حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ

روزنامہ الفضل ربوہ 7مئی 2012ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کاٹھگڑھی کے قلم سے اُن کے خاندان کے احمدیت کی آغوش میں آنے کا ایمان افروز تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں جب ہمارا خاندان اکتوبر 1947ء کو لاہور پہنچا تو سنٹرل ماڈل ہائی سکول کے ایک استاد مکرم قمر دین صاحب کے مشورہ پر ہمارے بزرگوں نے شورکوٹ کا رُخ کیا جہاں قمر دین صاحب کے بھائی حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ رہتے تھے۔ حکیم صاحبؓ نے ہمارے خاندان کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور ہر طرح سے مدد کی۔
حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ نے لمبا عرصہ بطور صدر جماعت شورکوٹ خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کا اصل وطن ملتان تھا۔ 26جون 1934ء کے اخبار الفضل میں آپ کا نام بطور اعزازی انسپکٹر مال برائے بستی وریام کملانہ درج ہے۔ مکرم مولوی عبدالرحمان انور صاحب 9 نومبر 1933ء کو بطور مربی سلسلہ شور کوٹ تشریف لے گئے تو انہوں نے آپؓ سے روایت نوٹ کی:
نام حکیم محمد زاہد ولد بدرالدین۔ تاریخ بیعت 1904ء ۔
حضرت حکیم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے پہلی دفعہ قادیان جانے پر وہاں ڈیڑھ ماہ قیام کیا۔ حضرت مسیح موعود کے ساتھ سیر پر جانے کا موقع بھی ملتا رہا۔ ایک دفعہ جب کہ گرمی کا موسم تھا اور بارش نہ ہوتی تھی لوگوں نے صلوٰۃ استسقاء کے لئے حضورؑ سے کہا۔ حضورؑ نے مان لیا۔ آخر دوپہر سے کچھ پہلے مرد حضرت صاحب کے ساتھ گئے اور ہم حضرت امّاں جان کے گروپ میں باغ میں گئے۔ باغ میں ایک حویلی تھی۔ باہر سے حضرت صاحب نے حویلی کے اندر حضرت امّاں جانؓ کے پاس کچھ ٹوکرے آم اور آڑو کے بھجوائے کہ بچوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ چنانچہ حضرت امّاں جانؓ نے ہم سب بچوں میں ان چیزوں کو تقسیم کیا۔
حضورؑ نے صلوٰ ۃ استسقاء باہر میدان میں پڑھائی۔ غالبا ً کافی دیر لگی۔ بالآخر حضرت امّاں جانؓ کے پاس حضورؑ کارقعہ آیا کہ بچوں کو لے کر فوراً شہر چلے جائیں امید ہے سخت بارش ہوگی۔ چنانچہ ابھی ہم شہر پہنچے ہی تھے کہ سخت بارش شروع ہوگئی اور ہمارے کپڑے بھی بھیگ گئے۔
جب مَیں نے بیعت کی تو اس وقت مجلس میں میرے والد بدرالدین صاحب بھی موجود تھے۔ ہم دونوں بھائی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے ساتھ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب بیعت کا موقع بنتا نظر آیا تو میرے والد بدرالدین صاحب نے اونچی آواز سے فرمایا کہ محمد عابد اور محمد زاہد تم دونوں بھی بیعت کرلو۔ اُن کے اس طرح آواز دینے پر حضرت مسیح موعودؑ ہنس پڑے۔ میرے والد صاحب نے عرض کی کہ اگر حضور فرماویں تو بچوں کے نام تبدیل کردوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ محمدﷺ کے طفیل یہ عابد اور زاہد ہو جائیں گے۔
جب مَیں رخصت ہونے کی اجازت لینے کے لئے اندر گیا تو حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ میری آواز سن کر اُٹھ بیٹھے اور حضرت امّاں جانؓ سے فرمایا کہ ان کو روٹیاں دو، انہوں نے سفر پر جانا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کچھ روٹیاں دیں۔ ہم ان روٹیوں کو لے کر ملتان آئے اور ان کو تبرکاً اپنے احباب میں تقسیم کیا۔
حضرت حکیم صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ جب حضورؑ سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو ہم بھی حضورؑ کے تیز چلنے کی وجہ سے ساتھ دوڑتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سیر کے دوران حضورؑ کی سوٹی پر کسی کا پاؤں آگیا اور سوٹی زمین پر گرگئی۔ لیکن آپؑ نے اس وقت مُڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ کس کا پیر حضور کی سوٹی پر آگیا ہے تاکہ وہ شخص شرمندہ نہ ہو۔ بالآخر کسی دوسرے آدمی نے لپک کر حضورؑ کو سوٹی پکڑا دی۔
حضرت حکیم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے تربوز کھانا چاہا تو میرے والد صاحب نے فرمایا کہ تربوز کو نمک لگا کر کھاؤ کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ تربوز کو نمک کے ساتھ کھانا چاہئے۔
حضرت صاحب آخری ایام میں لاہور آئے تو پیغام بلڈنگ میں حضور کا لیکچر ہوا۔ لیکچر کے بعد ایک شخص نے سوال پوچھا کہ مرغی کی گردن بلّی توڑ کر لے گئی وہ پھڑک رہی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے، اُسے کس طرح ذبح کیا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ جس مرغی کی گردن بلّی توڑ کر لے گئی ہے وہ زندہ تو نہ ہوگی اور پھر دو چار آنے کے واسطے ایمان میں خلل ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے!۔
اُنہی دنوں کا واقعہ ہے کہ لاہور پیغام بلڈنگز میں چند ایرانی بیعت کے لئے آئے۔ ان کو بیعت کے لفظ فارسی میں کہلائے۔ چونکہ وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تھے حضرت صاحب کو بعض دفعہ الفاظِ بیعت دہرانے پڑتے تھے۔ بیچ میں بعض دفعہ مولوی محمد احسن امروہی صاحب بول پڑتے تھے۔ حضرت صاحب نے اُن کو فرمایا کہ جب ہم خود موجود ہیں تو آپ کو پڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔
حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ نے شورکوٹ میں بہت شاگرد بنائے۔ سارے علاقہ میں اثر و رسوخ بہت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا بھی رکھی ہوئی تھی۔ بہت کم قیمت لے کر دوا دیتے تھے۔ مرکزی مہمان آتے تو اُن کی خوب مہمان نوازی کرتے۔ آپؓ کے والد صاحب نے گھر کے ساتھ ایک مسجد بنائی تھی لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد 1974ء کے مخدوش حالات میں وہ مسجد احمدیوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آپؓ کے بیٹے حکیم محمود احمد صاحب کو 1974ء کے مخدوش حالات میں بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے ایمان سلامت رکھا۔ وہ آج کل اپنے گھر میں ہی مطب چلا رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ کے ایک بھائی محترم فضل محمد صاحب بھی احمدی تھے۔ اُن کی شادی ہوئی تو حضرت حکیم صاحبؓ نے آدھا مکان اُن کو دیا۔
حضرت حکیم صاحبؓ کی پیدائش 1898ء کی ہے۔ 1948ء میں وصیت کی۔8اگست 1971ء کو وفات پائی اور شورکوٹ شہر میں تدفین ہوئی۔ یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں نصب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں