حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ 24 جولائی 2009ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے انعقاد کی جو اغراض بتائی ہیں اُن کو اگر مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ تقویٰ کا قیام ہے۔

               تقویٰ کیا ہے؟ لغات میں لکھا ہے کہ اس کے معنی ہیں ’’اپنے آپ کو گناہوں اور مشکلات سے بچانا‘‘۔ تقویٰ کو اس طرح بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک شخص جو کانٹے دار جھاڑیوں میں سے گزر رہا ہو اور ہر ممکن کوشش کر رہا ہو کہ اُس کے کپڑے ان کانٹے دار جھاڑیوں میں الجھ کر پھٹنے سے بچ جائیں۔

               ایک عرب شاعر نے اس کو یوں بیان کیا ہے     ؎

خَلِّ الذُّنُوْبَ صَغِیْرَھَا

 وَ کَبِیْرَھَا  ذَاکَ التُّقٰی

وَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ

اَرْضِ الشَّوْکِ یَحْذَرُ مَا یَریٰ

لَا تَحْقِرَنَّ صَغِیْرَۃً

اِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحَصٰی

(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر جلد اول صفحہ75زیر آیت سورۃالبقرۃ آیت 3دارالکتب العلیمۃ بیروت1998ء)

                یعنی ہر چھوٹے اور بڑے گناہ سے بچو یہ تقویٰ ہے۔ اور اس طرح عمل کرو جس طرح وہ شخص احتیاط کرتا ہے جو کانٹے دار جھاڑیوں کے درمیان چل رہا ہو اور اُس چیز سے محتاط ہو جسے وہ دیکھتا ہے۔ چھوٹے گناہوں کو بھی معمولی نظر سے نہ دیکھو کیونکہ پہاڑ بھی چھوٹے کنکروں سے اور پتھروں سے مل کر بنتے ہیں۔

               پھر ایک لغت مفردات میں لکھا ہے کہ کبھی کبھی تقویٰ اور خوف ایک دوسرے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔  (معجم مفردات الفاظ القرآن لامام راغب زیر مادہ ’’وقی‘‘)

                جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہ ِ(البقرۃ:282)۔ اُس دن سے ڈرو جب تمہیں اللہ کے حضور لوٹایا جائے گا۔ پھر ایک جگہ فرمایا۔ اِتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (آل عمران:103)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور ساتھ ہی فرمایا وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:103)۔ اور نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پوری طرح فرمانبردار ہو۔ یعنی اس بات کا خیال رکھو کہ تمہیں فرمانبرداری کی حالت میں موت آئے۔ موت کے آنے کا وقت تو کسی کو نہیں پتہ۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر چلو۔ کوئی لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کے احکامات سے دور لے جانے والا اور غافل کرنے والا نہ ہو۔ اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے کہ اس بات پر کامل یقین ہو کہ موت کے بعد میں پوچھا جاؤں گا، میری جواب طلبی ہو گی۔ اور جب اس بات پر یقین ہو گا تو تقویٰ پر چلنے اور کامل فرمانبرداری دکھانے کی ایک مومن کوشش کرے گا اور کرتا ہے۔ اِتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ میں جہاں ہمیں اس طرف توجہ رہتی ہے کہ ہم اپنے مقصدِ پیدائش کو سامنے رکھیں اور جو ہمارے فرائض ہیں اُنہیں ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں، وہاں اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ اگر ہم اس کوشش کی طرف قدم بڑھانے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کا رحم اور بخشش ہمارے شامل حال ہو گی۔

               ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے اُس کو دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دوں گا ۔اور اگر برائی کرتا ہے تو اُس برائی کے برابر جزا دوں گا یا اُسے بخش دوں گا۔ اور جو شخص ایک بالشت میرے قریب آتا ہے مَیں ایک گز اُس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور جو ایک گز میرے قریب ہوتا ہے، مَیں دو گز اُس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور جو میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے، مَیں اُس کے پاس دوڑتے ہوئے جاتا ہوں۔ اور اگر کوئی شخص دنیا بھر کے گناہ لے کر میرے پاس آئے گا بشرطیکہ اُس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو مَیں اُس کے ساتھ اتنی ہی بڑی بخشش اور مغفرت سے پیش آؤں گا اور اُسے معاف کر دوں گا۔

   (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء … باب فضل الذکر والدعاء …حدیث:2687)

               پس یہ کوشش ہے جو ہر مومن کو کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے۔

                اس بارے میں ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرنی چاہئے اور کبھی نافرمان نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیشہ اُس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور کبھی ناشکرگزار نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہمیشہ اُس کو یاد رکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھولنا نہیں چاہئے۔

 (المعجم الکبیر للطبرانی جلد9صفحہ 92 من مناقب ابن مسعود حدیث8502 مطبوعہ داراحیاء التراث 2002)

                یہ معیار ہیں جو تقویٰ کے بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ باتیں ہمارے پیشِ نظر رہیں اور ہم خدا تعالیٰ کی طرف نہ صرف یہ کہ چل کر جائیں بلکہ دوڑ کر جائیں اور اُس کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، اُس سے چمٹنے کی کوشش کریں تو پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بندے سے بے انتہا بخشش اور مغفرت کا سلوک فرمائے گا۔

               پس ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کامل فرمانبردار بنے۔ شکر گزاری کے جذبات سے ہمیشہ بھرے رہنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات کو ہمیشہ یاد رکھے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے اُس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَر۔ یعنی اللہ کی یاد یقینا سب کاموں سے بڑی ہے۔ اور آیت کا یہ حصہ کہ   وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(آل عمران:103) اور نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو، کا بھی یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ تمہارے پیشِ نظر رہے کیونکہ سب سے بڑی چیز یہی ہے جس کے حصول کی تمہیں کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ ہمیں ہر چیز سے مقدم نہ ہو، نہ ہی ہم کامل فرمانبردار ہو سکتے ہیں، نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اُس کی طرف قدم بڑھانے والے کہلا سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ موت کے وقت کا کسی کو علم نہیں اور جب علم نہیں تو مرنے کے بعد سوال جواب، جزا سزا کا خوف ایک مومن بندے کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تقویٰ پر قدم مارنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ اور جب یہ خوف ہو گا اور اپنی بساط کے مطابق عاجز بندہ اپنے خدا کو یاد کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہو گاتو خدا جس کی رحمت ہر شے پر حاوی ہے اُس بندے کو موت بھی اُس وقت دے گا جب وہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پانے والا ہو گا۔

               پس اللہ تعالیٰ نے اپنی بے انتہا وسیع رحمتوں کے اعلان کے باوجود جب عبادات اور اعمالِ صالحہ بجالانے پر قرآنِ کریم میں کثرت سے زور دیا ہے تو وہ اس لئے ہے کہ انسان اپنی سی کوشش جو کر سکتا ہے وہ کرے پھر بخشش اور مغفرت کے سامان اللہ کی رحمت اور فضل سے ہونے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی غلطیوں اور گناہوں کی اُس کے برابر سزا دیتا ہے جتنی غلطیاں ہوں۔ لیکن فرماتا ہے نیکیوں کی جزا دس گنا بلکہ سینکڑوں گنا تک بھی دے دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث انسان اپنے نیک اعمال کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت اور فضل سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کوشش اور نیک نیتی سے کوشش کرنا انسان کا کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو خوب جانتا ہے۔  اس لئے انسان کو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دلوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں۔ اور یہ کوشش اُس وقت ہو گی جب دل میں تقویٰ ہو گا۔ یہ جائزے اُس وقت ہوں گے جب تقویٰ کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں گے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تقویٰ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

               ’’قرآنِ شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے۔ اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدرتاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے۔ اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے‘‘۔  (ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ342)

               پھر فرمایا:’’ عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ50۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

                اس زمانے میں چاروں طرف دنیا داری اور فتنوں کا زور ہے۔ بعض فتنے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دین کے نام نہاد عالموں نے اس لئے برپا کئے ہوئے ہیں کہ تقویٰ کی کمی ہے۔ آج پاکستان دیکھ لیں، افغانستان دیکھ لیں، یہی کچھ ہے۔ مسلمان کہلانے کے باوجود مذہب کے نام پر جتنا خون کیا جا رہا ہے وہ سب اسلام کے نام پر دھبہ ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ اسلام جو پیار اور محبت کا مذہب ہے اس کو ایک شدت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور مخالفینِ اسلام اس بات سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ پس آج وہ احمدی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی توفیق پائی ہے، آپؑ کی تعلیم کی روشنی میں تقویٰ کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اس حصنِ حصین اور مضبوط قلعہ میں محفوظ ہیںجو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں۔ آج جب دنیا میں ہر جگہ فساد برپا ہونے کے نظارے نظر آتے ہیںتو احمدی ہی ہیں جو خالصتاً دینی غرض کے لئے اپنے جلسے مقرر کرتے ہیں اور اب یہ جلسے دنیا کے ہر ملک میں جہاں احمدیت قائم ہے منعقد ہوتے ہیں۔ اُن جلسوں کے نمونوں پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی میں منعقد فرمائے اور اُن کی تتبع میں آج یہ یوکے کا جلسہ سالانہ بھی یہی مقصد لئے ہوئے شروع ہو رہا ہے۔

               پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس مقصد یا وہ مقاصد جن کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کا اجراء فرمایا تھا، ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے اور اُس کا خلاصہ، جیسا کہ مَیں نے کہا، یہی ہے کہ تقویٰ میں ترقی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے الفاظ میں اس جلسہ کی کچھ اغراض بیان فرمائیں، جن کو پڑھ کراور سن کر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں جبکہ ہر جگہ فساد کی حالت طاری ہے، تقویٰ کے اس حصنِ حصین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہاتھ پکڑ کر ہی داخل ہو اجا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پر اگر انسان غور کرے اور ہمیشہ ذہن میں یہ رہے کہ مَیں نے تو اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد رکھنے کے لئے آپؑ سے ایک عہدِ بیعت کیا ہوا ہے۔ جب اس عہد کا احساس ہو گا تو اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد رکھنے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو گی۔ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ لیکن اگر دل کے اندر کا احساس نہ جاگے تو ہزاروں تقریریں اور نصائح سننے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔بیشک یہ تقریریں سنتے رہیں، وقتی طور پر تو شاید تھوڑی دیر کے لئے دل نرم ہو جائیں لیکن مستقل توجہ نہیں ہوتی۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احبابِ جماعت کو جلسہ پر اس لئے بلایا تا کہ وہ حضور علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہو کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی حاصل کر لیں کہ دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں۔خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو۔زہد میں نمونہ بنیں۔ تقویٰ میں نمونہ بنیں۔ خدا ترسی میں نمونہ بنیں۔پرہیز گاری میں نمونہ بنیں۔ نرم دلی میں نمونہ بنیں۔باہم محبت اور مؤاخات میں نمونہ بنیں۔انکسار اور تواضع پیدا ہو۔راستبازی پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اب ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں تو کیا یہ تمام فیوض اور برکات جو اس جلسہ کے تھے ختم ہو گئے؟ اگر ختم ہو گئے تو ان جلسوں کے انعقاد کا کیا مقصد ہے؟ لیکن نہیں، ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ہمیں یہ فرمایا تھا کہ مسیح محمدی کی آمد کے بعد اسلام پر آنے والا اندھیرا دَور ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔

               پس جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی اس جماعت کے ذریعہ دنیا میں لانا چاہتے تھے اُس نے قائم رہنا تھا تو اسلام کے سورج نے ایک نئی شان سے دنیا پر چمکتے ہوئے اپنی روشنی سے دنیا کو منور کرنا تھا۔ پس بیشک یہ تمام خصوصیات ، یہ نیکیاںجن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے آپؑ کی صحبت کی وجہ سے آپؑ کے ماننے والوں، آپؑ کے ساتھیوںمیں، صحابہ میں فوری اور واضح طور پر ظاہر ہوتی رہیں۔ان ماننے والوں میں ایک انقلاب نظر آتا رہا۔لیکن آپ ؑ ہمارے لئے قرآنِ کریم کی روشن تعلیم کی جو تفسیریں ہیں اُس کا ایک عظیم خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرما گئے ہیں کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں، قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ یہ غلبہ تقویٰ میں ترقی کی وجہ سے اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی وجہ سے ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ وعدہ ہے کہ  اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْر(البقرۃ:258)اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا ولی اور دوست ہے جو ایمان لائے۔وہ اُنہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔

               پس جو لوگ اپنے ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کریں گے، تقویٰ پر قدم ماریں گے اُن کے لئے یہ جلسے جو تقویٰ میں ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری فرمائے ہیں، نہ صرف اپنے اندر روحانی ترقیات پیدا کرنے کا باعث بنیں گے بلکہ دوسروں کے لئے بھی رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے اور بنتے رہیں گے۔ انشاء اللہ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہر سال دیکھتے ہیں کہ کئی کمزور ایمان والے بھی جلسوں میں شامل ہو کر ایک نئی روح اور عزم لئے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ اور جو غیر از جماعت مہمان آتے ہیں اُن کے لئے بھی یہ احمدیت کے بارے میں سوچنے کا موقع ہوتا ہے۔وہ یہ تاثرات قائم کرتے ہیں کہ احمدیت جو ہے یہ کوئی انوکھی چیز ہے، کوئی منفرد چیز ہے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیرو ہیں۔ پس ہر احمدی کوہمیشہ دعاؤں کے ذریعہ اور اپنی ظاہری کوشش کے ذریعہ، اعمال صالحہ بجا لانے کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سچے پیرَو بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور سچے پیرو کس طرح بننا ہے؟

               آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں۔خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔وہ درد جس سے خدا راضی ہواُس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اُس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضبِ الٰہی ہو۔…… اگر تم صاف دل ہو کر اُس کی طرف آ جاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘۔ فرمایا: ’’ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔…… تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے۔ اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے‘‘۔         پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’ اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے مطابق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قومِ برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ‘‘۔

 (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ307-308)

               یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان۔

                پس آج اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی میں ایک بار پھر ہمیں موقع دیا ہے کہ اپنے عہدِ بیعت کی تجدید کرتے ہوئے اُن اعمال کے بجا لانے کی کوشش کریں جو تقویٰ کی جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ اُس کھاد کو استعمال کریں جو تقویٰ کے درخت کی نشوونما کے لئے ضروری ہے۔ اُس پانی سے اپنے دلوں کو سیراب کریں جس سے تقویٰ کے ثمرآور درخت پروان چڑھیں۔ اور اس کے لئے جن چند اہم باتوں کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے۔ مَیں نے جو اقتباسات پڑھے ہیں اس میں جیسا کہ ہم نے دیکھا،آپ ؑنے فرمایا کہ ’’اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو‘‘۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جو نیکی اور پاکیزگی کا بیج رکھا ہے اُس کی نشوونما کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نیکی کا وہ بیج جس کی وجہ سے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی یا اب تک احمدیت پر قائم رہنے کی توفیق ملی یا خلافت سے جڑے رہنے کی توفیق ملی اُس کو صیقل کرتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اُس کو مزید چمکانے کی کوشش کرتے چلے جانا چاہئے۔ اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم پہلے قدم قدم چل کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف بڑھتے تھے تو اب ایک مومن کو تیز چلنے کی کوشش کرتے ہوئے خدا کی طرف آنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہمارا پیارا خدا دوڑ کر ہمیں اپنی آغوش میں لے لے۔ آج ہر سعید فطرت ہی ہے جو احمدیت قبول کرتا ہے اور احمدیت پر قائم رہتا ہے۔ پس اس سعید فطرت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے یا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا’’ پاک قوتوں کو ضائع مت کرو‘‘۔ اُن قوتوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ جلسے اسی غرض کے لئے ہیں کہ یہاں کے ماحول کی وجہ سے جبکہ روحانی اور علمی مضامین بیان ہو رہے ہیں، نیکیاںکرنے کی تلقین کی جا رہی ہے تو پاک قوتوں کو نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔

               حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓاپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں ایک بزرگ کے پاس جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ نہیں گیا تو انہوں نے بڑا شکوہ کیا اور فرمانے لگے کہ کبھی تم نے قصاب کو گوشت کاٹتے وقت چھریوں کو ایک دوسرے سے رگڑتے دیکھا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ ہاں دیکھا ہے۔ تو ان بزرگ نے کہا کہ وہ اس لئے چھریاں رگڑتا ہے کہ گوشت کی کٹائی کرتے ہوئے جو چربی چھریوں پر آ جاتی ہے وہ بھی صاف ہو جائے اور چھریاں تیز ہو کر آسانی سے کام کریں۔ اس طرح جب آپ آتے ہیں تو آپس کی روحانی اور علمی باتوں سے کچھ میرے اندر تیزی پیدا ہوتی ہے، کچھ آپ میں۔ اس لئے ملتے رہنا چاہئے۔  (ماخوذ از حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ53)

               پس ایک مومن کا کام یہی ہے کہ اپنی پاک قوتوں کو ضائع کرنے کی بجائے اُنہیں اور چمکائے تا کہ جہاں اپنی اصلاح کا ذریعہ بنے وہاں دوسروں کے لئے بھی نفع رساں وجود بنے۔ اور پاک قوتوں کو نفع مند بنانے کے لئے آپؑ نے جو پہلی بات فرمائی وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف جھکو۔ اور خدا کی طرف جھکنا کیا ہے؟ اُس کا ذکر اور اُس کی عبادت ہے۔ اور یہی چیز خدا کا قرب دلاتی ہے۔ اور اگر انسان حقیقی عبدِ رحمان بننے کی کوشش کرے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو جاؤ گے۔ تم وہ لوگ ہو جاؤ گے جو اُس کے خاص چنے ہوئے اور پسندیدہ لوگ ہیں۔ پس خدا کا پسندیدہ بننے کے لئے عبادات اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہی چیز ہے جو تقویٰ میں اضافے کا باعث بنتی ہے بشرطیکہ خالصتاً  لِلّٰہ کی جائے۔

               عبادات کا جو طریق خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے اُس میں سب سے بڑھ کر نماز ہے بشرطیکہ صحیح طرح ادا کی جائے۔ یہی نماز ہے جو پھر تقویٰ بھی پیدا کرتی ہے اور برائیوں سے بھی روکتی ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّقُوْہُ(الانعام:73)۔ نماز کو قائم کرو اور اُس کا تقویٰ اختیار کرو۔ پس نماز کا قیام یہی ہے کہ اُس کو تمام شرائط کے ساتھ اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کروتو یہ تمہیں تقویٰ پر چلائے گی اور ہر برائی سے تمہاری ڈھال بن جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔  اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ(العنکبوت:46)۔ کہ نماز قائم کرو، یقینا نماز تمام ناپسندیدہ اور بری باتوں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد، اُس کا ذکر سب کاموں سے بڑا ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ679۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

                شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جس قدر اپنی اصلاح کرے گا اس ذریعہ سے کرے گا۔ پس نماز میں سستیاں پیدا ہوتی ہیں تو وہ شیطان کے حملوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور نماز ہی اصل میں دعا ہے اور نماز ہی پھر اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف عام حالات میں بھی متوجہ رکھتی ہے۔

                بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیا، نمازیں نہ بھی پڑھیں تو یہ ذکر ہی نماز کا قائم مقام ہو گیا۔یہ غلط بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میںہر جگہ نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس لئے فرض نمازوں کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے کے بعد پھر نفلی نمازیں پڑھنے کا بھی حکم ہے تا کہ تقویٰ کے معیار بلند ہوں اور انسان ایک جگہ پرکھڑا نہ رہے۔وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَر جو یہاں کہا تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جوذکر نماز میں کیا جاتا ہے وہ سب سے بڑھ کر ہے۔ سورۃالجمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہ (سورۃ ا لجمعۃ:10)۔  یعنی جب جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے جلدی جلدی جایا کرو۔

               پس نماز ہی سب سے بڑا ذکر ہے۔

                پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(النساء:104)  یعنی اور جب بھی تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلؤوں پر یاد کرتے رہو اور جب اطمینان ہو جائے تو نماز کو قائم کرو، تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ کیونکہ نماز مومنوں پر وقتِ مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔

               پس اگر جنگ کی حالت میں یا ہنگامی حالت میں، سفر کی حالت میں نماز قصر کرنے کا حکم ہے تو اس کمی کو کثرت ذکر الٰہی سے ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے انسان غافل نہ ہو۔ اور پھرجب امن کی حالت پیدا ہو جائے، نارمل حالات پیدا ہو جائیں تو پھر وقتِ مقررہ پر نمازوں کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ پس نماز کے علاوہ ذکرِ الٰہی کوئی چیز نہیں۔ ذکرِ الٰہی جو ہے نماز کا قائمقام نہیں ہو سکتا بلکہ ایک زائد چیز ہے جو عبادتوں میں کمی کو پورا کرنے کے لئے کرنے کا حکم ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں رہے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر وقت پر نمازیں ادا کر رہے ہو تو کسی قسم کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں،بلکہ یہ نمازیں اس لئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یاد ہمیشہ رہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ’’ ایک نماز سے دوسری نماز تک کا انتظار کرنا ہی مومن کی علامت ہے۔‘‘   (سنن نسائی کتاب الطہارۃ باب الفضل فی ذالک حدیث143)

               پس یہ انتظار اُس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد بھی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی ہمارے سامنے یہی ہے۔ آپؐ کی زبان تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور شکر سے تر رہتی تھی لیکن احادیث میں ہمیں آپؐ کی نمازوں کی وقت پر ادائیگی اور نوافل کے قیام اور رکوع اور سجود کی لمبائی کا بھی ذکر ملتا ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو فرماتے ہیں کہ’’ میری زبان نیند میں بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہوتی ہے۔‘‘(صحیح بخاری کتاب المناقب باب کان النبی ﷺ تنام عینہ ولا ینام قلبہ حدیث3569)

                لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے اکثر حصے کو نوافل کی ادائیگی میں گزارتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسا ن نے کسی خاص منزل پرپہنچنا ہے تو اُس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنی لمبی وہ منزل ہو گی اتنا ہی زیادہ تیزی، کو شش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہو گا۔ سوخدا تعا لیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بُعد اور دُوری بھی لمبی ۔ پس جو شخص خدا تعا لیٰ سے ملنا چا ہتا ہے اور اس کے دربا ر میںپہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نما ز ایک گا ڑی ہے جس پر سوار ہوکر وہ جلدتر پہنچ سکتا ہے۔ جس نے نما ز ترک کردی وہ کیا پہنچے گا‘‘۔ فرمایا’’ اصل میں مسلمانوں نے جب سے نما ز کو ترک کیایا اُسے دل کی تسکین، آرام اورمحبت سے، اس کی حقیقت سے غا فل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے۔ وہ زما نہ جس میں نما زیں سنوار کر پڑھی جا تی تھیں غورسے دیکھ لوکہ اسلام کے واسطے کیسا تھا۔ ایک دفعہ تواسلام نے تما م دنیا کو زیرپا کردیا تھا ۔جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں۔ درد دل سے پڑھی ہو ئی نمازہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے۔ ہما را با رہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جا تی ہے ابھی نما ز میں ہی ہو تے ہیں کہ خدانے اس امر کو حل اور آسان کردیا ہواہوتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 3صفحہ189۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               فرمایا:’’نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دُعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعامِ الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسمِ اعظم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صفا ت کو اس کے تابع رکھا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا جو نام اللہ ہے، وہ اسمِ اعظم ہے اور تمام صفات اللہ تعالیٰ کی اسی اسم کے تحت ہیں) فرمایا کہ: ’’اب ذرا غور کرو۔ نماز کی ابتدا  اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اَللّٰہُ اَکْبَرسے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کرلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل اور آخر میں

 اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور‘‘۔ فرمایا’’ مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملّت میں نہیں ہے۔ پس نماز جو دُعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے مقدم رکھا ہے، ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے‘‘ ۔    (ملفوظات جلد 3صفحہ37۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               پس اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے مستقل مزاجی سے اُس کی عبادت کی طرف اُس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ جو فرمایا کہ انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے۔ مستقل مزاجی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل جھکے رہنا ہے۔ تو بہر حال اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ طریق جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، نمازوں کی ادائیگی کا ہے۔

               پس جلسہ کے یہ دن جو ایک خاص ماحول لئے ہوئے ہیں، جہاں باجماعت نمازوں کی ادائیگی بھی ہوتی ہے اور نوافل کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور روحانی ترقی کے لئے اللہ اور رسول کی باتیں بھی ہوتی ہیں، ان دنوں میں ایک پاک تبدیلی ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ تمام چیزیں ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بننی چاہئیں۔

                لیکن یہاں پھر مَیں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوںکہ جلسے کے دنوں میں اگر نمازیں جمع ہوتی ہیں تو اس لئے کہ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی سہولت اور جلسے کے پروگراموں کے لئے جن میں اللہ اور رسول کا ہی ذکر ہو رہا ہوتا ہے اور ایسے ہنگامی حالات میں یہ سہولت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اس لئے یہ نمازیں جمع کی جاتی ہیں لیکن مستقل کسی کو یہ عادت نہیں بنا لینی چاہئے۔ جلسہ کے تو تمام پروگرام ہی روحانی ترقی اور جلاء پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ ان دنوں میں تو ہر شامل ہونے والا یہ محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ ایک خاص روحانی کیفیت اس پر ہے۔ بلکہ کئی لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ نظارے بھی دکھاتا ہے کہ گویا نور کی بارش ہو رہی ہے، یہ اس لئے کہ سب کچھ ہی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو رہا ہوتا ہے۔

               پس جو کوئی بھی اس جلسہ میں نیک نیت لئے ہوئے شامل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ بلکہ ہر سال کئی غیر بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے ایک عجیب ماحول دیکھا ہے جو ہمارے دلوں پر عجیب کیفیت طاری کر رہا تھا۔ پس یہ دن ایسے ہیں جو عام دنوں سے مختلف ہیں۔ اس لئے اگر ان دنوں میں نمازیں جمع کرنے کی سہولت ہے تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سہولت کے مطابق ہے۔ کسی نوجوان کو یا کسی کو بھی اس سے یہ تاثر نہیں لینا چاہئے کہ عام حالات میں بھی جمع کریں۔ عام حالات کے لئے کِتَابًا مَّوْقُوْتًا  یعنی وقتِ مقررہ پر ادائیگی کا حکم ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونے سے ہمارے روحانی معیار بلند ہونے چاہئیں۔ ہماری عبادتوں میں بہتری کی طرف قدم بڑھنے چاہئیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا’’ خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاؤاور اُس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو‘‘، خدا کی عظمت دلوں میں بٹھائیں گے۔ اور یہ عظمت اُس صورت میں دلوں میں بیٹھ سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں کا سرچشمہ سمجھا جائے اور یہ صورت پیدا ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ اور اُس کے فضل کی تلاش کے لئے پھر اُس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے اور یہی چیز ہے جو اُس کی توجہ کے عملی اظہار اور اقرار کا باعث بنے گی۔ جب تمام دنیاوی دھندے اور ذمہ داریاں بھول کر خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو یہی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار ہے۔ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا  ہے کہ  یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰ لِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ (المنافقون:10 )اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولادیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کریں۔ پس اس غفلت سے بچنا ہی تو حید کے حقیقی اقرار کا ذریعہ بناتا ہے۔

               حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیںجب تم یہ عملی اقرار کرو گے تو اللہ تعالیٰ بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے گا۔ (ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ308)

               اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔فَاذْکُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ(البقرۃ:153) کہ تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد کرتا رہوں گا۔

               پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بغیر جزاکے نہیں چھوڑتا بلکہ پھر اپنے لطف و احسان کا اظہارکرتا ہے۔ بندہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر سے اُسے یاد کرتاہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یاد کرناکیا ہے؟ یہی کہ وہ اپنے بندے کو اُن انعامات سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔

                حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’قرآن شریف میں ہے کہ اُذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(سورۃ البقرہ : 153) یعنی اے میرے بندو!تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو۔ مَیں بھی تم کو نہ بھولوں گا۔ تمہا را خیا ل رکھوں گا۔ اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدرکیا کرو اور کفر نہ کیا کرو‘‘۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ اس آیت سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ذکر الٰہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نا م کفر ہے۔ پس جو دم غافل وہ دم کا فر والی با ت صاف ہے۔ یہ پا نچ وقت تو خدا تعا لیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فر ما ئے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں تو ہروقت دل کو لگا رہنا چاہئے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہو نا چاہئے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہروقت اسی کی یا د میں غرق ہو نا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسا ن اس سے انسان کہلا نے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خدا تعا لیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ189۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               پس ہمیں عبادتوں اور ذکر اللہ کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں ہر دم اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھاتے رہیں۔ پھر تقویٰ کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا:’’کینہ وری سے پرہیز کرو‘‘ اور پھر یہی نہیں کہ کینہ سے بچو بلکہ فرمایا’’ ہر ایک سے سچی ہمدردی سے پیش آؤ‘‘۔(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ308)

                اب جو اپنے ہیں، جماعتی طور پر بھائی بھائی ہیں، اُن سے تو کسی کینہ اور نقصان پہنچانے کا سوال نہیں اور نہ ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ اس سے پرہیز کرو۔ ایک احمدی کی یہی خصوصیت ہونی چاہئے کیونکہ تمہارے معیار یہ ہونے چاہئیں کہ تمام بنی نوع انسان سے ہمدردی کا جذبہ ہو اور یہی بات آپ علیہ السلام نے شرائطِ بیعت میں بھی رکھی ہے۔ جیسا کہ فرمایا ’’عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ160اشتہار بعنوان ’’تکمیلِ تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 51 مطبوعہ ربوہ)

               ہمدردی اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک دل ہر طرح کی کدورتوں اور کینوں سے پاک نہ ہو۔ غیروں سے اس ہمدردی کا اس قدر حکم ہے تو اپنوں سے تو اس سے بڑھ کر ہمدردی ہونی چاہئے۔

                ایک حدیث میںآتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ حسد نہ کرو۔بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو۔باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اُس سے قطع تعلق کرے ۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الہجرۃ حدیث6076)

               اور یہ جو حدیث ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ہے جس کی تلاوت بھی کی گئی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا  (آل عمران:104)کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو۔

               اس میں اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے۔ یہ رسّی کیا ہے؟ ایک تو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں۔ وہ شریعت ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف کی صورت میں ہم پر اتاری ہے۔ کیونکہ اگر ان احکامات پر عمل نہ کیا اور اُن واقعات پر غور نہ کیا جو قرآنِ کریم نے انبیاء کے ذکر میں بیان کئے ہیں، یا کسی بھی صورت میں بیان کئے ہیں تو ان نتائج کا انسان مورد بن سکتا ہے جو پہلی قوموں پر گزرے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح طور پر یہ فرمایا ہے کہ یہ واقعات صرف قصے کہانیوں کے طور پر نہیں لکھے گئے بلکہ یہ پیشگوئیاں ہیں تمہیں ہوشیار کرنے کے لئے کہ اگر تمہارے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق نہ ہوں گے تو تمہارا انجام بھی ویسا ہو سکتا ہے۔  (ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 155-156)

               پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا’’ ہر راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے قبول کئے جاؤ‘‘۔  (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ308)

               اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں بڑی سختی سے یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ’’ جو قرآن کے سات سوحُکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے‘‘۔(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ26)

                یہ ہمارے فائدے اور تقویٰ میں ترقی کے لئے ہے۔

               پس جان بوجھ کر قرآنِ کریم کے کسی حکم کی نافرمانی کرنا، اُس کو ٹالنا اور پھر اس کا اعادہ کرتے چلے جانا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا سکتا ہے۔ اور جب ایسی صورت ہو تو پھر رسّی تو ہاتھ سے چھُٹ گئی۔ پس انسان کی جو اپنی تمام تر جو استعدادیں ہیں اُن کے مطابق کوشش ہونی چاہئے کہ برائیوں سے حتی المقدوربچا رہے۔ قرآنِ کریم کی حکومت اپنے پر لاگو کرے تا کہ ’’حبل اللہ ‘‘سے مضبوطی سے چمٹا رہے۔

               پھر ’’حبل اللہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں اور سب سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، وہ حبل اللہ ہیں اور یہی ہمارا ایمان ہے۔ اور آپؐ کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش ایک مومن کا فرض ہے۔ تبھی وہ اس حبل اللہ کو پکڑے گا۔ تبھی انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والا بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والسلام سے یہ اعلان کروایا تھا کہ  قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران:32 ) تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا۔

               پس اس محبت کے حصول کے لئے تمام اُن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اس رسّی سے چمٹے رہنے کے لئے کیسے کیسے راستے ہمیں بتائے ہیں ۔ اب جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپؐ کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنا جو خدا تعالیٰ تک پہنچانے اور اُس کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسّی ہی ہے۔

                پھر اس زمانے میں آپؐ کے غلامِ صادق کے ساتھ سچا تعلق ہے جو اللہ تعالیٰ کی رسّی ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت باندھ کر پکڑی ہے۔ یہ وہی حبل اللہ ہے جو ہماری نجات کا باعث ہے کیونکہ آپ علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں اس زمانے میں زندہ خدا سے تعلق جوڑنے کے طریقے اور سلیقے سکھائے ہیں۔ آپ علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے اسلوب سکھائے ہیں اور یہ وہ رسیّ ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) کہہ کر اُس کو پکڑنے کی تلقین فرمائی ہے۔

                اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں خلافت کا دائمی نظام بھی وہ رسّی ہے جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے خوشخبری دی تھی۔اور وہ خوشخبری  یہ ہے کہ وَعَدَاﷲُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا  (سورۃ النور:56) تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے، اُن سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کو امن کی حالت میں بدل دے گا۔

               پس یہ بھی ایک انعام ہے جو خلافت کی رسّی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اس زمانے میں عطا فرمایا ہے جو جماعت کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ آپس میں محبت اور پیار اور الفت قائم کرنے کا ذریعہ ہے، جو آپس کے للّہی تعلق کی وجہ سے ایک وجود بن چکے ہیں۔ اور یہی پیار اور محبت اور الفت ہے جو اللہ تعالیٰ کا ہم پر ایک احسانِ عظیم ہے جس نے جماعت کو تمکنت عطا فرمائی ہے اور یہی چیز ہے جو آج کل مخالفین کے غضب کو بھڑکانے والی بن رہی ہے اور دن بدن اُن کے غضب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس دور میں جب ہر وقت، ہر جگہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑک رہی ہے تو ہم خلافت کے انعام کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اس زمانے میں عافیت کا حصار ہیں، کی بیعت میں آ کر ان فتنوں سے محفوظ ہیں۔

               پس اس رسّی کو بھی مضبوطی سے پکڑیں اور اس رسّی کو پکڑ نے اور اس انعام سے فائدہ اُٹھانے والے بھی وہی ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوںگے۔ اور عباد ت کے لئے پھر خلافت سے منسلک ہونے والوں کو جو راستہ بتایا ہے وہ نمازوں کا قیام ہے۔ پس یہ حبل اللہ پھر عبادت کی طرف بھی توجہ دلائے گی اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائے گی تا کہ اُن کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنیں۔ آج مُسلم اُمّہ میں ایک واحد جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے تعلق کی وجہ سے بھائی بھائی کا نظارہ پیش کرتی ہے اور کرنا چاہئے۔ پس اس انعام کی بھی قدر کریں اور جلسہ کے ان دنوں میں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ خلافت کے قیام و استحکام اور اپنے اُس کے ساتھ جڑے رہنے کے لئے بھی دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں۔ ان دنوں میں بھائی بھائی ہونے کا نظارہ پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ واقفینِ زندگی اور واقفینِ نَو اور کارکنان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ سلام کو رواج دیں اور ہر طرف سلامتی کے پیغام بکھیرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان دنوں میں جلسے کی ان بیشمار برکات سے حصہ لینے والا بنائے جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی دعاؤں میں ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور موسمی حالات سے اور ہر قسم کے بداثرات سے ہمیشہ ہر ایک محفوظ رہے۔

                پھر مَیں آپ کو دوبارہ توجہ دلاتا ہوں کہ ان دنوں میں دعاؤں کی طرف توجہ دیں، دعاؤں کی طرف توجہ دیں، دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ یہی چیز ہے جو ہماری بقا کا سامان کرنے والی ہے۔ ہماری نسلوں کی بقا کا بھی سامان کرنے والی ہے اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں