حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی قادیان میں تشریف آوری
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے ’’سیدنا طاہر نمبر‘‘ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی 1991ء میں قادیان میں تشریف آوری اور جلسہ میں سالانہ میں شرکت کا ایک جائزہ مکرم محمد انعام غوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
1989ء میں احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کے حوالہ سے جماعت احمدیہ ہندوستان نے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا تھا۔ اسی دوران ایک احمدی دوست نے رؤیا دیکھی کہ حضرت مسیح موعودؑ قادیان تشریف لائے ہیں اور خواہش کا اظہار فرماتے ہیں کہ میری بگھی کو نکالو تاکہ مَیں سیر پر جاؤں۔ لیکن جب بگھی نکالی گئی تو وہ عدم استعمال کی وجہ سے زنگ آلود ہوچکی تھی اور خستہ حالت میں تھی۔ پھر فوری توجہ کی گئی کہ اس بگھی کو حضورؑ کی سیر کے قابل بنایا جائے۔ اس رؤیا کا ذکر کرکے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا:
’’اس سے مَیں سمجھا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام بھجوایا گیا ہے کہ ہندوستان کی جماعتوں کو اب تیزی سے سفر اختیار کرنا ہے، اُن کے پاس ذرائع میسر نہیں ہیں، عدم توجہ کا شکار ہیں۔ اس لئے ان کی طرف خصوصی توجہ دی جائے…‘‘۔
بعد میں اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت رؤیا کے ذریعہ کئی افراد جماعت کو اس سفر کے بابرکت ہونے کی خبر عطا فرمادی جن میں سے دو کا ذکر حضورؒ نے جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کی اپنی تقریر میں بھی فرمایا۔ ایک دوست نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا کہ نہر کے پل کے پار جا رہے ہیں، لمبا کوٹ عمامہ اور گرگابی پہنی ہوئی ہے اور ہاتھ میں سوٹی ہے۔ حضورؑ نے اُس دوست کے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ جاؤ اور طاہر احمد کی مدد کرو۔ اُس دوست نے پوچھا کہ ہم کب قادیان جائیں گے تو حضورؑ نے پانچ کا ہندسہ بتلایا۔ پوچھا 1995ء میں۔ فرمایا: نہیں جب 45 سال ہوں گے۔ چنانچہ بعد ازاں 1991ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ وہاں تشریف لے گئے تو 1947ء سے یہ 45 سال بنتے ہیں جب خلافت کو قادیان سے ہجرت کرنا پڑی تھی۔
اسی طرح مکرم محمد عثمان چینی صاحب نے رؤیا میں دیکھا کہ حضورؒ کے گھر کے بارہ یا چودہ افراد حضورؒ کے ساتھ ہیں اور یہ غور ہو رہا ہے کہ جس مکان میں حضورؒ کو ٹھہرایا جانا ہے، وہاں سے دو مکان خالی کروائے جائیں یا نہ کروائے جائیں۔ حضورؒ نے یہ رؤیا سنا کر بتایا کہ بعینہٖ یہی واقعہ پیش آیا کہ میرے اہل و عیال پر مشتمل قافلہ کے کُل افراد 14؍تھے لیکن مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اور میری بیوی تو جماعت کی نمائندگی میں جائیں گے اور باقی بارہ افراد کو مَیں ذاتی اخراجات پر لے جاؤں گا۔ اسی طرح حضرت امّ طاہرؓ کے مکان میں آباد درویشوں کی دو فیملیوں کو بھی اُن کی رضامندی کے ساتھ متبادل نئے مکانوں میں تبدیل کرنے کی بات بھی پوری ہوئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ مع افراد قافلہ 15؍دسمبر 1991ء کو برٹش ایئرویز کے ذریعہ ہیتھرو ایئرپورٹ لندن سے روانہ ہوئے۔ حضورؒ کی صحبت میں 47؍افراد کو سفر کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔ 16؍دسمبر کو حضورؒ کا طیارہ دہلی پہنچا۔ تین دن حضورؒ نے دہلی کے احمدیہ مشن ہاؤس میں قیام فرمایا اور اس دوران سکندرہ، فتح پور سیکری اور آگرہ کے تاریخی مقامات کی سیر فرمائی۔ فتح پور سیکری میں حضرت سلیم الدینؒ اور آگرہ میں شاہجہان کے مزار پر دعا کی۔ تغلق آباد قلعہ کی سیر کی اور وہاں غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق کی قبر پر دعا کی۔ اسی طرح قطب مینار دیکھا اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر تشریف لے گئے اور لمبی دعا کی۔ 19؍دسمبر کی صبح بذریعہ ٹرین ’’شان پنجاب‘‘ امرتسر کے لئے روانہ ہوئے جو دوپہر اڑہائی بجے امرتسر پہنچی۔ اُسی روز شام چار بجے حضورؒ امرتسر سے ٹرین کے ذریعہ قادیان روانہ ہوئے۔ یہ ٹرین جو 19؍دسمبر 1928ء میں (حضورؒ کی پیدائش سے اگلے روز) جاری ہوئی تھی، قریباً دوسال سے بند کردی گئی تھی۔ حضورؒ کی آمد کے بعد حکام نے 19؍دسمبر 1991ء سے اسے دوبارہ چلا دیا۔ حضورؒ ٹرین کے ذریعہ شام 7 بجے قادیان سٹیشن پر ورود فرما ہوئے۔ جلسہ سالانہ کی مصروفیات کے بعد حضورؒ 4؍جنوری کو بذریعہ موٹر کار امرتسر اور وہاں سے بذریعہ ٹرین دہلی تشریف لے گئے جہاں پانچ روز قیام فرمانے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے۔دہلی میں قیام کے دوران کئی اخباری نمائندوں نے حضورؒ کے انٹرویو لئے۔ قادیان میں پانچ روز قیام کے بعد حضورؒ واپس دہلی تشریف لے گئے اور 16؍جنوری کو وہاں سے بذریعہ طیارہ لندن واپس تشریف لے آئے۔
اپنے ایک ماہ کے قیام کے دوران حضورؒ نے چار جمعے قادیان میں پڑھائے۔ قادیان اور دہلی میں مجالس عرفان منعقد فرمائیں۔ درویشان قادیان کے گھروں میں تشریف لے جاکر دعائیں کیں اور حوصلے بڑھائے۔ بعض غیرمسلموں کو ملاقات کا شرف بخشا۔ مجلس شوریٰ کی صدارت فرمائی اور نہایت اہم ہدایات سے نوازا۔ ہندوستان کے لیڈروں کو اپنی تقریر کے ذریعہ پیغامِ انسانیت دیا۔ حضورؒ نے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا: ’’مَیں ہندوستان میں جب سے آیا ہوں اور چل پھر کر جو حالات دیکھے ہیں، مجھے تو غربت کے دکھ کا کوئی مذہب دکھائی نہیں دیا۔ سکھ مصیبت زدہ ہو یا ہندو مصیبت زدہ ہو یا مسلمان مصیبت زدہ ہو۔ ہر دکھ کا ایک ہی مذہب ہے… اور غریب کا اور کمزور کا دکھ جب تک ہم محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے اس وقت تک ہم خدا کے قریب نہیں ہوسکتے۔… خصوصیت کے ساتھ جب ہندوستان میں بے چینی دیکھتا ہوں یا پاکستان میں بے چینی دیکھتا ہوں یا ملکوں کو ملکوں سے نفرت کرتے ہوئے اور دُور ہٹتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرا دل کٹتا ہے اور مَیں انتہائی تکلیف محسوس کرتا ہوں اور مستقبل کے متعلق ایسے خطرات دیکھتا ہوں جن کا علم اگر آپ کو ہوجائے تو آپ کے پتے پانی ہوجائیں۔ بہت ہی خوفناک دن ہمارے سامنے آنے والے ہیں … ایسے انقلابات برپا ہوچکے ہیں جن کے نتیجہ میں مغربی طاقتیں ایک نئی شان کے ساتھ اور نئے یقین کے ساتھ اور ایسے عزم کے ساتھ دنیا پر قبضہ کرنے والی ہیں کہ جس کے بعد کمزور ملکوں کے تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ کس طرح ان سے وہ چھٹکارا حاصل کریں۔… ایک دوسرے کے ساتھ پیار سے رہنا سیکھو ورنہ تمہاری باعزت زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
تقسیم ملک کے بعد قادیان میں جلسہ سالانہ کی حاضری جو تین چا ر ہزار سے متجاوز نہ ہوتی تھی اب 25؍ہزار تک پہنچ گئی۔ خلافت احمدیہ کے یہ عشاق 52؍ممالک سے تشریف لائے تھے۔ ہزاروں افراد نے قادیان کی گلیوں میں حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ بے شمار غیرمسلموں نے نہایت عقیدت سے ملاقات کی اور بعد میں اس ملاقات کا ذکر انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ کرتے رہے۔ اپنی جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب میں حضورؒ نے اسیران راہ مولیٰ کے لئے نہایت دردمندانہ دعا بھی کروائی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ ابھی حضورؒ دہلی میں تھے کہ سکھر کے اسیران کی رہائی کی خوشخبری مل گئی۔ حضورؒ نے فوری طور پر 21؍ڈبّے مٹھائی منگواکر دہلی مشن میں مقیم افراد میں تقسیم فرمائی۔
اس مبارک سفر کے آخری جمعہ میں حضورؒ نے فرمایا کہ بہت سے مخلصین جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان واپسی کے سامان ہوچکے ہیں۔ یہ جذباتی کیفیت کا پھل تو ہے لیکن حقیقت نہیں ہے کیونکہ مذاہب کی تاریخ میں ہجرت سے واپسی ہمیشہ پیغام کی فتح اور دین کے غلبہ کے ساتھ مشروط رہی ہے۔
پھر لندن واپس تشریف لانے کے بعد اپنے پہلے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ واپسی آناً فاناً رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک دفعہ لے کر جائے گا پھر بار بار لائے گا اور امن کے ماحول میں ایسا ہوتا رہے گا۔ اس لئے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ خدا کی کیا تقدیر کب ظاہر ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک مرکز سلسلہ باہر ہی رہے، دارالہجرت میں ہی ہو خواہ پاکستان میں یا کسی اَور جگہ۔ اور قادیان کے حالات ایسے ہوں کہ بار بار خلفاء سلسلہ کو وہاں جانے کی توفیق ملتی رہے اور باہر بیٹھ کر قریب کی نگرانی کا بھی موقعہ ملتا رہے۔ جماعت کو اگر قادیان کی واپسی میں اور جماعت کے عالمگیر انقلاب میں کوئی دلچسپی ہے تو اس کی تیاری کرنی ہوگی۔
اپنے خطبہ میں حضورؒ نے قادیان کے لئے کئی منصوبوں کا اعلان بھی فرمایا۔ اور ایک موقعہ پر فرمایا کہ یہ بات میرے دل میں راسخ ہوچکی ہے کہ یہ سفر کئی برکتوں اور کئی اعجاز کا حامل ہوگا۔