حضرت حسین بن منصور الحلّاجؒ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء)

(کلیم احمد کِم)

آپؒ کا نام حسین تھا اور آپ کے والد کا نام منصور تھا۔ آپ 857 ء میں فارس کے شہر بیضاء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کا نا م محمی تھا جو مجوسی تھے۔ آپ کا خاندان ایک غریب خاندان تھا۔ اکثریت آپ کو منصور حلّاج کے غلط العام نام سے یاد کرتی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ دَور دراصل شیعہ اقتدار کا تھا اور بعض لوگ حسین کہنے اور لکھنے میں حضرت امام حسینؓ کی بے ادبی سمجھتے ہوں گے اس وجہ سے آپ اپنے والد کے نام سے مشہور ہوئے۔ حلّاج کہلانے کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک روز آپ اپنے دوست کی دکان پر گئے جو کہ روئی کو دھنکنے والا تھا۔ آپ نے اس کو کہا کہ میرا یہ کام فلاں جگہ پر ہے آپ جا کر کروا دو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس بہت کام ہے، اگر میں تمہارے کام کے لئے جاؤں تو وعدے کے مطابق مَیں روئی نہ دھنک سکوں گا۔ آپ نے کہا کہ اس کی فکرنہ کرو۔ تم میرا کام کرکے آؤ، مَیں تمہارے کام کا حرج نہ ہونے دوں گا۔ چنانچہ وہ چلاگیا اور جب واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حسین بن منصور نے ساری دکان کی روئی دھنک دی تھی جو کہ کئی دنوں کا کام تھا۔ اس وجہ سے آپؒ حلّاج مشہور ہو گئے۔ حلّاج روئی دھنکنے والے کو کہتے ہیں۔
آپ کی ایک بہن بہت پارسا اور زاہدہ تھیں۔ غالباً یہی تصور کیا جاتا ہے کہ آپ اپنی بہن کے تقویٰ سے بہت متاثر تھے۔ ابتدائی تعلیم تُستَر میں حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ تستر میں آپ سہل بن عبد اللہ تستری کی صحبت میں رہے۔ سولہ سال تُستَر میں قیام پذیر رہنے کے بعد آپ بغداد آگئے اور حضرت جنید بغدادیؒ کی شاگردی اختیار کی۔ ایک سال تک ان سے علم و عرفان کی پیاس بجھائی۔ پھر عمرو بن عثمان مکی کی شاگردی اختیار کی اور تقریباً ڈیڑھ سال اُن سے اکتساب فیض کیا۔ یہاں آپ نے ابویعقوب کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر لیا جس کی وجہ سے حضرت عمرو بن عثمان کے ساتھ آپ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ اس پر آپ حضرت جنید بغدادیؒ سے رہنمائی کے طالب ہوئے جنہوں نے آپ کو صبر کی تلقین کی اور دونوں بزرگوں کی خاطر داری کا کہا۔
شیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ بھی آپ کی تعظیم کرتے تھے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے حضرت حسین بن منصور حلاجؒ کے بارہ میں لکھا ہے کہ آپ کو طریقت میں دشواری پیش آگئی تھی اور اُس زمانے میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جو آپ کو اس دشواری سے نکال دیتا۔ علامہ شیبانی اور حضرت مولانا رومؒ نے حضرت حسین بن منصور حلاجؒ کو اولیاء میں شامل کیا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ آپ کے بارہ میں ’کشف المحجوب‘ میں لکھتے ہیں کہ سیّدنا حضرت حسین بن منصور حلّاجؒ ایک خفی عالم اور عالی ہمّت بزرگ تھے۔
حضرت عمرو بن عثمان کے ساتھ تعلّقات کشیدہ ہونے کے بعد منصور حلّاجؒ کی طبیعت سیاحت کی طرف مائل ہو گئی۔ پھر آپ نے مشاہدہ و تجربہ کو اپنا استاد بنا لیا۔ یہ انتہائی دشوار رہگزر ہوتی ہے اور اس راہ میں مشقت و ریاضت کی سنگلاخ وادیوں کو استقامت کے ساتھ پار کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال بغداد سے آپؒ حج کے لئے 270 ھ میں مکّہ گئے جہاں ایک سال رہے۔ دن کو روزہ رکھتے اور شام کو ایک روٹی پانی کے ساتھ کھاکر افطار کرلیتے۔ سارا دن محبت الٰہی میں مستغرق رہتے۔ کعبہ میں یہ ایک سال مجاور بن کر گزارا۔ پھر آپؒ واپس تُستر آگئے تو آپؒ کے ساتھ چند صوفیاء کرام اور مریدین بھی تھے۔ آپؒ کی شہرت ہوئی تو کئی حاسدین پیدا ہوگئے۔ آپؒ کی طبیعت میں ایک اضطراب پایا جاتا تھا۔ چنانچہ غیرمتوقّع حالات دیکھ کر آپ نے صوفیانہ لباس اتار پھینکا اور اہل طریق سے الگ ہوکر فوجیوں والا لباس زیب تن کرلیا۔ پھر دنیاداروں کی صحبت میں رہنے لگے تاکہ لوگوں میں نیک نامی کی شہرت نہ ہو۔ دراصل آپؒ تنہائی اور گمنامی میں اللہ کی عبادت میں گم ہونا چاہتے تھے اور لوگوں کی وجہ سے آپ کی عبادت میں مکمل توجہ قائم رکھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ پھر تُستر سے پانچ سال کے لیے غائب رہے اور اس دوران خراسان، سجستان ما وراء النہرکی سیاحت کی۔
پھر آپ فارس آ گئے اور تبلیغ و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں ابوعبداللہ زاہد کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر اہواز چلے گئے۔ کچھ عرصہ بغداد میں بھی گزارا اور اس کے بعد آپؒ نے کفرستان یعنی ہندوستان کا سفر کیا اور اشاعت اسلام کی۔ ہندوستان میںآپؒ کے تقویٰ کے باعث بہت شہرت ہو گئی اور کرامات وغیرہ دیکھ کر ہزاروں لوگ آپؒ کے مرید بن گئے۔ ایک معجزہ یہ بھی مشہور ہے کہ آپؒ کے پاس کچھ مفلوک الحال لوگ آئے اور عرض کیا کہ ہماری مدد فرمائیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ مَیں تو خود مفلوک الحال ہوں، مگر پھر لوگوں کا اصرار دیکھ کر آپؒ نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تونے ہی یہ لوگ مدد کے حصول کے لئے میرے پاس بھیجے ہیں تو تُو ہی ان کی حاجات کو پورا کرنے کے اسباب پیداکر اور ان کی مشکل کشائی کر۔ اس کے بعد آپ نے اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور مٹھی جب کھولی تو اس میں درہم تھے جو آپؒ نے اُن ضرورتمندوں کودے دیے۔ ہندوستان میں آپ کو مغیث کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ چین اور ترکستان بھی گئے تھے۔ وہاں آپؒ کو مقیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خراسان والے آپ کو ممیز، خوزستان والے شیخ حلّاج الاسرار، اہلِ بغداد مصطلم اوربصرہ والے محیّر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
پھر آپؒ تیسری مرتبہ حج کے لئے مکّہ گئے اور دو سال وہاں مجاور بن کے رہے۔ آپؒ کو شہرت سے اتنی نفرت ہوگئی کہ میدانِ عرفات میں آپؒ نے یہ دعا مانگی کہ اے خدائے برتر! مجھے اس سے زیادہ بے نوا اور حاجتمند بنا دے جیسا میں نظر آتا ہوں۔ یعنی محتاجی اور فقر کو زیادہ کر دے۔ … لوگوں کو مجھ سے بیزار کر دے تاکہ پھر میری زبان سے شکر کا جو کلمہ نکلے وہ فقط تیرے ہی لئے ہو۔
دراصل آپؒ صوفیاء کی طرح تنہائی اور گوشہ گمنامی میں یکسوئی کے ساتھ عبادت بجالاتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ یہ دعا قبول ہو گئی اور وہ لوگ جو کرامات دیکھ کر آپؒ کے قریب ہونا چاہتے تھے وہ آپؒ سے بیزار ہونے لگے۔
حضرت ابن منصور حلّاج کی طبیعت میں ایک اضطراب تھا۔ عرفات کے میدان والی دعا سے بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ آپ فنا فی اللہ ہو نے کے لئے ہرقسم کی مشکلات کے لئے تیار تھے۔ جب آپ مکّہ سے واپس بغداد آئے تو صوفیانہ روش سے بدلے ہوئے تھے۔ آپ نے بغداد میں اپنا مکان بنوایا۔ لوگوں میں آپ کی مخالفت بڑھنے لگی۔ بعض نے الزام لگایا کہ آپ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں، بعض نے کہا کہ آپ جادو کرتے ہیں۔ محمد بن داؤد اور دیگر علماء نے آپ کی شدید مخالفت کی اور آپؒ کی ظاہری حالت کو قبیح گردانا۔ حضرت شبلیؒ اور بعض صوفیاء بھی بظاہر آپؒ کے خلاف ہو گئے۔ الغرض کچھ لوگ آپ کو ساحر یا مجنون اور بعض صاحب کرامات اور صاحب اجابتِ سوال کہنے لگے۔
ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپؒ کو مثل قرآن بنانے کا دعویٰ تھا۔ اور آپ کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے: یمکننی ان اولف مثلہ ۔ حالانکہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہ تھا کہ میں قرآن کا مثل من کل الوجوہ بنانے پر قادر ہوں بلکہ مطلب صرف یہ تھا کہ جیسے مضامینِ ہدایت قرآن میں ہیں وہ میرے قلب پر بھی بطور الہام وارد ہوتے ہیں جن کو اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ہوں جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں ہے: اِلَّا وَاِنِّی اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہٗ (جمع الفوائد کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ) (یعنی مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے علوم و معارف اور مضامین کا ہر وقت مجھ پر ورود ہوتا ہے)۔
گویا قرآن کا مثل فرمایا گیا مگر ظاہر ہے کہ مثل من کل الوجوہ مراد نہیں، نفس حجیت میں مراد ہے اور درجہ حجیت میں بھی مساوات نہیں۔
الغرض حضرت حسین بن منصور حلّاجؒ کے بعض اقوال سے آپؒ پر کئی فتوے لگائے گئے۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ آپ اَنَا الْحَق کا نعرہ لگاتے تھے۔ حالانکہ آپؒ کے عقیدۂ توحید کا لفظ لفظ کتاب اللہ سنت اور مذہب سلف صالحین کی تفسیر ہے۔ جس میں صراحتاً یہ ہے کہ مخلوق کو اللہ کے ساتھ کسی قسم کا اختلاط و امتزاج نہیں ہو سکتا۔ نہ حلولاً نہ اتحاداً۔ پس اگر ابن منصور کی زبان سے یہ لفظ ادا ہو گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کہتے ہیں کیونکہ انسان کا حادث ہونا ظاہر ہے۔ ابن منصور کے عقیدہ کے مطابق حادث محتاج قدیم سے متحد نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ شارحین آپ کے اس قول کی یہ بھی تاویل کرتے ہیں کہ ابن منصور کی زبان کلام حق کی ترجمان تھی ان کی زبان سے اسی طرح انا الحق نکلا تھا جیسا کہ قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے کہ شجر موسیٰ سے یہ آواز آئی: انّی انا اللہ ربّ العالمین یعنی میں ہی اللہ ہوں جو تمام جہانوں کا ربّ ہوں۔ ظاہر ہے کہ درخت نے تو یہ نہیں کہا تھا بلکہ وہ اس وقت کلام الٰہی کا ترجمان تھا۔ صوفیاء اور اہل اللہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ غلبہ حالات و واردات میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عارف کی زبان سے بھی تکلّم فرماتے ہیں۔ پس یہ مسلّم ہے کہ ابن منصور کی زبان سے انا الحق نکلا ہو مگر یہ مسلّم نہیں کہ ابن منصور نے خود کو انا الحق کہا تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی حقیقتِ توحید سے آشنا ہو جاتا ہے اس کے دل و زبان سے کیوں اور کیسے ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ احکام خداوندی میں چوںچرا نہیں کرسکتا اور ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہتا ہے۔ ہر حکم اور تقدیر میں راضی بالرضا رہتا ہے۔
ایک اَور آپؒ کا قول ہے کہ جب حق غالب آجاتا ہے تو انسان کو اسرار کا مالک بنا دیتا ہے اور وہ اس کا معائنہ کرنے لگتا ہے اور وہ پھر ان کو بیان بھی کرتا ہے۔
’خطیب تاریخ بغدادی‘ میں ابن منصوؒر کا یہ قول بیان ہوا ہے کہ اوّلین و آخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتوں پر مشتمل ہے: ربِّ جلیل کی محبت،متاع قلیل سے نفرت،کتاب منزل کا اتّباع اور تغیر حال کا خوف۔ یہاں شریعت و طریقت کے سمندر کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔
بہرحال آپؒ کی عرفات والی دعا کے نتیجے میں لوگ آپ سے دُور ہو نے لگے اور اُس وقت کے خلیفہ مقتدر باللہ کا عیاش وزیر خزانہ حامد بن عباس آپ کا مخالف بن گیا۔ وہ ایک لالچی اور غاصب شخص تھا جو آپؒ کودِق کرنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ وزیر حامد بن عباس کا ایک ساتھی ابن نصر بیمار ہوا تو حکیم نے اُس کے لئے سیب تجویز کیا لیکن وہ سیب کا موسم نہ تھا۔ اس پر حضرت ابن منصور کو بلایا گیا کہ کوئی خوارق عادت کرامت دکھائیں۔ آپؒ نے دعا کی، پھر آپ نے ہوا میں اپنا ہاتھ بلند کیا اور آپ کے ہاتھ میں سیب تھا جو آپ نے اُن کودے دیا۔ یہ دیکھ کر دربار میں بیٹھے ہوئے لوگ تو آپؒ کی محبت میں دیوانے ہو گئے لیکن یہ چیز وزیر کو حسد میں بڑھانے لگی اور اُس نے یہ افواہ پھیلادی کہ آپؒ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپؒ کا ایک خط دکھایاگیا جو آپؒ نے کسی کو لکھا اور اس خط کا آغاز یوں ہوتا تھا: من الرحمان الرحیم الیٰ فلان۔ آپؒ نے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ مَیں تو ایک عام انسان ہوں۔ من الرحمان سے مراد مَیں نہیں ہوں۔
دراصل آپؒ وحدت الوجود کے قائل تھے جو عام لوگ نہ سمجھتے تھے۔صوفیاء کے نزدیک وحدت الوجود سے مراد فنا فی اللہ ہونا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ختم کر دینا اور خود کو بھی اللہ ہی کی ذات کا حصہ سمجھنا۔ اگر اسے ہمہ وقت کسی کو یاد رکھنا ہے تو وہ اللہ کی ہی ذات ہوتی ہے۔ وہ صرف اللہ کے بارہ میں سوچتا ہے اور اسی کی یاد میں گم رہتا ہے، اس کا مطمح نظر صرف خدا ہوتا ہے۔
بہرحال آپؒ کو 297 ھ میں گرفتار کیا گیا اور ایک سال بعد چھوڑ دیا گیا۔ پھر دوبارہ آپؒ پر الزامات لگا کر آپ کو301ھ میں گرفتار کرلیا گیا۔ 308 ھ تک آپؒ قید میں رہے۔ آپؒ کے خلاف جھوٹی گواہیاں دی گئیں۔ آپؒ پر جادو گری کے بھی جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ حالانکہ ابن منصور حلّاج حُسنِ معاشرت رکھنے والے، دنیا داری سے دُور، بہت عبادت گذار، محبتِ الٰہی اور محبتِ رسولؐ میں مستغرق رہنے والے وجود تھے۔ آپؒ پر جادوگری کا الزام انتہائی لغو ہے۔
آخر یزید بن عباس نے دشمنی کی ساری حدیں پار کر لیں اور اُس نے قاضی اور چوراسی علماء کو بلوایا اور خفیہ طور پر اُن کو آمادہ کیا کہ ابن منصور پر قتل کا فتویٰ صادر کریں۔ ایک الزام آپؒ پر یہ بھی لگایا گیا کہ آپ کرامتی ہیں اور اس فرقہ کی ترویج کے لئے کام کر رہے ہیں۔ کرامتی فرقہ کے لوگ کعبہ وغیرہ کو نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ آدمی دن کو روزہ رکھے اور اپنے کمرے میں ہی ایک روز کے لئے اعتکاف بیٹھ کر اور پھر اپنے کمرے کا طواف کر لے تو وہی کافی ہے، کعبہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ آپؒ کہتے ہیں کہ اپنے کمرے میں دو نفل پڑھ لو اور ساری عمر عبادت نہ کرو تو وہی دو نفل کافی ہیں۔
جب ابن منصور حلّاجؒ کو قاضی اور علماء کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت حسن بصریؒ کی کتاب آپؒ کے زیرمطالعہ رہتی تھی۔ وہ بھی وہاں لائی گئی لیکن حامد بن عباس نے انتہائی چالاکی کے ساتھ اُس قلمی نسخے میں تحریف کرواکر کرامتیوں کے چند اعتقادات اُس کے درمیان میں شامل کروادیے۔ یعنی دو نفل ساری عبادت کے لیے کافی ہیں اور اعتکاف کے متعلق یہ کہ اپنے ہی کمرے کا طواف کرنے کے بعد حج کی ضرورت نہیں رہتی والے لکھوا کر وہ صفحات شامل کردیے۔ پھر وہ کتاب قاضی کو دی گئی اور قاضی نے ابن منصور سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ یہ حضرت بصری کی کتاب پڑھتے ہیں؟ آپؒ نے کہا کہ ہاں بالکل اس کتاب سے رہنمائی لیتا ہوں۔ تب قاضی نے اعتراض والے صفحات کے بارے میں جاننے کی کوشش ہی نہ کی کہ وہ حصہ بدنیتی سے کسی نے شامل کیا ہے۔ جبکہ حضرت حسین بن منصور نے ہاں میں جواب اس لیے دیا تھا کیونکہ آپ نے تو حضرت حسن بصری کی وہ کتاب پڑھی ہوئی تھی جو تحریف شدہ نہ تھی۔ لیکن ہاں کا جواب سن کر قاضی اور چوراسی علماء نے آپ کے خلاف فتویٰ دے دیا کہ الزامات درست ہیں اور سزا کے حق دار ہیں۔ وزیر خزانہ حامد بن عباس نے وہ فتویٰ اس وقت کے خلیفہ مقتدر باللہ کو اس سفارش کے ساتھ بھیجا کہ ابن منصور حلّاج کے خلاف قاضی اور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ قصوروار ہیں اور ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور ان کی ذات سے خلافت کو بھی خطرہ ہے۔ چنانچہ خلیفہ نے آپؒ کو سو تازیانے لگانے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر تازیانوں سے ہلاک نہیں ہوتے تو ان کو سولی چڑھا دیا جائے۔
یہ حکم ملتے ہی وزیر نے آپؒ کو سولی دیے جانے کی خبر کی شہر میں منادی کروادی۔ مقررہ وقت پر لوگوں کا جمّ غفیر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آپؒ کو سزا دینی تھی۔ کوتوال محمد بن الصمدنے آپ کو زنداں سے طلب کیا۔ جب آپ کو لایا گیا تو لوگوں نے آپؒ پر پتھر برسائے۔ پھر آپؒ کو سو تازیانے لگوائے گئے اور تازیانے لگانے والا انتہائی طاقتور ملازم وزیر حامد بن عباس کا کارندہ تھا۔ اس نے انتہائی درشتی کے ساتھ یہ فعل سر انجام دیا۔ لیکن حضرت ابن منصور حلّاج نے اُف تک نہ کی اور ہر تازیانہ پر حضرت سیدنا بلالؓ کی طرح احد احد ہی کہتے رہے۔ آپؒ کے چاہنے والے بعض لوگ آہ وبکا کرتے اور دُکھ کا اظہار کرتے رہے۔ اللہ کی محبت میں سر شار ایک متوالا سولی پہ لٹکنے جارہا تھا۔ جب آپ نے تازیانوں پر اُف نہ کی تو وزیر حامد بن عباس پاگل ہو گیا اور اس نے کہا کہ ابن منصور حلاّج کو مقتل گاہ لایا جائے اور اس نے حکم دیا کہ آپؒ کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں، پھر ٹانگیں کاٹ دی جائیں۔ سیرت کی مختلف کتابوں میں لکھا کہ جب آپ کے اعضاء کٹ کر نیچے گرتے تھے تو ان کے اعضاء سے اناالحق کی آواز آتی تھی۔ اس کے بعد آپ کی گردن میں لکڑی کا شکنجہ ڈال دیا گیا اور جلّاد نے آپ کا سر قلم کر دیا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپؒ کے معاصرین اور مشائخ نے آپؒ پر الزامات کے خلاف قاضی شہر کے سامنے آپؒ کی مدد کیوں نہ کی۔ خطیب ’’تاریخ بغدادی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اکثر صوفیاء اور مشائخ نے حلّاج کو ردّ کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حامد بن عباس آپؒ کے قتل کے در پے ہو گیا تھا۔وہ جس کو بھی حضرت حلّاج کی موافقت اور تائید میں پاتا اُس کے خلاف ہو جاتا۔ اس لئے لوگوں نے آپ کی تائید نہ کی۔ چنانچہ جب ابوعباس بن عطاءؒ، ابومحمد جریریؒ اور شبلیؒ کے متعلق ابن منصورؒ نے اپنی موافقت کا دعویٰ کیا تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ابومحمد جریری اور شبلی تو حقیقت چھپاتے ہیں، اگر کوئی تائید کرے گا تو ابوالعباس بن عطاء ہی کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب ان تینوں سے پوچھا گیا تو باقی دونوں نے موافقت سے انکار کردیا۔