حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اگست 1999ء میں حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم محمد محمود طاہر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر 1996ء کے شمارہ کے اسی کالم میں بھی آپ کا مختصر ذکر خیر کیا جاچکا ہے۔
حضرت حکیم صاحبؓ 1840ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ابتدا سے ہی علم کا شوق تھا۔ بھیرہ میں آپکی ایک الگ مسجد کا ذکر بھی ملتا ہے جہاں آپؓ نے قرآن کریم حفظ کیا اور علم طب میں مہارت حاصل کی۔ اس طرح حکیم اور حافظ کے الفاظ آپؓ کے نام کا مستقل حصہ بن گئے۔ آپؓ بھیرہ میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ پھر ہجرت کرکے قادیان آگئے اور یہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپؓ کو بچپن ہی سے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی رفاقت نصیب ہوئی۔ حضورؓ نے اپنی سوانح عمری ’’مرقاۃ الیقین‘‘ میں متعدد جگہ آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کا نام اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں 313؍ اصحاب کی فہرست میں تئیسویں نمبر پر یوں درج فرمایا : ’’مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب معہ ہر دو زوجہ۔ بھیرہؒؒ۔
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جب آپؓ قادیان ہجرت کرآئے تو کچھ عرصہ بعد خدمت اقدسؑ میں عرض کیا کہ مَیں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں۔ حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں، وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا۔ یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ مَیں آپ کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو۔ فرمایا: ’’آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے‘‘۔
بعد ازاں آپؓ کو جن شاندار خدمات کی توفیق ملی اُن میں مطبع ضیاء الاسلام قادیان کا قیام بھی شامل ہے۔ حضور علیہ السلام کی اکثر کتب آپؓ کے زیراہتمام ہی شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپؓ مدرسہ احمدیہ کی ابتدائی حالت میں اس کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں مدرسہ احمدیہ میں دینیات پڑھانے پر مامور ہوئے۔ نیز حضرت مسیح موعودؑ کے کتب خانہ اور لنگر خانہ کے مہتمم کے طور پر بھی خدمات بجالائے۔ آپؓ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں چار مرتبہ حضرت اقدسؑ کے ساتھ گروپ فوٹو میں شمولیت کی سعادت ملی۔
حضرت حکیم صاحبؓ نے 8؍اپریل 1910ء کو لاہور میں وفات پائی۔ جنازہ قادیان لایا گیا جہاں 9؍اپریل کو بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
آپؓ کا شمار اُن اصحاب میں ہوتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے دولت سے نوازا تھا اور ان کو مال خرچ کرنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔ حضورؑ نے ازالہ اوہام میں بعض مخلصین کا ذکر کرتے ہوئے پہلے نمبر پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ اور دوسرے نمبر پر آپؓ کا ذکر یوں فرمایا ہے:’’حبی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب کے دوستوں میں سے اور ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں۔… رسالہ فتح اسلام … انہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا۔ ان کی فراست نہایت صحیح ہے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفّی اور مزکّی ہے۔ رسالہ ازالہ اوہام کے طبع کے ایام میں دو سو روپیہ ان کی طرف سے پہنچااور ان کے گھر کے آدمی بھی ان کے اس اخلاص سے متاثر ہیں اور وہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض للہ خرچ کرچکے ہیں‘‘۔
بعد ازاں آپؓ نے بھیرہ میں موجود اپنی تمام جائیداد صدرانجمن احمدیہ کے نام ھبہ کردی۔ آپؓ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے کسی کو لکھا: ’’ایک میرے مکرم دوست اللھم اغفرلہ وارحمہ جو میری آسائش کو بہت ضروری سمجھتے تھے، حکیم فضل دین ان کا نام تھا اور قسم قسم کی امدادوں میں وہ لگے رہتے تھے‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں