حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب

حضرت حمزہؓ کی والدہ ہالہ، آنحضورﷺ کی والدہ کی چچازاد بہن تھیں۔ آپؓ آنحضورﷺ سے دو سال قبل پیدا ہوئے اور ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپؓ کو دودھ پلایا جس نے بعد میں آنحضورﷺ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ اس طرح آپؓ کو آنحضورﷺ کا رضاعی بھائی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
جوانی میں آپؓ کی طرز زندگی شاہانہ تھی۔ قریش کے 9 صاحب عزت، نڈر اور خوددار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ شکار بہت کھیلا کرتے تھے۔
آپ کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل ایک مضمون ماہنامہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ ربوہ جولائی 1997ء میں مکرم عطاء المنان طاہر کے قلم سے شاملِ اشاعت ہے۔
آنحضرت ﷺ ایک روز صفا کے قریب بیٹھے تھے۔ وہیں پر ابو جہل اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ آ نکلا اور اس نے آپؐ کو نہ صرف زبانی تنگ کیا بلکہ مٹی بھی پھینکی اور ٹھوکر بھی ماری۔ آنحضور ﷺخاموشی سے گھر تشریف لے گئے۔ یہ واقعہ عبداللہ بن جدعان کی لونڈی دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اسے حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آتے ہوئے نظر آئے تو اس نے سارا واقعہ آپؓ کے گوش گزار کردیا۔ آپؓ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، بھتیجے اور رضاعی بھائی کی محبت نے جوش مارا اور سیدھے بیت اللہ پہنچے جہاں ابوجہل مجلس لگائے بیٹھا تھا۔ آپؓ نے اپنی کمان پورے زور سے اس کے سر پر دے ماری اور کہا: اے خبیث! تو نے میرے بھتیجے کو تنگ کیا ہے اور گالیاں دی ہیں۔ میں بھی اس کے دین کو قبول کرتا ہوں اب اگر طاقت ہے تو مجھے جواب دو۔ ابوجہل نے چپ سادھ لی۔
رات کو حضرت حمزہؓ بے چین رہے کہ کہیں غلط راستہ تو اختیار نہیں کرلیا۔ اسی تردد میں صبح آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو نصیحت فرمائی جس سے آپؓ کا ایمان پختہ ہوگیا اور وساوس جاتے رہے۔
یہ زمانہ مسلمانوں کے لئے بڑی تکالیف کا زمانہ تھا۔ ظالم کفار ایذادہی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس اندھیری رات میں حضرت حمزہؓ جیسے بارعب اور بہادر کا قبولِ اسلام مسلمانوں کے لئے روزِ عید تھا۔ چنانچہ اس کے بعد مسلمانوں پر مظالم بھی کم ہوگئے۔ چند روز بعد جب حضرت حمزہؓ بھی ایک مکان میں آنحضورﷺ کی مجلس میں موجود تھے، حضرت عمرؓ ننگی تلوار سونت کر وہاں آئے۔ صحابہ دروازہ کھولنے سے متردد ہوئے تو حضرت حمزہؓ نے صحابہؓ سے کہا ’’اسے آنے دو، اگر نیک ارادہ سے آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا‘‘۔
ہجرت کے بعد حضرت حمزہؓ کی مؤاخات حضرت زیدؓ بن حارثہ سے ہوئی۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ آپؓ نے حضرت زیدؓ کو جنگِ احد سے پہلے اپنا وارث نامزد کردیا۔
حضرت حمزہ نے متعدد سرایا اور غزوات (ابواء، عثیرہ، بدر اور احد) میں شرکت کی۔ سریہ الی سیف البحر میں آپؓ کمانڈر تھے۔ غزوہ بدر میں انفرادی لڑائی میں عتبہ کے مقابل پر نکلے اور اس کا کام تمام کردیا اور پھر عام لڑائی میں آٹھ اور کفار کو واصل جہنم کیا۔ غزوہ احد سے قبل آنحضورﷺ نے خواب دیکھا کہ گائیں ذبح کی جا رہی ہیں اور آنحضورؐ کی تلوار میں ایک دندانہ پڑا ہے۔ گائیوں سے مراد صحابہؓ کی شہادت تھی اور تلوار میں دندانہ پڑنے سے مراد حضرت حمزہؓ کی شہادت۔ لیکن آپؓ نے شہادت سے قبل تلوار کے وہ جوہر دکھائے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے آپؓ کو شیر کا خطاب دیا۔ حضرت حمزہؓ دشمنوں کی صفوں کو چیرتے جاتے اور نعرہ بلند فرماتے ’’انا اسد اللہ و اسد رسولہ‘‘۔ کئی دشمنوں کی للکار کا آپؓ نے جواب دیا اور آناً فاناً ان کا کام تمام کردیا۔
اسی اثناء میں جبیر بن مطعم کے غلام وحشی نے آزادی اور انعام کے لالچ میں ایک پتھر کے پیچھے سے حضرت حمزہؓ پر نیزے سے حملہ کیا۔ نیزہ جسم کے آر پار ہوگیا۔ آپؓ نے اٹھ کر وحشی پر حملہ کرنا چاہا لیکن گر گئے اور شہید ہوگئے۔ سنگدل کافرہ ہندہ نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت حمزہؓ کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ چبایا اور آپؓ کے کان، ناک اور دوسرے اعضاء کا ہار بناکر گلے میں ڈال کر مکہ روانہ ہوئی۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کی نعش کو اس حالت میں دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
آنحضورﷺ نے حضرت حمزہؓ کی میت پر کھڑے ہوکر فرمایا ’’ابھی جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے، انہوں نے بتایا حمزہ بن عبدالمطلب کو ساتویں آسمان کے مکینوں میں ’حمزہ بن مطلب اسد اللہ و اسد رسولہ‘ لکھا ہوا ہے‘‘۔ اس کے بعد حضرت حمزہؓ پر بغیر غسل کے کفن کی چادر ڈال دی گئی۔
آنحضرت ﷺ نے شہدائے احد کا جنازہ اس طرح پڑھایا کہ 9 صحابہ کی میتوں کو سامنے رکھا جاتا تھا اور آپؐ جنازہ پڑھاتے تھے مگر حضرت حمزہؓ کا جنازہ ہر گروپ کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔ پھر حضرت حمزہؓ کو حضرت عبداللہ بن حجش کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ آپؓ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں