حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر مغربی افریقہ میں پہلا احمدیہ مرکز 28 ؍فروری 1921ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے انگلستان سے سالٹ پانڈ (غانا) پہنچ کر قائم فرمایا۔ 18؍ مارچ 1921ء کو فینٹی قوم کے چیف نے ہزاروں افراد کے ہمراہ احمدیت قبول کرلی۔ 18؍ اپریل کو آپؓ نے لیگوس (نائیجیریا) میں بھی احمدیہ مرکز کی بنیاد رکھ دی۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر حضرت حکیم فضل الرحمان صاحبؓ لندن اور لیگوس سے ہوتے ہوئے 13؍مئی 1922ء کو سالٹ پانڈ پہنچے اور غانا مرکز کا چارج لیا۔ جبکہ نائیجیریا کا مرکز حضرت نیر صاحبؓ کے سپرد رہا۔ چند ماہ بعد ہی کام کی زیادتی اور ناموافق آب و ہوا کی وجہ سے حضرت نیر صاحبؓ شدید بیمار ہو گئے اور 4 ماہ ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد 21؍جنوری 1923ء کو ڈاکٹری ہدایت کے مطابق واپس انگلستان بھجوا دئیے گئے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍ اگست 1996ء میں محترم عبد الحمید چودھری صاحب نے اپنے ماموں حضرت حکیم فضل الرحمان صاحبؓ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
آپ 1901ء میں فیض اللہ چک میں حضرت حافظ نبی بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ سے قبل بھی خدمت اقدسؑ میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ حضرت حکیم صاحبؓ نے تعلیم مکمل کی تو حضرت مصلح موعودؑ نے آپ کو احمدیہ مرکز غانا کا انچارج مقرر فرمادیا۔ آپ کی روانگی سے قبل حضورؓ نے مختلف نصائح فرمائیں مثلاً وہاں کی زبان سیکھیں، ہمیشہ چست رہیں، اخلاق کا خاص خیال رکھیں، افریقنوں سے محبت کریں اور کفایت مدنظر رکھیں، وغیرہ۔
حضرت حکیم صاحبؓ ستمبر 1929ء تک غانا مرکز کے انچارج رہے۔ اس عرصہ میں آپؓ نے سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول بھی قائم کیا۔ اکتوبر 1929ء میں واپس قادیان پہنچے اور فروری 1933ء میں حضور کے ارشاد پر نائیجیریا کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں بعض مقامی لوگوں کے خود ساختہ قانون کی بناء پر آپ کو نہایت مخدوش حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ حتی کہ 20 ؍مارچ 1937ء کو عدالتی فیصلہ آپؓ کے حق میں ہونے کے بعد بھی 1939ء تک حالات مخدوش ہی رہے۔ 1940ء میں حضور کے ارشاد پر آپؓ نے جماعت کی تشکیل نو کی، تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کروائی، لیگوس میں مسجد اور مرکز تعمیر کروایا اور آنحضور ﷺ کی سیرت طیبہ تصنیف کی جو مغربی افریقہ کے سکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہی۔ آپؓ کے افریقہ میں قیام کے دوران ہی آپؓ کے والدین ہندوستان میں انتقال کر گئے۔
اکتوبر 1947ء میں جب حضرت حکیم صاحب واپس وطن تشریف لائے تو چند سال تک بطور افسر لنگر خانہ خدمات انجام دیں۔ 28؍ اگست 1955ء کو کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد آپؓ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی۔ حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کی خدمات کا ذکر فرمایا۔
1988ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے دورہ افریقہ سے واپس آ کر اپنے خطبہ جمعہ میں حضرت حکیم صاحبؓ کے آج تک قائم رہنے والے نیک اثر کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں