حضرت خبیب بن عدیؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اپریل 2003ء میں حضرت خبیب بن عدیؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت خبیبؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا اور آپؓ نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کیا۔ غزوہ بدر میں مجاہدین کے اسباب کی نگرانی آپ کے سپرد تھی۔ جنگ احد کے بعد آپ بھی دس صحابہؓ کی اُس پارٹی میں شامل تھے جسے آنحضورﷺ نے خفیہ طور پر مکہ کے قریب جاکر قریش کی کارروائیاں اور حالات دریافت کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اس پارٹی کا بنولحیان کے دو سو تیراندازوں سے مقابلہ ہوگیا۔ چنانچہ سات صحابہؓ شہید ہوگئے اور تین کو قید کرلیا گیا جن میں حضرت خبیبؓ بھی شامل تھے۔
حضرت خبیبؓ کو مکہ لاکر قریش کے پاس بیچ دیا گیا۔ ایک کافر حارث بن عامر بن نوفل کو آپؓ نے غزوہ بدر میں قتل کیا تھا جس کے لڑکوں نے بدلہ لینے کے لئے آپؓ کو خرید لیا ۔ قید کے دوران آپؓ نے اپنی ضرورت کے لئے ایک روز حارث کی بیٹی سے استرا مانگا جو اُس نے دیدیا۔ جب استرا آپؓ کے ہاتھ میں تھا تو اُس لڑکی کا ایک خورد سالہ بچہ کھیلتا ہوا آپؓ کے پاس آگیا جسے آپؓ نے اپنی ران پر بٹھالیا۔ جب بچہ کی ماں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ خوفزدہ ہوگئی لیکن آپؓ نے اُسے تسلّی دی کہ یہ مت سوچو کہ مَیں بچے کو قتل کردوں گا۔
حارث کی بیٹی ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ مَیں نے خبیب سا اچھا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ وہ یہ بھی کہتی تھی کہ اُس نے خبیبؓ کے ہاتھ میں ایک بار انگوروں کا خوشہ دیکھا تھا حالانکہ مکہ میں انگوروں کا نام و نشان نہیں تھا اور خبیبؓ آہنی زنجیروں میں قید تھے۔ حارث کی بیٹی نے آپؓ سے ایک بار کہا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میرا صرف تین باتوں میں خیال رکھنا: مجھے میٹھا پانی پلانا، مجھے بتوں کے نام پر کئی گئی قربانی نہ کھلانا اور جب مجھے قتل کرنے لگیں تو مجھے اطلاع کردینا۔
جب حرمت والے مہینے گزرگئے تو حضرت خبیبؓ کو کفار نے مصلوب کرنے کا پروگرام بنایا۔ آپؓ اپنی شہادت گاہ پر پہنچے تو کفار سے دو نفل پڑھنے کی مہلت مانگی۔ اجازت ملنے پر آپؓ نے نفل ادا کئے اور کفار سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میرا دل نماز کو لمبا کرنے کو چاہتا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کررہا ہوں۔ پھر آپؓ نے دعا کی: اے ہمارے ربّ! ہم نے تیرے رسول کا پیغام پہنچادیا، پس تُو آنحضرتﷺ کو ہمارے حالات سے آگاہ کردے۔ اے اللہ! ان کفار کو شمار کرلے اور انہیں گن گن کر قتل کر اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔
جب کفار آپؓ کو قتل کرنے لگے تو آپؓ نے یہ کہتے ہوئے اپنی جان راہ خدا میں نچھاور کردی: ’’جبکہ مَیں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے یہ پروا نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پر قتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے، اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔
آپؓ کے قاتلوں میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا۔ اُس کا یہ حال تھا کہ جب بھی اُسے حضرت خبیبؓ کی شہادت کا واقعہ یاد آتا تو غشی کی حالت اُس پر طاری ہوجاتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں