ کے حفاظِ قرآن میں سے تھے۔ سو سے زائد احادیث مروی ہیں۔ سلطنت کے امور سے جب فرصت ملتی آپؓ درسِ حدیث دیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر رسول کریم ﷺ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ ’’اے حذیفہ! اللہ نے تجھے بخش دیا اور تیری والدہ کو بھی‘‘۔
آپؓ کا ایک قول ہے کہ آنحضور ﷺ نے مجھے ہجرت اور نصرت میں اختیار دیا تو میں نے نصرت کو چنا۔ آپ کا یہ طریق تھا کہ آنحضور ﷺ سے شر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ لوگ خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ اس کی وجہ پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ جس کو شر کا علم ہوگیا تو وہ ہمیشہ خیر کو ہی اختیار کرے گا۔
آپؓ اور آپؓ کے والد جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کسی کام سے نکلے تو قریش نے انہیں پکڑ لیا اور کہا کہ تم لوگ محمد ﷺ کا ساتھ دینے کے لئے جانا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا ہم تو صرف مدینہ جا رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے عہد لیا کہ مدینہ تو چلے جاؤ مگر حضور ﷺ کے ساتھ جنگ میں شامل نہ ہو۔ پس جب یہ دونوں حضورﷺ کے پاس آئے اور آپ کو سارا ماجرا سنایا تو آپ نے فرمایا کہ عہد کی خلاف ورزی سے بچنے کے لئے تم دونوں علیحدہ ہوجاؤ اور دعا کرو۔ اور ہم تو اِن کے خلاف اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔
جنگ خندق میں آنحضورﷺ نے آپ کو تن تنہا کفار کی خبرلانے کو بھیجا۔ خیبر، بیت رضوان، فتح مکہ و دیگر غزوات میں شامل ہوئے۔ بعد ازاں آپ کی رہائش کوفہ میں رہی۔ 18 ہجری میں حضرت عمرؓ کے ارشاد پر کوفہ سے لشکر لے کر نکلے اور ایرانیوں کا مقابلہ کیا۔ جنگ نہاوند میں شامل ہوئے۔ جب نعمان بن مقرن شہید ہوئے تو آپ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آپ کی قیادت میں 22 ہجری میں ہمدان، ریّ اور دینور فتح ہوئے۔ جنگ نہاوند کے بعد آپ نے آذربائیجان پر لشکر کشی کی اور ایک سخت لڑائی کے بعد اس کو فتح کیا۔ بعد ازاں موقان اور جیدان کو فتح کیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے آپ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا۔ حضرت عثمانؓ نے بھی آپ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا۔ 30ہجری میں خراسان فتح کرنے والے لشکر میں شامل تھے۔ آرمینیا کے معرکہ میں حصہ لیا۔ حضرت علی ؓ کی بیعت کی لیکن جنگ جمل میں آپؓ شامل نہ ہوسکے۔
عمومی طور پر صحابہ میں ’’صاحبُ سِرِّ اللّٰہِ‘‘ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ کا راز دان‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ صحیح مسلم میں آپ کا یہ قول مندرج ہے کہ آنحضور ﷺ نے جو کچھ ہو چکا ہے اور جو قیامت تک ہونے والا ہے اس سے آپؓ کو آگاہ فرمایا۔ نیز منافقین کے نام اور ان کے ساتھیوں کا بھی بتایا۔
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے اصحاب سے کہا کہ اپنی اپنی خواہش بیان کرو۔ لوگوں نے خواہش کی کہ مکان جواہرات سے بھر جائے جن کو وہ خدا کی راہ میں خرچ کر دیں مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگوں کی خواہش رکھتا ہوں تاکہ میں ان کو خدا کی راہ میں استعمال کروں۔
حضرت عمرؓ جب کسی عامل کو مقرر فرماتے تو اس کے پروانے میں لکھ دیتے کہ میں نے فلاں شخص کو مقرر کیا ہے اور اس کو یہ ہدایات دی ہیں۔ مگر جب آپ نے حضرت حذیفہؓ کو مدائن کا حاکم مقرر فرمایا تو ان کے پروانے میں لکھا کہ ’’اے لوگو! ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو اور جو کچھ یہ مانگیں ان کو دو‘‘۔ جب آپ مدائن پہنچے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کا استقبال کیا۔ جب آپ نے اپنا پروانہ پڑھا تو انہوں نے کہا کہ آپ جو چاہیں مانگیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں جب تک یہاں رہوں تب تک کے لئے میں تم سے صرف اپنے کھانے پینے کا انتظام اور گدھے کا چارہ مانگتا ہوں۔ پھر آپ وہاں مقیم رہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے آپ کو واپس بلا لیا۔ جب حضرت عمرؓ کو ان کے آنے کی خبر ہوئی تو راستہ میں چھپ کر بیٹھ گئے اور ان کو اسی حال میں دیکھا جس حال میں وہ ان کے پاس سے گئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے اور سینہ سے لگایا اور فرمایا کہ تم میرے بھائی اور میں تمہارا بھائی ہوں۔
حضرت حذیفہؓ سے جو روایات مروی ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات میں نے آنحضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپؐ نے پہلی رکعت میں سورۃالبقرۃ، آل عمران اور النساء پڑھیں اور پھر رکوع فرمایا … جب بھی آپؐ کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں رحمت کا ذکر ہوتا تو اسے مانگتے، اور جب ایسی آیت پڑھتے جس میں عذاب کا ذکر ہوتا تو اس سے پناہ مانگتے، اورجب ایسی آیت پڑھتے جس میں خدا تعالیٰ کی بڑائی کا ذکر ہوتا تو خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے۔
آپؓ کی روایت ہے کہ ہم آنحضورﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ تم میں کتنی دیر ہوں۔ پس تم میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ فرمایا، عمار کے عہد کی پاسداری کرنا، اور ابن مسعودؓ جو بیان کریں اس کی تصدیق کرنا۔
تاریخ میں آپکے بعض اقوال بھی درج ہیں۔ مثلاً
٭ حق مشکل تو ہے لیکن وہ اپنے مشکل ہونے کے ساتھ میٹھا بھی ہے۔ اور باطل آسان تو ہے لیکن وہ اپنی آسانی کے ساتھ ہلاکت کا باعث بھی ہے۔ اور بدی کو ترک کرنا زیادہ آسان اور زیادہ بہتر ہے بعد میں توبہ کرنے سے۔ اور ایک لمحے کی شہوت بہت طویل حزن کو پیدا کرتی ہے۔
٭ تم میں سے بہتر وہ نہیں جو دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑے اور نہ ہی تم میں بہتر وہ ہے جو آخرت کو دنیا کیلئے چھوڑے بلکہ بہترین وہ ہے جو دونوں میں سے حصہ لے۔
حضرت حذیفہؓ کی وفات 36ھ کے اوائل میں مدائن میں ہوئی اور آپؓ کو حضرت سلمان فارسیؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ پر موت کی کیفیت طاری ہوئی تو آپؓ بہت روئے۔ کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہیں۔ تو فرمایا کہ میں دنیا کو چھوڑنے پر نہیں رورہا بلکہ مجھے موت زیادہ محبوب ہے مگر میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ میں خدا کی رضا کی طرف جارہا ہوں یا خدا کی ناراضگی کی طرف۔
جب آپ کی موت بالکل قریب آگئی تو آپؓ نے کہا کہ یہ دنیاوی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پس تو مجھے اپنی ملاقات میں برکت عطا فرما۔
حفاظت ِقرآن کے سلسلہ میں آپ کی ہی تجویز پر حضرت عثمانؓ نے فوری عمل کروایا۔ جب آپؓ آذربائیجان یا آرمینیا کی فتح سے واپس آئے تو آپ نے سعید بن العاصؓ سے بیان کیا کہ میں نے اس سفر میں یہ عجیب ماجرا دیکھا کہ ایک شہر والے دوسرے شہر والوں سے قرآن کی قراء ت میں اختلاف کرتے ہیں۔ اہل حمص کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کی تعلیم مقدادؓ سے حاصل کی ہے۔ اہل دمشق کو بھی اسی قسم کا دعویٰ ہے۔ اہل بصرہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کی تعلیم ابن مسعودؓ سے پائی ہے۔ ہماری قراء ت زیادہ بہتر ہے۔ میرے نزدیک قرآن کریم ایک قراء ت پر جمع کر دیا جائے ورنہ اگر یہ ہی حالت قائم رہی تو سخت اختلاف برپا ہوجائے گا۔ وہاں موجود صحابہؓ اور تابعین نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا جبکہ حضرت ابن مسعودؓ نے اختلاف کیا۔ حضرت حذیفہؓ اس مجلس سے نکل کر مدینہ آئے اور حضرت عثمانؓ سے سارا قصہ بیان کیا۔ حضرت عثمانؓ اور صحابہؓ نے اس رائے کو پسند کیا۔ حضرت عثمانؓ نے مسلمانوں سے مشاورت کے بعد امّ المؤمنین حضرت حفصہؓ سے مصحف صدیقیؓ منگوایا، قریش کی قرأت پر اس کی نقول تیار کروائیں اور بلاد اسلامیہ میں بھجوادیں۔
آنحضرت ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں قرآن کریم کو تحریر کروادیا تھا اور حضرت زیدؓ نے آپؐ کے لکھوائے ہوئے قرآن مجید کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ ؓکے ارشاد پر کمال دیانتداری، محنت اور جانفشانی سے ایک جلد کی شکل میں جمع کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس نسخہ کی نقول تیار کروائیں اور اصل نسخہ حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ کرادیا۔ اس امر پر ہر طرح کی مستند و محقق رائے موجود ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں جو قرآن جمع کیا گیا، اس میں کسی قسم کی لفظی فروگذاشت نہیں ہوئی۔ اس جلد میں تمام سورتیں اور آیات اس نظم کے ساتھ مرتب کی گئی تھیں جو آنحضورﷺ نے کاتبین کو املاء کروائی تھی۔
دوسرے مرحلہ میں جو کام ہوا ، وہ قراء ت سے متعلق ہے جس کا مطلب ہے: کتاب کا لب و لہجہ اور الفاظ کا تلفظ۔ رسول کریم ﷺ پر قرآن کریم نازل ہوا تو اس کی قراء ت قبیلہ قریش کی قراء ت پر تھی۔ جب مختلف قبائل اور اقوام کے افراد مسلمان ہوئے تو لب و لہجہ کے فرق کی وجہ سے، ان نو مسلموں کی آسانی کے لئے قرآن کریم کو دوسری قراء ت سے پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن جب لوگ قریشی لب و لہجہ سے آشنا ہونے لگے تو یہ وقتی اجازت موقوف ہوگئی۔ خلافت عثمانی میں جب مختلف علاقوں کے لوگ کئی معرکوں میں اکٹھے ہوئے تو ان مختلف قراء توں میں قرآن کو پڑھنے کی وجہ سے اختلاف سامنے آیا۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کی تجویز جب حضرت عثمانؓ کے سامنے آئی تو آپؓ نے اس کو پسند فرمایا۔ حضرت عثمانؓ خود بھی ان کاتبین میں سے تھے جن کا شمار صف اول میں کیا گیا ہے کیونکہ اہل قریش سے تھے اس لئے قرآن کی قراء ت سے بخوبی آگاہ تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کی مشاورت سے فوری اقدام فرمایا اور آپؓ کے حکم سے حضرت زیدبن ثابتؓ، سعید بن العاصؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، اور عبدالرحمان بن حارثؓ نے اس فریضہ کو کما حقہ‘ مکمل کیا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کو ایک نسخے پر جمع کرنے میں جو کچھ بھی کیا ہے ہم لوگوں کے مشورہ سے کیا ہے۔ میں ان کی جگہ ہوتا تو یہی راستہ اختیار کرتا۔ نیز اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں یہ خدمت سر انجام دیتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: ’’لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو جامع القرآن بتاتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے۔ صرف عثمانؓ کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے۔ ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے۔ آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دُور تک پھیل گیا تھا۔ اس لئے آپ نے چند نسخہ نقل کرا کر مکہ، مدینہ، شام، بصرہ، کوفہ اور بلاد میں بھجوادئے تھے اور جمع تو اللہ تعالیٰ کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ نبی کریم ﷺ ہی نے فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے مطابق ہم تک پہنچایا گیا۔ ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمہ ہے۔‘‘
حفاظت قرآن کے خدائی وعدہ کے مطابق قرآن کریم کی یہ تدوین اور قراء ت کے ایک نسخے پر جمع کئے جانے کا عمل اتنا بروقت اور مستحسن تھا کہ اسلامی معاشرہ نے اسے بغیر کسی پس و پیش کے قبول کر لیا اور اس طرح امت محمدیہ قریشی قراء ت پر اکٹھی ہوگئی۔ اس طرح لہجہ کا اختلاف معنی کا اختلاف بننے سے پہلے ہی خدائی تقدیر سے ختم ہوگیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اگرچہ ابتداء میں حضرت عثمانؓ کایہ حکم پسند نہیں آیا تھا کہ باقی تمام قراء توں والے قرآن تلف کردیئے جائیں چنانچہ انہوں نے اپنی پسند کی قراء ت والے اپنے صحیفہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جس میں آنحضور ﷺ کے تشریحی فرمودات بھی درج کئے ہوئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد آپ متفق ہوگئے اور فرمایا: قرآن کریم تمہارے نبیؐ پر سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا۔ تم سے پہلے کتابیں ایک ہی حرف پر نازل ہوتی تھیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہوتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپؓ کا اختلاف کوئی ایسا اختلاف نہیں تھا جس میں قرآن کریم کا مضمون یا آیات ہی بدل جاتی تھیں۔ آپ صرف یہ فرماتے تھے کہ ایک علم جو رسول کریم ﷺ نے سکھایا ہے وہ کسی کے کہنے پر کیونکر چھوڑ دیں؟ بہر حال جب آپؓ پر حکمت واضح ہوئی تو اپنے نسخہ کو تلف کر دیا اور پھر چوتھی بار قرآن کریم تحریر کیا جو کہ لغت قریش کے مطابق تھا۔ یہ نسخہ آج بھی محفوظ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں