حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے شب و روز

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22 مئی 2020ء)

مکرم قریشی محمود احمد صاحب ریٹائرڈ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے کچھ حالات ’’الفضل‘‘ 16؍ستمبر1955ء میں شائع کرائے تھے ان کی والدہ حضورؓ کی حقیقی بھتیجی تھیں۔ یہ خوبصورت مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرّر شائع ہوا ہے۔
محترم قریشی صاحب رقمطراز ہیں کہ میری پیدائش 1896ء کی ہے۔ میں 1910ء میں مخدوم محمد ایوب صاحب بھیروی کے ہمراہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ملاقات کے لیے قادیان گیا تھا۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ بوقت عصر ہم دونوں مسجد مبارک میں پہنچے۔ اس وقت آپؓ عصر کی نماز کے بعد حدیث شریف کا درس ختم کر کے مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دینے کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ آپ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ چلو تمہیں قرآن سنائیں اور ہمیں اپنے ساتھ مسجد اقصیٰ میں لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک درخت کے ساتھ کھڑے ہو کر آپؓ نے تلاوت فرمائی اور پھر اس کی تفسیر کی۔ آپ نے اس درس قرآن کا سلسلہ اپنی عمر کے آخر تک نہایت استقلال سے جاری رکھا۔ ایک مرتبہ آپ کو بوجہ اسہال کچھ ضعف ہو گیااورآپ ایک چٹائی پر لیٹ گئے۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے دریافت کیا: آج درس تو نہ ہو گا؟ آپؓ نے کہنی کے زور سے اٹھ کر فرمایا: ’’درس تو ہماری غذا ہے۔‘‘

جب آپؓ گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوئے تو گھر پر ہی درس دینا شروع کردیااور جب طاقت کچھ بحال ہو گئی تو پھر ایک سونٹا ہاتھ میں لے کر مسجد اقصیٰ میں پہنچنا شروع کر دیا۔ اگر راستے میں تھک جاتے تو ڈپٹی کی حویلی کے تھڑے پر ذرا بیٹھ جاتے اور راستہ چلتے ہوئے بھی لوگوں کو نصائح فرماتے۔ غریب پروری آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ احمد نور کا بلی کی دکان پر امام دین عرف ماٹا ایک ٹوکری میں ابلے ہوئے چنے بیچ رہا تھا۔ یہ کام بھی اس نے آپؓ ہی کے ارشاد پر شروع کیا تھا۔ آپؓ نے اس کی معمولی آمدنی اور عیالداری دیکھ کر فرمایا کہ اگر تمہارا گزارا نہ ہوتا ہوتو ہم تمہارا کھانا لنگر سے لگوا دیتے ہیں۔ اس نے جواب میں کہا کہ ’’نہیں جی واہ واہ گزارا ہو رہا ہے۔‘‘ اس کا جواب سن کر آپؓ پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔
آپؓ کو دوسرے لوگوں کو دینی علم پڑھانے کا بے حد شوق تھا۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن پڑھانے کا ٹھرک ہے اور مجھے اس ٹھر ک پر خوشی ہے۔
آپؓ کا معمول یہ تھاکہ علی الصبح اٹھتے اور اوّل وقت میں نماز فجر مسجد میں لمبی قرا ء ت کے ساتھ پڑھاتے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپؓ درس فرماتے۔ پھر گھر جاتے اور تھوڑی دیر کے بعد چھوٹی بچیوں کو قرآن کریم پڑھاتے۔ پھربڑی لڑکیوں کو قرآن کا سبق دیتے۔ یہ کام دس بجے تک جاری رہتا۔ پھر ناشتہ فرماتے اور مطب میں تشریف لے جاتے جو آپؓ کے آنے سے قبل اکثر بھر جاتا تھا۔ آپؓ مطب میں مریضوں کو دیکھتے اور مناسب علاج تجویز فرماتے۔ اس کے بعد جو باہر سے ڈاک آتی تھی اسے ملاحظہ فرماتے اور چٹھیوں کو تین چار جگہ الگ الگ رکھتے جاتے۔
دعا کی جملہ درخواستیں پیر افتخار احمد صاحب کے پاس بھجوادیتے جو ان چٹھیوں کا خلاصہ ایک مطبوعہ فارم پر درج کردیتے جس میں نام پتہ اور غرضِ دعا مرقوم ہوتی۔ وہ فارم آپ سنبھال کر رکھ لیتے اور عید کے دن نماز عید کے بعد آپؓ بیت الدعا میں تشریف لے جاتے اور درخواست کنندگان کے لیے دعا فرماتے۔
ڈاک میں جو چٹھیاں مریضوں کی طرف سے موصول ہوتیں انہیں آپؓ مولوی غلام محمد صاحب کے سپرد کر دیتے۔ جو ان کے مناسب جواب لکھ کر ارسال کر دیتے۔
جن چٹھیوں کا تعلق دینی مسائل سے ہوتاان میں سے اکثر آپؓ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے حوالہ کردیتے اور کچھ ضروری چٹھیاں اپنے پاس رکھ لیتے اور ان کے جواب خود اپنے ہاتھ سے تحریر فرماتے۔ آپ عموماً پوسٹ کارڈ پر ہی جواب دیتے۔ آپ کی تحریر عموماً

خَیْرُالْکَلَامِ مَاقَلَّ وَدَلَّ

کی مصداق ہوتی۔ دو ایک سطروں میں جواب ختم۔
جن چٹھیوں کاتعلق انجمن کے معاملات سے ہوتا وہ مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری امور انجمن احمدیہ کو بھجوا دیتے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور مولوی محمد علی صاحب ان چٹھیوں کے جوابات آپ کی ہدایات کے ماتحت تحریر فرماتے۔
اس کام سے فراغت پانے کے بعد پھر تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع رہتا۔ ایک مرتبہ حکیم نور محمد صاحب نے عرض کیا کہ میں آپ سے قرآن کریم پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ہم تو سارا دن قرآن شریف ہی پڑھاتے رہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ میں قرآن شریف آپ سے سبقاً سبقاً پڑھوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اَور تو کوئی وقت ہمارے پاس نہیں ہے البتہ جب ہم دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں تم اس وقت پڑھ لیا کرو۔ یہ سبق بھی ایک مستقل درس کی صورت اختیار کر گیا۔
پھر ماسٹر فقیر اللہ خاں صاحب.M.A نے آپؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے قرآن شریف پڑھائیں۔ حضورؓ نے انہیں دوپہر کے وقت قرآن کریم پڑھانا شروع کر دیا۔ اس وقت بھی کافی لوگ جمع ہو جاتے اور عموماً آپؓ کا مطب بھر جاتا۔
پھر شیخ تیمور صاحب.M.Aبھی آپؓ کے طالب علم بن گئے۔ جب انہوں نے تعلیم حاصل کر لی تو آپؓ نے ہنس کر فرمایاکہ ہم نے شیخ صاحب کو عربی کا.M.Aبنا دیا ہے۔
جو لوگ قادیان صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ان کا بیشتر وقت حضورؓ کی صحبت میں ہی گزرتا۔ اور جو لوگ قادیان کے مقیم تھے وہ بھی اپنے فرائض منصبی اور ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اپنا اکثر وقت حضور کی خدمت میں حاضر رہتے۔ آپ عموماً یہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں لکھتے رہتے ہیں کہ ہم انہیں علیحدگی میں وقت دیں۔ مگر علیحدہ ملاقات کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت ہی نہیں۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہاں کام کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم تھک جاتے ہیں مگر میں توسارا دن کام کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتا۔
جب کسی نے قادیان سے جانا ہوتا تو وہ حضورؓ کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ جاتا۔ آپ عموماً لوگوں کو رخصت کرتے وقت ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور مسنون دعائیں پڑھتے۔ اگر کسی کو کرایہ دینا ہوتااور کرایہ پاس نہ ہوتا تو اسے فرماتے ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان فوراً ہی کردیتا۔
آپؓ عشاء کی نماز کے بعد کلام کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ اگر کوئی بلانے کی کوشش کرتاتو فرماتے کہ عشاء کے بعد کلام کرنا منع ہے۔ آپؓ عام طور پر دس بجے صبح سے شام کی نماز تک باہر ہی رہتے۔ دوپہر کا کھانا بھی باہر ہی منگواکر کھاتے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ ضرور شامل کرلیتے۔
مطب میں روز مرہ کی ڈاک پڑھنے کے بعد سب سے پہلے غریب اور نادار مریضوں کو ملاحظہ فرماتے اور انہیں اشارہ کرکے اپنے پاس بلاتے۔ کبھی کوئی چوہڑہ یا چمار مریض ہاتھ جوڑ کر کہتا کہ میں چوہڑہ ہوں تو آپ فرماتے کہ دیکھو ان لوگوں کو کیسا بنا دیا گیاہے۔ میں کہتا ہوں آگے آجائواور یہ آگے نہیں آتے۔ غریب اور گنوار عورتوں کو آگے بلا کر آپ لفظ پُت، بیٹا سے مخاطب کرتیتاکہ وہ نڈر ہو جائیں اور اپنی حقیقتِ مرض کو آسانی سے بیان کر دیں۔ غربا کے بعدآپ دوسرے مریضوں کی طرف رُخ کرتے اور باری باری ہر ایک مریض کا مناسب علاج فرماتے۔ اگر کوئی مریض کچھ نذرانہ پیش کرتا توآپؓ اس کی حالت دیکھتے۔ اگر تو وہ خوشحال نظر آتاتواس کا نذرانہ قبول فرما لیتے اوراگر وہ غریب معلوم ہوتا تو آپؓ اس کا نذرانہ یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ اسے اٹھا لو، اس کا دودھ وغیرہ پی لینا۔ آپؓ نادار مریضوں کو نہ صرف ادویات مفت دیتے بلکہ بسا اوقات ان کے کھانے پینے کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے اور اگر وہ فوت ہو جاتے تو ان کے تجہیزو تکفین کا بندو بست بھی خود ہی فرماتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں