حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا احمدی انجینئرز سے خطاب

ٹیکنیکل میگزین 1999ء کے اردو حصہ کا آغاز سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے اُس خطاب سے ہوتا ہے جو آپؒ نے 30؍اکتوبر 1980ء کو ایسوسی ایشن کے اجتماع سے فرمایا تھا۔

حضورؒ نے اس میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو مختلف قوانین جاری کئے ہیں ان میں سے بعض کو لے کر کائنات کے بعض حصوں پر جب استعمال کیا جاتا ہے تو انجینئرنگ کی شکل نکل آتی ہے۔ انجینئرنگ میں بہت سی مادی اشیاء ہیں اور بعض ایسی چیزیں ہیںجو مادی نہیں اور غیرمادی ہونے کے باوجود مادّہ پر اثرانداز ہیں، ان میں سے ایک زاویہ ہے جس سے آپ سٹیل بار کی طاقت بڑھا دیتے ہیں۔ یہی غیرمادی زاویہ انسان کے چہرے پر اثر ڈالتا ہے۔ دنیا کا کوئی بدصورت سے بدصورت انسان آپ لے آئیں، مَیں اُس کا ایک ایسا زاویہ تلاش کرلوں گا اور وہاں سے اگر اس کی تصویر لوں گا تو وہ دنیا کا بہترین اور خوبصورت چہرہ نظر آنے لگے گا۔ اِس میں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مہارت (تجربہ) دوسرے دیانتداری سے قانون قدرت کا استعمال۔ … دنیا کی بہترین بلڈنگز کا انجینئرنگ کے ساتھ جو تعلق ہے اس کی مثال غرناطہ میں الحمراء محل کی ہے۔ دنیا کے بہترین تین ہزار سنگتراش برسوں ان محلات کی تعمیر کیلئے کام کرتے رہے۔ جب محل تیار ہوگیا اور بادشاہ گھوڑے پر سوار ہوکر درباریوں کے ساتھ اِسے دیکھنے کیلئے آئے تو فصیل کے دروازے پر پہنچ کر شیطان نے اُنہیں وسوسہ پیدا کیا کہ مَیں اتنا بڑا بادشاہ، اتنے ہزار سنگتراش کام کر رہے ہیں، اتنی دولت مَیں نے خرچ کی … تو ان کو فرشتوں نے جھنجھوڑا اور انہوں نے گھوڑے سے چھلانگ لگائی اور زمین پر سجدہ کیا اور واپس ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محل میرے رہنے کا نہیں، سارے نقوش کو مٹاؤ اور ازسرنَو نقوش میری ہدایت کے مطابق بناؤ اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ جو نئے نقوش ہوئے ان کا موٹو تھا’’لاغالب الا اللّٰہ‘‘۔ اسی طرح محل ’’الحکم للّٰہ، القدرۃ للّٰہ، العزّۃ للّٰہ‘‘ یعنی خدا تعالیٰ اور اُس کی صفات سے سجایا گیا ہے۔
پھر جہاں قلعہ بنایا گیا وہاں چشمہ کوئی نہیں تھا۔ اُس زمانہ کے مسلمان انجینئر کے دماغ نے کس طرح کام کیا اور الحمراء جس پہاڑی پر واقع ہے اُس سے پرے ایک اونچا پہاڑ ہے ہزار ڈیڑھ ہزار فٹ اونچا جو سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے اور برف پگھل کر مٹی کے اندر جذب ہوتی رہتی ہے پھر زمین دوز نالیوں کی صورت میں بہہ کر کئی کئی میل کے بعد زمین سے پانی پھوٹتا ہے۔ انہوں نے زمین دوز پانی کا رُخ موڑا اور اندر ہی اندر محل تک لے آئے اور وہاں پہاڑ کی چوٹی پر نہر جاری ہوگئی۔ آج کا انسان اُس کو ہاتھ نہیں لگاتا ۔ ڈرتا ہے کہ اگر ہم نے چھیڑا تو یہ نہ ہو کہ پھر ہم پانی کو یہاں قائم نہ رکھ سکیں اور یہ باغ، درخت، پھول وغیرہ سب کچھ ختم ہو جائے۔ اُن (مسلمانوں) نے گلاب کے پھول کا کامیاب پیوند بادام اور خوبانی کے درخت پر بھی لگایا تھا۔
پھر وہ رنگ جو 700 سال پہلے ان چھتوں پر کیا گیا اس میں سفید رنگ بھی ہے اور نیلا بھی۔ اس وقت دنیا میں فرسٹ کلر (تیار کرنے) میں جرمنی نے سب سے زیادہ مہارت حاصل کی لیکن وہ بھی نیلا رنگ نہیں بناسکے۔ اور ہمارے مسلمان بادشاہ جو ہندوستان میں تھے، انہوں نے (بھی) نیلا رنگ (جو Fade نہیں کرتا) بنالیا تھا۔
اسی طرح ٹھٹھہ کی ایک مسجد میں سامعین کیلئے بغیر لاؤڈ سپیکر کے آواز پہنچادی گئی۔ پتہ نہیں انہوں نے کیا جادو چلایا!۔ اس کا صحن بہت بڑا ہے اور صحن کے ہر گوشے میں اسی طرح آواز آتی ہے۔
الحمراء میں ایک گنبد کے نیچے انہوں نے غار ثور کی شکل بنائی ہے اور مکڑی کے جالے کو Off White رنگ کیا ہے جو سات سو سال سے اسی طرح ہے۔ Icicles (برف کی قلمیں) لٹکے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ان میں سے کوئی نہیں گرا۔ نیچے کبوتر کے گھونسلے بھی پتھر کی شکل میں بنائے ہوئے ہیں۔
انجینئر قوانینِ قدرت کو لے کر اس سے حسن پیدا کرتا ہے، افادیت پیدا کرتا ہے۔ اس ضمن میں مَیں نے زاویہ لیا تھا۔ گنبد بھی زاویہ میں آگیا۔ الحمراء کے صحن کے چاروں طرف برآمدہ ہے جس میں 124 ستون ہیں اور ہر ستون نو انچ یا ایک فٹ قطر کا نیچے سے اٹھا ہے اور بغیر کسی جوڑ کے آٹھ یا نو فٹ اوپر گیا ہے، پھر نقش و نگار ہوکے محراب کے ساتھ پھیل گیا ہے۔ جہاں سے ستون اٹھایا ہے وہاں بھی اور اوپر بھی سکے کی پلیٹ رکھی ہے تاکہ اگر کسی وقت ستون ٹوٹ جائے تو اسکی جگہ دوسرا فِٹ ہو جائے۔ کئی جگہ تین ستون ہیں۔ کیونکہ زلزلہ کے جھٹکے آتے تھے تو جس طرف سے زلزلہ کی Waves آتی تھیں ادھر اصول کے مطابق یہ بنائے گئے ہیں … حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں کمال حاصل کرنا ہے، اُس کے لئے ضروری ہے کہ تدبیر کو اپنی انتہاء تک پہنچائے۔ جب یہ دونوں چیزیںمل جائیں، اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو پھر جو نتیجہ نکلتا ہے اس میں یہ حسن ظاہر ہوتا ہے جو ہمیں ’’الحمرائ‘‘ کے محل میں نظر آیا۔
جہاں جہاں بھی ہمیں حسن نظر آتا ہے مثلاً تاج محل ہے۔ بادشاہ کا پیار تھا اور انجینئر کی ذہانت اور دلیری تھی۔ دنیا میں انسانی زندگی میں بہت جگہ زاویہ ظاہر ہوا ہے۔ رائفل کی ایک بُلٹ جاتی ہے اور کئی کئی میل سے نشانہ پر بٹھا دیتی ہے۔ راکٹ ہزارہا میل پر سے کیلکولیشن کرتے ہیں۔
میری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک احمدی اور غیراحمدی میں مابہ الامتیاز (فرقان) ہونا چاہئے۔ اور فرقان کی نمایاں چیز ہر قسم کی دیانت، پیسے کے لحاظ سے، محنت کے لحاظ سے، محبت کام میں اور اپنے فن سے پیار اور یہ Urge کہ مَیں نے کوئی چیز پیدا کرنی ہے۔ … کسی سے پیچھے نہیں رہنا، کوئی دھبہ آپ کے چہرہ پر نہ ہو، ہر کام جو کرنا ہے وہ ایسا کرنا ہے کہ عمارت دیکھ کے دنیا سمجھ جائے کہ کسی احمدی انجینئر کی بنی ہوئی ہے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کا ایک رعب قائم کیا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تو اس کو خراب نہ کریں۔ … دعا کیا کریں …کہ ہم میں سے ہر ایک شخص، انجینئر، ڈاکٹر اور جو دوسرے پروفیشن والے ہیں وہ اپنے اندر امتیاز پیدا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں