حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی قبولیت دعا
لجنہ اماء اللہ ناروے کے سہ ماہی رسالہ ’’زینب‘‘ اپریل تا جون 2008ء میں مکرمہ طاہرہ زرتشت صاحبہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی قبولیت دعا کے چند واقعات بیان کرتی ہیں۔
1974ء کے فسادات حکومت وقت کی سرپرستی میں زورشور سے جاری تھے۔ اُنہی دنوں میری شادی ہوئی تھی اور مَیں اپنے سسرال میں مقیم تھی۔ میرے میاں (مکرم زرتشت منیر صاحب امیر جماعت احمدیہ ناروے)، والد اور بھائی تو اپنے دفاتر سے سیدھے جماعتی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے اور گھر پر ہم تین عورتیں رہ رہی تھیں۔ حفاظت کا سامان دعاؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہم ہر وقت چوکس رہتیں، چھت پر جاکر ہیلمٹ پہن کر اور ڈنڈا ہاتھ میں لے کر پہرہ دیتیں۔ مرچوں کی پوٹلی ہر وقت پاس رہتی۔ مَیں حاملہ بھی تھی۔ دن رات دعاؤں اور قرآن کریم کی تلاوت میں گزرتا۔ اپنے دل کے خوف یا تو اپنے خدا سے بیان کرتی یا پھر ہر ہفتے حضورؒ کی خدمت میں خط کے ذریعہ اظہار کرتی۔ حضورؒ بہت تسلّی دیتے اور اکثر لکھتے کہ ’’غم نہ کرو، بس دعا کرتی رہو، خدا تعالیٰ خود حفاظت فرمائے گا، مَیں بھی دعا کر رہا ہوں‘‘۔ اِن جوابات سے بہت تسلّی ملتی۔ ایک رات قرآن کریم پڑھتے ہوئے مجھے اونگھ آئی اور مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لاتے ہیں۔ نورانی سراپا… میرے پاس آکر کھڑے ہوئے، میرے سر پر پیار دیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا مضبوط عصا لہراتے ہوئے فرمایا: ’’کیوں غم کرتی ہو، خدا تمہاری حفاظت کر رہا ہے اور کسی کی طاقت نہیں کہ تمہارا کچھ بگاڑ سکے‘‘۔ پھر حضرت اقدسؑ نے مجھے دیسی گھی کی بھری ہوئی چاندی کی گڑوی جس پر درّثمین لکھا ہوا تھا اور چند نوٹ عنایت فرمائے۔ اس نظارہ کے بعد میری غم کی حالت سکون میں بدل گئی۔
مَیں نے مذکورہ خواب حضورؒ کی خدمت میں لکھ دی، میرے میاں نے ایک خط آئندہ ہونے والے بچہ کا نام رکھنے کا لکھا ہوا تھا۔ حضورؒ کا جواب آیا کہ ’’خواب بہت مبارک ہے اور بچہ کا نام مَیں نے کیا رکھنا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے۔ بیٹی ہوگی اور درّثمین نام رکھ دیں‘‘۔ اُن دنوں پیدائش سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ دوسری طرف اُس دن کے بعد محلہ میں ایک رعب قائم ہوگیا۔ مخالفین کہنے لگے کہ ہم نے مسلح لوگ باہر سے منگوائے ہوئے ہیں جو ہمارے گھر کا پہرہ دیتے ہیں۔
جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو میرے میاں نے، جو گریڈ 16کے حکومت پنجاب کے ملازم تھے، وفاقی حکومت کی دو آسامیوں کے لئے اپلائی کیا۔ ایک گریڈ 17کی تھی اور دوسری گریڈ 18 کی۔ آپ نے حضورؒ کی خدمت میں صورتحال لکھ کر دعا کی درخواست کی کہ مجھے معلوم ہے کہ گریڈ 18 کے لئے میرا انتخاب نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود مَیں اپلائی کر رہا ہوں۔ آپ دعا کریں کہ خدا فضل فرمائے۔ حضورؒ کا جواب آیا: ’’اللہ تعالیٰ بہترین جگہ عطا فرمائے گا‘‘۔ یہ حضورؒ کی قبولیتِ دعا کا معجزہ ہی تھا کہ آپ کو گریڈ 17کے لئے بلایا ہی نہیں گیا بلکہ گریڈ18کے لئے انٹرویو کیا گیا اور بے شمار لوگوں میں سے صرف آپ کا انتخاب عمل میں آیا جس کا تصور بھی نہیں تھا۔
جب میرے میاں کراچی میں تھے تو بیرون ملک ملازمت کے لئے بھجوائے جانے والی اہم پوسٹ پر تعینات تھے۔ بیرونِ ملک جانے والوں کے پاسپورٹ اور معاہدہ پر آپ کے دستخط اور مہر ہوتی تھی۔ آپ خدام الاحمدیہ کے قائد ضلع بھی تھے۔ اس لئے مخالفت بھی بہت تھی۔ جب ایک سال آپ اجتماع کے لئے ربوہ گئے تو مخالفین نے طوفان اٹھادیا اور احمدیت دشمنی میں اتنے الزام لگادیئے کہ ضیاء الحق کے ایک وزیر جو خود بھی احمدیوں کے سخت مخالف تھے، انہوں نے انکوائری بٹھادی۔ ہم سب بہت پریشان تھے کہ چند دنوں میں ملازمت ختم ہوجائے گی۔ اُنہی دنوں حضورؒ کراچی تشریف لائے۔ سارے حالات حضورؒ کو لکھے ہوئے تھے۔ جب ہم ملاقات کے لئے گئے تو میرے میاں نے حضورؒ سے صرف جماعتی باتیں کیں اور اپنے بارہ میں کچھ عرض نہیں کی۔ اس پر مَیں نے عرض کیا کہ حضور! ان کے دفتر میں شدید مخالفت ہورہی ہے، ساتھیوں کی طرف سے بھی اور باہر سے بھی اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اس قادیانی کو نہیں رہنے دیں گے۔ حضورؒ نے میری بات سن کر بڑے رعب سے فرمایا: ’’تم اس کی فکر نہ کرو، اس کی تو پروموشن ہونے والی ہے‘‘۔ یہ ایسی بات تھی جس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ بات لفظ بہ لفظ پوری ہوئی اور احمدیت کے مخالف وزیر کو جلد ہی وزارت سے فارغ کردیا گیا اور انہوں نے چارج دیتے ہوئے جن فائلوں کو نبٹایا اُن میں زرتشت صاحب کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے پروموشن کی منظوری بھی تھی۔