حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاخواتین سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی15 اگست 2009ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا
(النساء:125)
جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور مَردوں میں سے یا عورتوں میں سے جو نیک اعمال بجالائے اور وہ مومن ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور وہ کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے ۔
ایک مسلمان عورت اس قدر خوش نصیب ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کا ایک مقام قائم فرمایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ مو منوں کو ایمان میں مضبوطی اور نیک اعمال بجا لانے پر انعام کا مستحق ٹھہراتا ہے تویہ نہیں کہتا کہ عورت کو یہ جزا نہیں ملے گی بلکہ مومنین میں مو منات بھی شامل ہیں۔ بعض جگہ تو اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کے ذکر میں مومنین کے ساتھ مو منات کا ذکر بھی کر دیا، خود بیان بھی کردیا اور کہیں ’’ذَکَرٍ اَوْاُنثٰی ‘‘ یعنی مرد یا عورت کہہ کر واضح فرمادیا تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں واضح کر دیا کہ مومن صرف مرد ہی نہیں کہلاتا بلکہ عورت بھی مومن ہے اور اس لحاظ سے دونوں برابر ہیںاور جب بھی کوئی نیک عمل کوئی عورت کرے گی تو اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مرد کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام پر اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عورت کو اس کا مقام نہیں دیا جاتا۔ اُسے حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اُس کی حیثیت دوسرے درجے کی ہے۔ پس جہاں تک اسلام کی تعلیم کا سوال ہے، جہاں تک خدا تعالیٰ کے اعلان کا سوال ہے، ایمان کی شرط کے ساتھ نیک اعمال بجا لانے کی جتنی جزا مرد کو ہے اسی قدر عورت کو ملتی ہے۔
اسی طرح روزمرہ کے حقوق میں بھی عورت کو اس کا پورا حق دیا گیا ہے۔ حتیٰ کے عربوں میں غلام اور لونڈیوں کا جو رواج تھا اس میں بھی اُن کے حق قائم کئے گئے۔ گو جب شریعت کامل ہوئی تو غلامی کے خاتمے اور لونڈیاں رکھنے کی ممانعت ہو گئی۔ جب تک غلامی کے خاتمے کا قانون نہیں آیا تھا اس وقت تک لونڈیاںاورغلام رکھے جاتے تھے۔ اس وقت کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے کہا ہم سات بھائی تھے۔ ہمارے ایک بھائی نے اپنی لونڈی کو منہ پر تھپڑ مارا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں جب یہ واقعہ آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو فوراً آزاد کردو کیونکہ تم اپنے اس رویہ کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ اس کو اپنے پاس رکھ سکو۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ حدیث نمبر 4304)
اس کے مقابلے میں بائبل میں کیا تعلیم ہے! خروج (Exodus) جو ہے اس کا باب 21 آیت 20-21 یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اور وہ مار کھاتی ہوئی مرجائے تو اُسے سزا دی جائے لیکن اگر وہ ایک یا دو دن جیئے تو اسے سزا نہ دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے۔ (ماخوذ از خروج باب21 آیت 20-21)
یعنی اگر فوراًمرجائے تو تھوڑی سی سزا دے دو اور اگر دو دن تک زندہ رہے اور پھر مرے تو کوئی سزا نہیں کیونکہ یہ اس کا مال ہے ۔ اسلام نے تو انسانیت کی بنا پر اس وقت بھی غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق قائم کئے تھے جب اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ شریعت کامل ہونے کے بعد جب ہر انسان کے حقوق قائم ہوگئے، قرآنِ کریم نے واشگاف الفاظ میں فرمادیا کہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق بلاتخصیص جزا ملے گی تو وہ پھر آزاد مومن عورت کے حقوق پامال کرے یہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے تو عورت کو آزادی دلا کر برابری کا حق دلادیا بلکہ انسانیت کے ایسے خوبصورت حقوق قائم فرمائے کہ انسانیت کے شرف کو بلند فرمادیا، اس کو بلندیوں تک پہنچادیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تو عورتوں کے حق اس طرح قائم فرمائے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں یہ بات آئی کہ صحابہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں، تمہاری لونڈیاں نہیں۔( سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء حدیث نمبر 2145)
آپؐ نے فرمایا: اسے تھپڑ نہ مارو ،گالیاں نہ دو،گھر سے نہ نکالو۔
(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علیٰ زوجہا حدیث نمبر 2142)
ایک دفعہ عورتوں نے آکر شکایت کی کہ مرد جہاد کر کے ہم سے زیادہ ثواب کما لیتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اپنے گھروں کی نگرانی کر کے، بچوں کی بہترین تربیت کر کے اتنا ہی ثواب کماتی ہو جتنا میدانِ جہاد میںعمل کرنے والے تمہارے مرد کما رہے ہیں۔
(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 11صفحہ 177 باب 60 فی حقوق الاولاد والاہلین حدیث نمبر 8368 مکتبۃ الرشد ناشرون سعودی عرب 2004ء)
کل مجھے کسی نے بتایا کہ خطبہ جمعہ کے بعد جلسہ کا جوسیشن ہو رہا تھا۔ اُس میں یہاں کسی شہر کے ایک میئر بھی آئے ہوئے تھے۔ جسے آپ یہاں برگا ماسٹر کہتے ہیں (اگر میں صحیح بول رہا ہوں تو)۔ انہوں نے اپنے بیان کچھ یہ بھی کہا کہ میرے عورتوں کے پردے کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ میرے متعلق کہا کہ اُن سے اس بارے میں بات کروں گا تو پردے کے بارے میں تو مَیں U.K. کے جلسے میں لجنہ کی تقریر میں واضح کرچکا ہوں کہ پردے کی کیا اہمیت ہے۔ آپ لوگوں کے لئے مختصراً دوبارہ بیان کردیتا ہوںکہ پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے عورت کا تقدس قائم کرنے اور اس کے تحفظ کے لئے اتارا ہے اور یہ قرآنِ کریم کے واضح احکامات میں سے ایک حکم ہے۔ یہ ہمارے مذہبی احکامات میں سے ایک حکم ہے۔ ایک عورت ایک لڑکی، جب اس کی اٹھان ایسے ماحول میں ہوئی ہو، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنے لئے باعثِ برکت سمجھتی ہو اور اس حکم کو اپنے دینی فرائض میںسمجھتے ہوئے ادا کرتی ہو تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس پر قانوناً پابندی لگائے۔
مَیں نے بیان کیا تھا کہ ہماری ایک واقفہ نو بچی نے ایک دفعہ اخبار میں اس کے خلاف لکھا کہ تم میری مذہبی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہو اور میری ہی آزادی دِلوانے کا نام دِلواکر اسے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہو۔ پس یہاں پلنے بڑھنے والی لڑکیوں سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ یہ دیکھیں کہ اس بے پردگی سے بے پردہ رہنے والوں کو، جن کو اپنے روشن دماغ ہونے کا بڑا زعم ہے، سوائے عارضی اور وقتی عیاشی کے کیا ملا ہے؟ اُن کے اندر جا کر ان سے پوچھیںکہ کیا اس سب آزادی سے آپ کو ذہنی سکون میسر آگیا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ دعویٰ ہے اور ہمارا یہ تجربہ ہے کہ اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:29) کہ خدا کی عبادت اور اس کے ذکر میں ہی اطمینانِ قلب ہے۔
پس ان لوگوں کی باتوں سے کبھی کوئی نوجوان بچی خوفزدہ نہ ہو، نہ ہی کسی قسم کی شرم کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے اور اس کا ہر حکم فطرت کے عین مطابق ہے۔ اور اس کا اب تک اصلی حالت میں رہنا اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا ایک ثبوت ہے جبکہ کوئی اَور مذہبی کتاب اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں ہے اور انسانوں کی دسترس سے محفوظ نہیں ہے۔ پس قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو آج ہر انسان کے لئے راہِ نجات ہے اور اس کی تعلیم عظیم الشان تعلیم ہے۔ عورتوں اور مردوں کے لئے یکساں احکامات ہیں۔ اگر بظاہر کوئی فرق کسی حکم میں نظر آتا ہے تو غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فرق نہیں بلکہ اس پر غور کر کے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ حکم اس فطرت کے عین مطابق ہے جو خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت کی بنائی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں بتایا تھا کہ مرد اور عورت کے لئے برابری کا درجہ اور اس کا اعلان خدا تعالیٰ نے خود نیکیوں کے کرنے پر ایک جیسے ثواب کی صورت میں فرمایا ہے۔ اسلام کا خدا تو وہ خدا ہے جو رحمن ہونے کی وجہ سے اپنی رحمانیت کے بھی عظیم تر جلوے دکھاتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اور جو اس کی مخلوق ہے اُس پر توبہت زیادہ حاوی ہے۔ اور اس رحمت سے جس طرح مرد حصہ لے رہا ہے اسی طرح عورت بھی حصہ لے رہی ہے۔ لیکن کیونکہ اس کا جزا سزا کا قانون بھی ہے،اور وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اس لئے اس نے نیکی بدی کی تخصیص کر کے، تمیز بیان کرکے اوامرونواہی کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے۔ کرنے اور نہ کرنے والی باتوں کے بارے میں ہمیں بتایا ہے۔ ان کی نشاندہی فرمائی ہے اور ایک مومن کے فرائض کی بھی نشاندہی فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اگر ایمان میں مضبوطی کا حکم فرمایا اور اس کے نتیجے میں فضلوں کا ذکر کیا ہے تو مَردوں کے لئے بھی وہی انعامات ہیں جو عورت کے لئے ہیں۔ ہاں جہاں عورت کی فطری کمزوری اُس کے آڑے آتی ہے وہاں یہ بتا کر کہ یہ کمزوریاں ہیں اس وجہ سے یہ کام عورت کر ہی نہیں سکتی، اس کو بتا دیا کہ تم نہیں کرسکتی۔ لیکن جو کام عورت کر سکتی ہے وہ بھی واضح کردیا کہ وہ مرد نہیں کرسکتے۔ جو برداشت اور صبر و حوصلہ عورت میں ہے وہ مرد میں نہیں ہے۔ ایک تقسیمِ کار کی گئی ہے۔ اگر مرد گھر سے باہر کے معاملات کا نگران اور ذمہ دار بنایا گیا ہے تو عورت کو گھر کا نگران بنایا گیا ہے۔ دنیا کا نظام بھی تقسیم کار کی وجہ سے چل رہا ہے اور جہاں تقسیمِ کارپر عمل نہ کیا جائے وہاں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیاوی نظام میں تو اکثر جگہ عورتوں کو مَردوں جتنا کام لینے کے باوجود اُجرت مردوں سے کم دی جاتی ہے اور یہ صورتحال صرف غریب ملکوں میں نہیں ہے، غیرترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہے، بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہی کچھ ہے اور اس کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے نظام میں نیکیوں اور عملِ صالح کا برابر بدلہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مومن کی یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت کرے، بہت محبت کرنے والا ہو۔ جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّحُبًّالِّلّٰہِ(البقرۃ:166) کہ مومن سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتا ہے۔ پس اگر حقیقی مومن کے انعامات کا حقدار بننا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس لئے نہیں بجا لارہیں کہ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، پردے اس لئے اتر رہے ہیں کہ لوگ ہمیں گھورتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں تو پھر یہ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے اور نہ ہی اس کا خوف ہے، نہ اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔
اگر بعض فیشن آپ اس لئے کر رہی ہیں کہ یہاں کا معاشرہ یہ پسند کرتا ہے کہ گھٹنوں سے اونچے اونچے اُوٹنگے کوٹ جو ہیں وہ پہن لئے یا تنگ کوٹ پہن لئے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اُس سے بے پردگی ہوتی ہے اور اس سے آپ کے جسموں کی نمائش ہو رہی ہے تو یہ ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے محبت میں کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو ہر نیکی کے بدلے میں دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب پہنچانا چاہتا ہے۔ اور ہم دنیا کے خوف یا دنیا کی محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکامات نہ بجا لا کر اس ثواب سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور اب یہ صورتحال ہے تو پھر دیکھیں کہ یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہے۔ پس اگر جائزہ لیں تو انسان ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کرکے ان اجروں سے محروم ہورہا ہے جو خدا تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے اور مغربی سوچ کے زیرِاثر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پس اس بات پر غور سے سوچیں اور اپنی حالتوں کا جائزہ لیں۔
اس بات پر بعض یہ اعتراض کرتی ہیں کہ مرد آزاد ہیں اورہمارے پر پابندیاں ہیں۔ ایک مومن عورت کایہ کام ہے کہ ہمیشہ یہ دیکھے کہ خدا تعالیٰ کس طرح ہمارے سے پیار اور برابری کا سلوک کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر مردوں کو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھوتو تمہیں ثواب ہوگا اور یہی تمہاری پیدائش اور زندگی کا مقصد ہے۔ تو عورت کو بھی اتنا ہی اجر دے کر محروم نہیں رکھا بلکہ اس کے علاوہ اس کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس کو بعض قسم کی چھوٹ بھی مہیا کی ہے۔ مثلاًمرد کے لئے حکم ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد جائو کیونکہ یہی اصل طریق ہے کہ باجماعت نماز پڑھو تو ثواب کے زیادہ حقدار ٹھہرو گے۔ لیکن عورت کو کہا کہ تم گھر میں ہی نماز پڑھ لو کیونکہ تمہاری گھریلو مصروفیات ایسی ہیں کہ تمہیں مسجد جانے کی ضرورت نہیں۔ اور پھر بعض دنوں میں نمازوں کی ویسے ہی چھوٹ دیدی۔ روزہ رکھنے کا حکم ہے تو جس طرح مَردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔ جو مَردوں کو ثواب ملے گا وہی عورتوں کو ثواب ملے گا بلکہ بعض دنوں میں اوربچوں کو دودھ پلانے کے دنوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تاکہ کمزوری نہ ہوجائے۔ زکوٰۃ دینے کا حکم ہے تو مَرد کے لئے بھی ویسا ہی حکم ہے جیسا عورت کے لئے اور دونوں کو ایک جیسا ثواب ہے۔ صدقہ خیرات کے لئے اگرعورت کے پاس رقم نہیں تو ایک دفعہ جب ایک عورت نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میرے پاس رقم نہیں ہوتی تو کیا میں اپنے خاوند کی رقم لے کر دیدیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت دیدی (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 713-714 حدیث اسماء بنت ابی بکر الدیق حدیث نمبر 27524 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) کہ اگرتمہارے پاس صدقہ کے لئے رقم نہیں ہے تو مرد کی رقم نکال لو، ثواب تمہیں ہو جائے گا۔حج کا حکم ہے تو جیسا مردوں کو اس کا ثواب ہے ویسا ہی عورتوں کو اس کا ثواب ہے۔ اخلاقِ حسنہ کے بجا لانے کا جیسا مردوں کو حکم ہے اور اس کا ثواب ہے ویسا ہی عورتوں کو اس کا ثواب ہے۔
قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّآئِمَاتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا( الاحزاب:36) یقینامسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیںاور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیںاور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کئے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر اخلاقِ حسنہ کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض نیکیوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کا ثواب جس طرح مَردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمان مَردوں اور عورتوں کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ مسلمان اور مومن کے لفظ کا علیحدہ استعمال اس لئے کیا ہے کہ اَسْلَمْنَا کے بعد پھر ایمان میں ترقی کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ پس ایک احمدی عورت کا کام ہے کہ ایمان میں ترقی کی طرف قدم بڑھائے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کی وارث بنے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ لینے کے لئے ایمان میں ترقی کے لئے فرمانبرداری شرط ہے اور فرمانبرداری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کامل شرح صدر کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش ہو اور ان لوگوں میں شامل ہو جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے: وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا(الفرقان:74) اور وہ لوگ جب ان کے ربّ کی آیات اُنہیں یاددِلائی جاتی ہیں تو ان سے بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے۔
پس جب آپ نے اس زمانہ کے امام کو مان کر اُس کی بیعت میں شامل ہوکر یہ اعلان کردیا ہے کہ ہم مسیح و مہدی کو ماننے والے ہیں تو پھر سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ کامل فرمانبرداری دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کریں۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی بہت اہم سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر کامل فرمانبرداری دکھائو گے تو تمہارے درجے بلند ہوںگے اور وہ لوگ کامیابیاں دیکھیںگے جو فرمانبرداری دکھانے والے ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ(النور:53) اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریںاور اُس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہوجاتے ہیں۔
پس ایک احمدی عورت اور لڑکی کے دل میں بامرادی کا تصور یہ ہونا چاہئے کہ نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے، نہ کہ دنیاداری میں پڑ کر اپنے تقدّس کو ضائع کردینا ہے۔ نہیں، بلکہ اپنے تقدس کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے۔ یہ سوچنا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح پاسکتی ہیں۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ جن لوگوں کو آپ آزاد سمجھتی ہیں اور وہ بڑی خوش باش نظر آتی ہیں اُن میں سے بعض بلکہ اکثر یت جو بے چین ہیں وہ تو آہستہ آہستہ ہماری طرف شامل ہو رہی ہیں۔ اُن کے اندر بے چینیوں کے پہاڑ کھڑے ہیں کیونکہ یہ ظاہری خوشی اُن کو نظر آرہی ہے۔ سکون کی تلاش میں کوئی کسی نشہ کا سہارا لے رہا ہے۔ کوئی شراب کا سہارا لیتی ہے۔ کوئی کلبوں میں ناچ گانے میں سکون تلاش کرتی ہے یاسکون تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کوئی مردوں سے دوستیوں میں اپنی عزت اور عصمت کی بھی پروا نہیں کرتی۔ لیکن پھر بھی ان کی بے چینیاں کم نہیں ہوئیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان بے چینیوں کو دُور کرنے کے لئے اپنے ذکر اور اپنی اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے اور اعلان فرمایا ہے کہ اگر تم صحیح رنگ میں فرمانبرداری اختیار کرو گے تو تم فَآئِزُوْنمیں شمار ہوگے، بامراد ہوگے۔ یہ دنیا تو ایک ابتلا کا گھر ہے، اس کے امتحانوں سے جب انسان کامیاب گزرتا ہے تب ہی کامیابی کی صحیح منزلوں کو پاتا ہے۔
پھرسچائی کی طرف توجہ دلائی۔ سچائی کیاہے؟ حق بات کا اظہار اور لغویات سے پرہیز۔ کوئی بھی کام جب لڑکیاں اپنے ماں باپ سے اِس خوف سے چُھپ کرکررہی ہیں کہ اگر ماں باپ کو پتہ چل گیا تو ناراض ہوں گے، ہمارے گھر والوں کی بدنامی ہوگی، معاشرے میں اسے برا سمجھاجائے گا ،ہمارے مستقبل پر اس کا اثر پڑے گا، جماعت کی تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ
سے جماعت ہمارے خلاف کارروائی کرے گی تو ایسی باتیں لغویات بھی ہیں اور جھوٹ بھی ہیں۔ کیونکہ جب کسی نے ان باتوں کو اگرکیا ہے جس کے وہ نتائج نکل سکتے ہیں جن کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے تو پھر اُنہیں چھپانے کی کوشش ہوگی اور یہ پردہ ڈالنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے گا۔ پھر سچائی کو اس طرح بھی چھپایا جاتا ہے کہ اپنی یا اپنے کسی عزیز کی غلطی کو جو نظامِ جماعت کے سامنے آجائے جھوٹی گواہی دے کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایک دوسرے کے خلاف غلط الزامات لگا کر نظامِ جماعت کے سامنے یا میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کی یہ نشانی ہے کہ اُس کا ہر قول و فعل سچائی کا نمونہ ہو۔
صبر بھی ایک بہت بڑا خلق ہے۔ یہ ذاتی طور پر تکلیفوں پربھی ہے اور جماعتی تکلیفوں پر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی معاملات میں صبر کے نمونے ہر مرد اور عورت نے بہت دکھائے ہیںاور ثابت قدمی کا اظہار کیا ہے۔ انتہائی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی جانیں تک قربان کی ہیں۔ لیکن ذاتی معاملات آجائیں تو اکثر صبر کے دامن چھوٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کے اعلیٰ نمونے دکھائو۔ بہت سی بدمزگیاں ہیں اور لڑائیاں ہیں جو معاشرے میں بے صبری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
پھر ایک خُلق ہے عاجزی۔ اور عاجزی دکھانابھی ایک مومن مرد اور عورت کے لئے بڑی اہم بات ہے۔ کہنے کو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ مَیں تو بہت عاجز ہوں، بہت عاجز انسان ہوں، بس آپ کی ذرّہ نوازی ہے کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔ جب تعریف ہورہی ہو تو اس وقت تو یہ الفاظ ادا کردیئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ عاجزی نہیںہے۔ عاجزی وہ ہے کہ اپنی مرضی کے خلاف بات ہو، اپنی عزت پر حرف آتا ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کرے۔ اپنا علم ہوتے ہوئے بھی، یہ جانتے ہوئے کہ مَیں نے سب کچھ پڑھا ہوا ہے، میرا اس میں علم ہے، دوسرے سے علم کی وجہ سے تکبر کا اظہار نہ کرے تو یہ عاجزی ہے۔ اپنی دولت ہوتے ہوئے بھی اپنے سے کم یا غریب سے عزت سے ملے تو یہ عاجزی ہے۔ اپنی دولت کا اظہار فخر کے رنگ میں نہ کرے۔
پھر صدقہ و خیرات کرنے والے ہوں یا والی ہوں۔ روزہ رکھنے والے اور والی کاذکر ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر عبادات بجالانے والے اور عبادات بجا لانے والیاں، اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنے والیاں، ہر قسم کی برائی سے بچنے والیاں، زبان اور آنکھ کو ہر ناجائز استعمال سے روکنے والیاں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والیاں، اِن سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم رکھا ہے۔ عورتیں بھی اور مرد بھی ہر ایک جو اِن نیکیوں کو انجام دے گا اِس کا بہترین اجر ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
پھر قرآنِ کریم نے ہمیں دوسری جگہوں پر اَور بھی بعض نیک کام بتائے ہیں۔ مثلاً اُن میں ایک امانات کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے عَہدوں اور اپنی امانتوں کی نگرانی کرو۔ ایک احمدی مرد اور عورت کی یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جب ہم عہدِ بیعت میں شامل ہوتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی تو یہ جائزہ لیں کہ کیا ہمارے دل بھی حقیقت میں اس کے گواہ ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدّم ایک عورت نے صرف اپنے لئے نہیں رکھنا بلکہ جن بچوںکی تربیت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اگر ان کی تربیت کا حق ادا نہیں کر رہی تو اپنے عہد کا پاس نہیں کر رہی۔
اسی طرح امانتوںکی حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور جیسا کہ مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ احمدی بچے اپنے ماں باپ کے پاس جماعت کی امانت ہیں چاہے کوئی بچہ وقفِ نَو ہے یا نہیں۔ وقفِ نو بچے کوتو خاص طور پر جماعت کی خدمت کے لئے تیار کرنا ہی ہے۔ اُن کے ذہنوں میں بچپن سے ڈالنا ہی ہے کہ تم نے جماعت کا خادم بننا ہے۔ لیکن ایک غیر وقفِ نو بچہ اور بچی جو ہے وہ بھی جماعت کے لئے اسی طرح اہم ہے جتنا وقفِ نَوکیونکہ جماعت کی ترقی پوری جماعت کی اصلاح سے وابستہ ہے۔ بعض دفعہ وہ لوگ جو واقفِ زندگی نہیں وہ واقفِ زندگیوں سے زیادہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ تبلیغی میدان میں بھی ان کی کوشش اور ان کے نتائج غیر معمولی ہوتے ہیں۔ علمی میدان میں بھی وہ بہت اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جو جماعت کے حق میں جاتا ہے۔ پس ان امانتوں کی حفاظت کرنا، ان کی بہترین تربیت کرنا، یہ بھی ماں باپ کے فرائض میں داخل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ بہترین تحفہ جو ماں باپ اپنے بچے کے لئے پیش کرتے ہیں یا اُس کو دے سکتے ہیں وہ ان کی بہترین تربیت ہے ‘‘۔(ماخوذ ازسنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی ادب الولد حدیث نمبر 1952) اور آجکل کے ماحول میں جبکہ ہر طرف آزادی کے نام پر معاشرے میں بہت کچھ ہورہا ہے۔ اس کا بیان بھی ممکن نہیںیا کم ازکم بہت مشکل ہے۔ اور ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے یہ گھروں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی نگرانی اور تربیت کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر بچوںکی ضد دیکھ کر انہیں اندھے کنویں میں جان بوجھ کر نہ پھینکیں۔ اُنہیںآگ میںجان بوجھ کر نہ ڈالیں۔ مسلسل دعائوں اور نگرانی سے جب آپ بچوں کی تربیت کی کوشش کررہی ہوںگی تو یقینا اللہ تعالیٰ جو آپ کے دردکوجانتاہے آپ کی مدد فرمائے گا۔
اِس ضمن میں مَیں یہ بھی کہوںگاکہ مغربی ممالک میں مائیں اپنی مصروفیتوںکے بہانے کرکے اپنے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے کے لئے غیرازجماعت قاریوں کے پاس بھیج دیتی ہیں۔ کینیڈا سے بھی مجھے رپورٹیں ہیںاور امریکہ سے بھی، جرمنی سے بھی، انگلستان میں بھی بعض جگہ سے، اور کئی اَور جگہوں پر بلکہ پاکستان میں بھی کئی کیس ایسے ہوئے ہیںکہ ایسے قاریوں نے قرآن کریم تو کم پڑھایا ہے لیکن جماعت کے متعلق غلط باتیں بچوں کے ذہنوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ جماعت کی ویب سائٹ alislam پر بھی قرآنِ کریم کے صحتِ تلفظ کے پروگرام ہیںاور MTA پر بھی پروگرام آتے ہیںتو اِن کو ریکارڈ کرکے خود سکھائیں۔ اور MTA والے ہر ملک کے لحاظ سے وقت کا اندازہ کرکے ان پروگراموں کو دوبارہ نئے سرے سے شروع کریں تاکہ کوئی بہانہ نہ رہے کہ ہم سکھا نہیں سکتے۔ یہ پہلے تو آپ ماؤںکی ذمہ داری ہے کہ خود بھی سیکھیں اور پھرسکھائیںبھی۔ سندات تو آج آپ، قرآنِ کریم پڑھانے والیوں نے وصول کرلیں تواب اِن سے آگے اَور پڑھانے والیاں پیدا ہوتی چلی جانی چاہئیں بلکہ ہرعورت، ہر ماں جو ہے وہ صحتِ تلفظ کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھانے والی ہو۔ پس ہم میں سے ہر ایک نے ان امانتوں کو سنبھالنا ہے جو ہمارے سپرد کی گئی ہیں۔ جنہوں نے پھر آئندہ جماعت کے لئے مفید وجود بننا ہے۔ یہ حق ادا کرنے والے، امانتوں کا حق ادا کرنے والے احمدی مرد اور عورتیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے بھی ہوں گے لیکن حدیث کے مطابق گھر کی نگرانی کیونکہ عورت کے سپردکی گئی ہے اس لئے اس کا زیادہ فرض ہے۔
قرآنِ کریم نے جو یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَامًا ( الفرقان:75)۔ یہ صرف مَردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہے۔ متقیوں کا امام بننا، اپنے بچوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل کرنا، عورتیں بھی یہ دعا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں لکھاکہ صرف مردیہ دعا کریں۔ جب گھرکا سربراہ ہونے کی حیثیت سے مرد امام بنتا ہے تو اس کے بیوی بچے اس کے ماتحت ہوتے ہیںتوعورت بھی اس دعاکی وجہ سے اپنے بچوںکی امام بن جاتی ہے اور پھربچے اس کے زیرِنگیں ہوتے ہیں۔ پس یہ امامت کا حق ادا کرنا بھی ہر ماں کا فرض ہے۔ ہر احمدی ماں کا فرض ہے۔ اور جب آپ متقیوں کا امام بننے کی دعا کریں گی تو اپنے بچوں کے تقویٰ کے معیاروںکو بھی دیکھیں گی۔اُن کی نیک اعمال کی طرف راہنمائی بھی کریں گی۔ ایک فکر کے ساتھ ان کے نیکیوں کے اختیار کرنے اور ان پرقائم رہنے کے لئے دعائیں بھی کریںگی۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جب آپ ان بچوں کے متقی ہونے کے لئے اور ان متقیوں کا امام بننے کے لئے دعا کر رہی ہوں اور اس کے لئے کوشش کررہی ہوں تو خود اپنی طرف آپ کی توجہ نہ ہو، اپنے تقویٰ کے معیار آپ کے بلند نہ ہو رہے ہوں۔ اسی طرح جب مَردوں کی بھی یہی سوچ ہوگی تو تب ہی ایک نیک اور اعمالِ صالحہ بجالانے والا معاشرہ قائم ہورہا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین اجر پانے والا ہوگا۔
عورتوں کو یہ بھی بتا دوں کہ ہر نیک عمل میں عورتوں کے مَردوں کے ساتھ حصہ لینے کی وجہ سے وہ اجر عظیم سے حصہ پائے گی اور جنت میں داخل ہوگی لیکن اسلام نے ایک ایسا بلند مقام بھی عورتوں کو عطا فرمایا ہے جو مردوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور وہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد دوم صفحہ 372 کتاب الصلاۃ باب المساجد ومواضع الصلاۃ حدیث 694 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پس یہ جنت کی کنجی، یہ چابی جو آپ کے پائوں کے نیچے رکھی گئی ہے، جو آپ کے سپرد کی گئی ہے یہ آپ کو ایک امتیاز دِلاتی ہے۔ اس کا استعمال کرکے اپنے لئے بھی جنت کے دروازے کھولیں اور اپنی اولاد کے لئے بھی جنت کے دروازے کھولیں۔ جنت کی یہ چابی آپ کو اس لئے ملی ہے کہ آپ ایک نئی نسل کی تربیت گاہ ہیں۔ اس چابی کے ساتھ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ کو یونہی نہیں چابی مل گئی ۔ اس چابی کے ساتھ ایک کوڈ نمبر بھی ہے۔ ہر ماں جنت تک پہنچانے والی نہیں بلکہ وہی ہے جو اِس کوڈ نمبر کو استعمال کرے گی اور وہ کوڈ ہے ا عمالِ صالحہ اورتقویٰ۔ جب اس کا عکس اس دروازے اور تالے پر پڑے گا تو ان مائوں اور اُن کے بچوں کے لئے جنت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ پس ہر احمدی عورت اس کو استعمال کرے اور دنیا کو بتادے کہ تم کہتے ہو کہ اسلام میں عورت کی عزت نہیں ہے۔ اسلام تو ہمیں ہمارے نیک اعمال کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مَردوں کے برابر جنت کی خوشخبری دیتا ہے بلکہ اپنی اولاد کی نیک تربیت کی وجہ سے ہماری اولاد کی بھی جنت کی ضمانت دیتا ہے اور ہمارے مرنے کے بعد ہر وہ نیک عمل جو ہماری اولاد ہماری نیک تربیت کی وجہ سے کرتی ہے وہ جہاں اُس اولاد کے حق میں ثواب حاصل کرنے والی ہوتی ہے وہاں مائوں کے اس دنیا کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مائوں کے درجات بلند کرنے کا ذریعہ بن رہی ہوتی ہے۔ پس یہ اعزاز حاصل کرنے کے لئے ہر ماں کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
نوجوان بچیوں کو پھر مَیں کہتا ہوں کہ اپنے مقام کو سمجھو۔ اپنے تقدس کا خیال رکھو۔ اس ملک میں آکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو سہولتیں اور آسانیاں مہیا فرمائی ہیں اُنہیں اپنی ذاتی عارضی تسکین کا ذریعہ نہ بنائو بلکہ جماعت کے مفاد کے لئے استعمال کرو۔ انٹر نیٹ کو لغویات اور فضولیات کے لئے استعمال کرنے کی بجائے احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کرو۔ اسے غیر اورنا محرم لڑکوں سے رابطے کی بجائے دین سیکھنے کے لئے استعمال کرو۔
میرے ایک جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے اُن کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے ماں باپ سے بھی مَیں کہوں گا کہ اپنی ذاتی اَنائوں کی وجہ سے اور اپنی ادنیٰ خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کرکے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں اور حقیقی طور پر متقیوں کا امام بننے اور اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے بننے کی کوشش کریں اور اپنے عہد کو اور وعدے کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اب دعا کرلیں۔