صرف حضرت ابوعباس بن عطاء نے یہ کہا کہ مَیں ان کا معتقد ہوں اور مَیں ان کی تائید کرتا ہوں۔ اس کے بعد آپؒ نے وزیر حامد بن عباس کو کہا کہ تم کو اس سے کیا واسطہ۔ جاؤ جو تمہارا کام ہے، یعنی ظلم وستم، کرو۔ تم کو ان بزرگوں کے کلام سے کیا تعلق ہے۔ اس پر حامد بن عباس کو غصہ آگیا اور اس نے آپؓ کے منہ پر گھونسے مارنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں آپؒ کے منہ سے خون بہنے لگا۔ آپؒ نے حامد بن عباس کو کوسا تو اُس کو اَور غصہ آگیا اور اُس نے آپؒ کے سر پر جوتیاں مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہ ظلم بھی کیا گیا اور پھر قید کر دیا گیا لیکن خلقت کے خوف سے آپؒ کو جلد ہی گھر منتقل کر دیا گیا۔ اس ظلم پر آپؒ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اللہ! اس وزیر کو قتل کر دے اور اس کے ہاتھ پیر کٹوا دے۔ اگرچہ اس واقعہ کے ایک ہفتے کے بعد آپؒ کا انتقال ہو گیا لیکن آپؒ کی بددعا کی وجہ سے وزیر حامد بن عباس بعد میں قتل کیا گیا اور قتل سے قبل اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے۔
حضرت ابوبکر شبلیؒ نے لکھا ہے کہ منصور حلّاج کو اس وجہ سے سولی دی گئی کیونکہ اس نے اللہ کے راز کو عام لوگوں پر آشکار کر دیا تھا۔ ایک راوی لکھتا ہے کہ جب منصورؒ پرپتھر پھینکے گئے تو آپؒ نے اُف تک نہ کی لیکن ایک پتھر لگنے پر آپ نے آہ بھری اور کہا کہ یہ شخص تو سارا معاملہ جانتا تھا، اس کا پتھر لگنے سے بہت تکلیف ہوئی۔ (یہ حضرت شبلی تھے جو حامد بن عباس کے ڈر کی وجہ سے تائید سے باز رہے تھے۔)
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ خلیفہ مقتدر باللہ کا انجام بھی بہت برا ہوا۔ جب بربروں نے حملہ کیا تو خلیفہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کو ایک بربر نے پکڑ کراس کے کپڑے اتروائے اور اس کا سر قلم کر دیا اور خلیفہ کا سر اپنے نیزے پر لگا کر پھرتا رہا۔ وزیر خزانہ حامد بن عباس کو اُس کے گھر میں ہی حملہ آوروں نے پکڑا اور اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے۔ یہ کرب کے ساتھ تڑپ رہا تھا کہ ایک سپاہی اس سے گویا ہوا کہ میں تیری اتنی ہی مدد کر سکتا ہوںکہ تیرا سر کاٹ کر موت کی نیندسلا دوں اور یہ کہہ کر اس نے حامد بن عباس کو موت کی نیند سلا دیا۔
حضرت ابوالعباس رازی کہتے ہیں میرا بھائی حسین بن منصور حلّاج کا خادم تھا۔ جب وہ رات آئی جس کی صبح اُن کے قتل کے لئے مقرر تھی تو مَیں اُن سے ملنے زندان گیا اور کہا کہ حضرت مجھے کچھ وصیت فرمائیے۔ ابن منصور حلّاجؒ نے کہا: اپنے نفس کی نگہداشت کرو اور اگر تم اسے حق (کی یاد اوراطاعت) میں نہ لگاؤ گے تو وہ تم کوحق تعالیٰ سے ہٹا دے گا (اور نفس اپنے شغل میں لگا دے گا یعنی شہوات میں پھنسا دے گا۔) تب ایک اَور آدمی نے آپ سے عر ض کیا کہ مجھے بھی کوئی نصیحت کیجئے تو آپؒ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کے ساتھ رہو جیسا اس نے واجب کیا ہے۔ (یعنی واجبات اور فرائض کو ادا کرتے رہو) اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبت تم کو حاصل ہوگی۔ گویا یہ آخری نصائح تھیں جو حضرت حسین بن منصور حلّاج نے کیں۔ ان سے حضرت حسین بن منصور حلّاج کا صوفی و عارف ہونا اظہر من الشمس ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں