حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍ اور 19جون 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ صابرہ احمد صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ ؓکے بطن سے ایک بیٹا 18؍دسمبر 1928ء کو قادیان میں عطا فرمایا جس کا نام طاہر احمدرکھا گیا۔ آپؒ کی والدہ کے ہاں دوبیٹیوں کی پیدائش کے بعد ایک بیٹا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر یہ خوبصورت بچہ اُن کو عطا فرمایا تھا۔ آپؒ کی آنکھیں بھوری ، بال باریک اور سیاہ تھے۔ ناک ستواں لیکن ذرا خمدار تھی۔ رنگ گورا تھا۔ میانہ قد اور متناسب اور پھرتیلا جسم تھا۔ آپؒ بچپن میں بہت کم بیمار ہوئے۔ بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ تھے۔ شرارتیں بھی کرتے لیکن ایسی نہیں کہ کسی کا دل دکھے۔ ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے اور مقابلہ کرتے۔ مثلاً دیوار پر چلنے کا مقابلہ یا بارش کے پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں کو پھلانگنے کا مقابلہ، کچھ بڑے ہوئے تو فٹ بال اورکبڈی میں بھر پور حصہ لیتے رہے۔کبڈی میں تو آپؒ نے خاصی شہرت حاصل کی۔
آپؒ کا بچپن ہی تھا جب قادیان میں ایک کنواں کھودا جا رہا تھا۔آپؒ نے مزدوروں کو دیکھا کہ وہ کس طرح رسّہ پکڑ کر پاؤں کنویں کی دیوار سے اٹکا کر نیچے اُترتے ہیں اور پھر اسی طرح اوپر چڑھ کر باہر آتے ہیں۔ شام ڈھلے جب مزدور چلے گئے تو آپؒ نے بھی کنویں میں اترنے کی ٹھانی۔ جونہی رسّہ پکڑا کنویں میں اترے تو ٹانگیں بہت چھوٹی تھیں اور دیوار تک پہنچ نہ سکتی تھیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ آپؒ تیزی سے نیچے گرتے چلے گئے اور رسّے نے ہاتھ چھلنی کردیے۔ اب آپؒ کو یہ ڈر تھا کہ امی جان نے زخمی ہاتھ دیکھے تو گھبراجائیں گی اور سزا بھی مل سکتی ہے۔ چنانچہ آپؒ ڈاکٹر کے پاس گئے، صرف مرہم ہاتھوں پر لگائی اور پٹی نہ باندھی۔ اس طرح یہ تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن کسی کو پتا نہ لگنے دیا۔
آپؒ نے تعلیم کے سلسلہ میں نصابی کتب کے حوالہ سے تو خاص کارکردگی نہ دکھائی لیکن شروع سے ہی آپؒ کو مطالعہ کا بےپناہ شوق تھا اور غیر نصابی علمی کتب کا مطالعہ بڑے انہماک اور کثرت سے کیا کرتے تھے۔سائنس کا مضمون بہت پسند تھا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے .F.Sc اور پھر پرائیویٹ B.Aکیا۔1949ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور 1953ء میں امتیاز کے سا تھ شاہد پاس کیا۔ لندن یونیورسٹی کے School of Oriental and African Studies میں بھی تعلیم حاصل کی اور انگریزی زبان میں خصوصاً خوب مہارت حاصل کرلی۔1957ء میں آپؒ واپس ربوہ تشریف لے آئے۔

حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں: اُمّ طاہرؓ ہر وقت تڑپ کر خود بھی دعا کرتیں اور دوسروں سے یہ دعا کرواتیں کہ ’میرا ایک ہی بیٹا ہے، خدا کرے یہ خادم دین ہو۔ مَیں نے اسے خدا کے راستہ میں وقف کیا ہے‘۔ پھر آنسوئوں کے ساتھ یہ جملے بار بار دہراتیں کہ خدایا ! میرا طاری تیرا پر ستار ہو، یہ عابدو زاہد ہو، اسے خادم دین بنائیو! اسے اپنے عشق اور حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے عشق اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں سرشار کرنا۔ یہ تمام دعائیں احمدی والدین کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ان دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے حضورؒ خود فرماتے ہیں کہ مجھے تو چھوٹی عمر سے تہجد کا شوق تھا۔ بچپن سے ہی خدا نے دل میں ڈال دیا تھا کہ تہجد ضرور پڑھنی چاہیے اور اس کو میں نے آج تک حتی المقدور برقرار رکھا ہے۔
حضورؒ مزید فرماتے ہیں کہ میرے والد جماعت احمدیہ کے واجب الاحترام امام تھے اور لوگ ان کے پاس دعا کی درخواستیں لے کر آتے رہتے تھے لیکن ان کا اپنا طریق یہ تھا کہ آڑے وقت میں آپؓ ہم بچوں سے بھی فرماتے کہ ’’آؤ بچو! دعا کرو۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کا معین ومددگار ہو۔‘‘
دراصل جب مَیں بچپن میں بھی دعا کرتا تو اسے قبولیت کا شرف حاصل ہوجاتا لیکن کبھی کبھی میں یہ بھی سوچا کرتاکہ کہیں اس احساس میں میرے اپنے ذہن ہی کا عمل دخل نہ ہو لیکن جب میں نے ہستی باری تعالیٰ کے ناقابل تردید ثبوت کو اپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کرلیا اور میری عاجزانہ دعائیں کثرت سے قبول ہونے لگیں تو لا محالہ یہ امر ایک اور زندہ ثبوت کے طور پر کھل کر میرے سامنے آگیا۔ یہاں تک کہ ہستی باری تعالیٰ کی یہ تائیدی شہادت مضبوط ترہوتی چلی گئی حتیٰ کہ ایک وقت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے الہام سے سرفراز فرمادیا۔
حضورؒ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب کوئی مشکل درپیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں۔ اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنا لیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کُن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے۔‘‘ چنانچہ ایک سیٹلائٹ کمپنی کی ڈائریکٹر نے ایم ٹی اے کے ساتھ ایک معاہدے کی شدید مخالفت کی اور کوئی صورت مسئلے کے حل کی دکھائی نہ دیتی تھی۔ جب حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا گیا تو آپؒ نے فرمایا: ’’اللہ فضل فرمائے گا‘‘۔ پھر معجزانہ طور پر اچانک اُس ڈائریکٹر کو کمپنی نے فارغ کردیا اور نئے ڈائریکٹر نے نہ صرف معاہدہ کیا بلکہ تمام معاملات میں مددگار بنا رہا۔
حضورؒ کی ایک صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ نماز آپؒ کی روح کی غذا تھی۔کسی اَور کو بھی نماز پڑھتے دیکھ لیتے تو چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا۔اسی وجہ سے بچپن میں ہی یہ احساس ہم میں پیدا ہوگیا تھاکہ اگرہم نماز پڑھ لیں تو بچپن کی باقی نادانیاں اور شرارتیں قابل معافی ہیں۔ جب کبھی باہر سے آتے تو پہلا سوال یہی کرتے کیا نماز پڑھ لی؟ اگر جواب ہاں میں ہوتا تو وہ دن ہمارا ہوتا۔ ابّا کا پیار ہمارے لیے چھلکنے لگتا۔ صبح کی نماز کے لیے میری شادی ہونے تک آپؒ نے ہمیشہ خود مجھے اُٹھایا۔ بعض دفعہ نیند کا غلبہ ہوتا، اُٹھانے کے باوجود دوبارہ سوجاتی، حضورؒ پھر آتے اور دوبارہ اسی پیار اور نرمی سے اُٹھاتے۔ مجھے یاد نہیں آ پؒ نے کبھی چڑ کر اس بات پر ڈانٹا ہو۔ بار بار اُٹھاتے یہاں تک کہ ہم اُٹھ کر نماز ادا کرلیتے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ نماز کی پابندی کے لیے ہمیں ڈانٹ نہیں پڑی مگر صبح ہمیں اُٹھاتے ہوئے کبھی چڑ کر نہیں ڈانٹا۔دراصل حضورؒ کو کبھی بھی اپنی ذاتی تکلیف پر غصہ نہیں آتا تھا۔ آپؒ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ اس عمرکی فطری مجبوری ہے کہ بچہ بار بار نیند سے مغلوب ہو کر سو جائے گا مگر جہاں تک خدا کے حکم کا تعلق ہے اگر نرمی سے بات نہ مانی جاتی تو غصے کا اظہار بھی کرتے تھے۔

حضورؒ نے ایک بار فرمایا کہ میں نے باقاعدہ حساب لگا کر دیکھا تھا کہ گذشتہ تینوں خلفاء سے زیادہ مَیں نے باجماعت نمازیں پڑھائی ہیں اور یہ حسابی بات ہے اس میں کوئی شک کی بات نہیں۔انتہائی بیماری کے وقت بھی بعض دفعہ نزلہ سے آواز نہیں نکل رہی ہوتی تھی مگر نماز باجماعت کی مجھے اتنی عادت بچپن سے تھی اور اس ذمہ داری کے بعد تو یہ عادت بہت زیادہ بڑھ گئی کہ جتنی باجماعت نمازیں میں پڑھا چکا ہوں اتنی پچھلے تینوں خلفاء کی مجموعی طور پر تعداد نہیں بنے گی۔
حضورؒ کے ایک عزیز بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نماز باجماعت کی بے انتہا پابندی کرنے والے تھے۔ جب بھی کئی روزہ دورے سے واپس ربوہ آتے تو پہلا سوال یہی ہوتا کہ آج کل مسجد مبارک میں نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟ پھر بہت سے لوگ خود تو باجماعت نماز کے پابند ہوتے ہیں لیکن اپنے تعلق داروں کے بارہ میں اتنے حساس نہیں ہوتے جتنا کہ حضورؒ تھے۔ بے انتہا توجہ تھی کہ آپؒ کے ارد گرد کوئی ایسا فرد نہ ہو جو نمازکے حوالے سے کمزوری کا شکار ہو۔ خاکسار بچپن میں ٹی وی پر کوئی میچ دیکھ رہا تھا۔ نماز ظہر میں ابھی کچھ وقت تھا۔ حضورؒ نماز کے لیے تیار ہوکر جانے لگے تو فرمانے لگے جانتے ہو شرک کیا ہے؟ شرک صرف بت پرستی نہیں بلکہ ہر بڑا شرک یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو لیکن جب اس کی طرف آنے کے لیے پکارا جائے تو سنی اَن سنی کردے اور دنیاوی کاموں میں منہمک رہے۔ فرمایا یہ بہت بڑاشرک ہے۔
حضورؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری مکرم منیر احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ آپؒ کو نماز سے اس قدر عشق تھا کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپؒ بیماری میں کمزوری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے رہے۔ آخری بیماری کے دوران شدید کمزوری کے باوجود آپؒ سہارا لے کر اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے تشریف لاتے۔ موسم خواہ سرد ہوتا یا گرم یا بارش ہورہی ہوتی یا برف باری ہوتی تو آپؒ ہمیشہ مسجد میں ہی جاکر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ انتہائی سردی میں بحری جہاز کے کھلے ڈیک پر بھی آپؒ نے نماز پڑھائی۔ اور سخت گرمی اور مچھروں کی یلغار کے وقت بھی نمازیں پڑھائیں۔یورپ کے سفروں میں سڑک کے کنارے مناسب جگہ دیکھ کر نمازوں کے لیے رُکنے کی ہدایت تو ہمیشہ جاری رہی۔ آپؒ کی زندگی قرۃ عینی فی الصّلوٰۃ کا نمونہ تھی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔


حضورؒ ایک بہادر ماہر نفسیات تھے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اباجان اور سارے پہاڑ پر گئے ہوئے تھے اور میں اپنے گھر کے صحن میں اکیلا سویا کرتا تھا اور بعض دفعہ سوتے ہوئے ڈر لگتا تھاکیونکہ اس گھر کے متعلق کہانیاں بھی عجیب وغریب مشہور تھیں کہ ایک جن آیا کرتا ہے وغیرہ۔ تو ایک دفعہ اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ تو شرک ہے۔ اگر کوئی بلا یا کوئی جن نقصان پہنچا سکتا ہے اللہ کے اذن کے بغیرتو یہ بھی تو شرک کی ایک قسم ہے۔اس لیے میں نے اب اس کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مجھے بہادری عطا ہو۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد پھر میں نے نظر دوڑائی کہ کونسی جگہ سب سے زیادہ ڈرنے والی جگہ ہے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ ہوا کرتا تھا اس کمرے کے متعلق بڑی روایتیں تھیںکہ چمنی کی جگہ جہاں آگ جلائی جاتی ہے بڑی خطرناک جگہ ہے۔ تومیں رات کو اُٹھا اور دروازہ کھول کے اس کمرے کی چمنی میں جاکر بیٹھ گیا۔میں نے کہا اب جو بلاآنی ہے آجائے اور میں اللہ پر توکّل کرتا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ کوئی بلا مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک اللہ نہ چاہے۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعداتنا سکون ملا ہے کہ آرام سے بستر پر چلا گیااور بستر پر پڑتے ہی نیند آگئی۔
حضورؒ کی تلاوتِ قرآن کےبارے میںآپؒ کے بچپن کے ایک استاد بیان فرماتے ہیں کہ ننھا طاہر اس عمر میں بھی بڑی توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور دیکھنے والے کو صاف محسوس ہوتا کہ تلاوت کرتے وقت اسے دلی خوشی اور لذّت محسوس ہورہی ہے۔ ایسی خوشی کہ دیکھنے والا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

٭… قرآن کریم سے آپؒ کو جو محبت تھی اس کا اظہار آپؒ کے دروس قرآن سے بھی ہوتا ہے اورترجمۃالقرآن کلاس سے بھی، جس کے بارے میں آپؒ نے خود فرمایا: ’’میں نے ترجمہ قرآن عربی گرامر کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے۔ …میں نے بھی ترجمہ سیکھنے کے لیے دعائیں کی ہیں میری تعلیم القرآن کلاس میری زندگی کا ماحصل ہے پس ترجمہ قرآن سیکھنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘
آپؒ نے محبت قرآن سے لبریز ہوکر فرمایا: ’’آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھ میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔ جس طرف سے آئیں، جس بھیس میں آئیں ان کے مقدر میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں ، آج یہ ذمہ داری مسیح موعودؑ کی غلامی میں میرے سپرد ہے۔‘‘
٭…آپؒ کی زندگی کاایک بہت دلکش اور دلگداز پہلو آپؒ کا عشق رسولؐ ہے۔ جب بھی آنحضرت ﷺ کا مقدس نام آپؒ کی زبان پر آتا تو آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں ، آواز بھرا جاتی اور بمشکل اپنے جذبات پر قابو پاکر آنحضورﷺ کا ذکر مکمل فرمایا کرتے تھے۔آپؒ نے بارہا جماعت کو حضور اکرم ؐ پر درود و سلام بھیجنے کی نصیحت فرما ئی۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

1957ء میں آپؒ وقف جدید انجمن احمدیہ کے سب سے پہلے ناظم مقرر ہوئے اور مسند خلافت پر متمکن ہونے تک فائز رہے۔ 1966ء تا 1969ء بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت ثالثہ کے دور میں آپؒ لمبا عرصہ ناظم لنگر خانہ بعد میں نائب افسر جلسہ سالانہ رہے۔1979ء میں آپؒ صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ منتخب ہوئے۔علاوہ ازیںآپؒ ڈائریکٹر فضل عمر فائونڈیشن ، امیر مقامی ربوہ اور دیگر اہم عہدوںپرفائزرہے۔ 1974ء میں جماعت احمدیہ کا جو وفد قومی اسمبلی میں پیش ہوا اس کے بھی ممبر تھے۔
مکرم انور احمد کاہلوں صاحب کے والد محترم نے انہیں بتایا کہ تمہاری والدہ اور حضرت اُمّ طاہرؓ دونوں گہری سہیلیاں تھیں۔ ایک سہ پہر کا ذکر ہے جب تمہاری والدہ اپنی سہیلی کو ملنے گئیں تو صاحبزادہ طاہر احمد اس وقت تقریباً تین سال کے تھے۔ اچانک حضرت اُمّ طاہرؓ نے خلیفہ ثانیؓ کی دستار لا کر اسے ننھے طاہر کے سر پر باندھ دیا اور بولیں ’’طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا ‘‘۔ دراصل اسی صبح حضرت اُمّ طاہرؓ سے مخاطب ہوکر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا ’’مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ طاہر ایک دن خلیفہ بنے گا۔‘‘
مکرمہ امۃ الرشید صاحبہ نے قریباً 1940ء میں نہایت صاف آواز سنی کہ ‘‘خلیفۃ المسیح حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہوں گے۔’’ آپؒ نے یہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تحریرکیا تو حضورؓ نے تحریر فرمایا: ’’خلیفہ کی زندگی میں ایسے رؤیا و کشوف صیغہ راز میں رہنے چاہئیں اور تشہیر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ اسی طرح مکرم ضیاء الدین حمید صاحب کو 1979ء میں کشف ہوا کہ چوتھے خلیفہ کے والد (بقید حیات ) نہیں ہوں گے ، بھائی نہیں ہوگا ، اور نہ ہی بیٹا ہوگا۔ پھر القا ہوا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ ہیں۔ اسی طرح مکرم عبدالباری صاحب اور مکرم خوارج احمد صاحب نے ایک ہی خواب دیکھاکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنی پگڑی حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو پہنا دی ہے۔
1957ء میں آپؒ کی شادی حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپؒ ایک مثالی شوہر اور شفیق باپ تھے۔آپؒ نے بچیوں کو بہت پیار دیا۔ انہیں اپنے فارم پر احمدنگر لے جاتے اور پیار ہی پیارمیں آپؒ ان کی تربیت بھی فرماتے۔رات کو انہیں کہانیاں بھی سناتے جو بالعموم انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہوتیں۔ آپؒ کی بیٹیوں کی بیان کردہ چند متفرق یادیں درج ذیل ہیں:

٭… پہلی یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ ایک خوبصورت ، مہربان اور مسکراتا ہوا وجود ہاتھ میں دفتری کاغذات پکڑے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو دو چھوٹی بچیاں بھاگتی ہوئی جاکے ان سے لپٹ جاتی ہیں۔ ان کو خوب علم ہے کہ یہی شخص اس گھر کی رونق اور تمام خوشیوں کا منبع ہے اور یہ بھی جانتی ہیں کہ ان کے آنے سے ہمارے دن کا وہ حصہ شروع ہوجائے گا جوزندگی سے بھر پور ہے۔
٭…ابّا ہمارے ساتھ کھیلتے اور دلچسپ باتوں سے ہنساتے بھی مگر کسی چیز کا ضیاع ہو رہا ہوتا تو انہیں بہت تکلیف ہوتی۔ ہم اکثر لائٹیں وغیرہ جلتی چھوڑ دیتے یا لاپرواہی کرتے۔ ایک بارابّا جان کراچی گئے کچھ دنوں کے لیے وہاں جاکر ہمیں خط لکھا جو بہت مزیدار اور دلچسپ تھا کہ تم لوگ سارا دن بتیاں جلائے رکھنا اور رات کو بند کر دینا سٹور وغیرہ کی خاص طورپر ، سارا دن گھر روشن رکھنا تاکہ جھینگر وغیرہ کو اِدھر اُدھر پھرنے میں یا راستے ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
٭…سادگی اور سچی انکساری حضورؒ کی شخصیت کا خوبصورت اور نمایاں پہلو تھا۔ آپؒ ہمیشہ اپنے ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے۔گھر میں کام کرنے والوں کی موجودگی کے باوجود کوئی کام اپنے ہاتھ سے کرنا عار نہ سمجھتے تھے۔ خلافت سے پہلے بعض دفعہ اپنے کپڑے بھی خود دھولیتے تھے۔ خلافت کے بعدمصروفیات کی وجہ سے ایسے کام تو نہیں کرتے تھے مگر اپنا ناشتہ بیماری شروع ہونے تک خودہی بنا لیتے تھے۔ حسب ضرورت ہر قسم کا کام کر لیتے تھے چیزیں بھی مرمت کرلیتے۔ ابّا نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جب میں انگلینڈ میں پڑھتا تھا تو میں نے ساری ساری رات مزدوری کی ہوئی ہے۔ بہت بھاری سامان مزدوروں کی طرح اپنی کمر پر لاد کر دوسری جگہ منتقل کیا کرتا۔ یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ اتنی محنت کرتا تھاکہ گھر جاکر بخار ہوجاتا مگر اگلی صبح پھروہی کام کرنے پہنچ جاتا۔
ابّا کی انکساری اس لحاظ سے غیر معمولی تھی کہ آپؒ نے آنکھ ہی خلیفۂ وقت کے گھر کھولی تھی۔قادیان کاتمام ماحول ان بچوں کے لیے محبت سے بھرا ہواتھا اور ایسے ماحول میں غالب امکان تھاکہ اپنی ذات کو برتر سمجھنے کا احساس پیدا ہوجاتا مگر اس کے برعکس میں نے ایسی انکساری کسی اَور میں نہیں دیکھی جیسی آپؒ میں تھی۔ حضورؒ کو ہر شخص کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان سے استفادہ کرنے اور صحیح رخ پر لانے کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ خواہ وہ شخص کوئی معمولی اور کم فہم بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ابّا اپنی ڈاک دیکھنا شروع کرتے تو آپؒ کے قرب میں بیٹھنے کی خواہش میں، مَیں آپؒ کے ساتھ بیٹھ جاتی اور آپؒ کے کاغذات کو چھیڑنے لگتی۔اس پر حضورؒ نے مجھے کہا کہ تم میری پرائیویٹ سیکرٹری بن جائو۔ جس طرح مَیں بتائوں ،میرے کاغذ ترتیب سے لگایا کرو۔بجائے اس کے کہ مجھے ڈانٹ کر اُٹھادیا جاتا مجھے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری کہہ کر دل خوش کردیا بلکہ احساس ذمہ داری بھی پیدا کردیا۔
٭…آپؒ مہمانوں کا بے حد اکرام کرنے والے تھے، ہمارے گھر کے دروازے ہر طرح کے لوگوں کے لیے کھلے رہتے۔ مہمانوں کی آمد ابّا کے لیے بے حد خوشی کا موجب بنتی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپؒ نے سارا گھر جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لیے خالی کردیا اور خود صحن میں ٹینٹ لگا کر وہاں منتقل ہوگئے۔ بعض دفعہ اگر گھر میں کام کرنے والا موجود نہ ہوتا تو خود ہی ان کے لیے سب انتظام کرلیا کرتے تھے۔ کھانا بھی خود بنا لیتے تھے۔ابّا کی مہمان نوازی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ امی چھیڑنے کے لیے ابّا سے کہتیں : مجھے لگتا ہے آپ نے ریلوے سٹیشن اور بس سٹاپ پر اپنے آدمی بٹھائے ہوتے ہیں کہ جو ربوہ پہنچے اس کو پکڑ کر سیدھا آپ کے گھر لے آئیں۔
٭…ابّا کو اللہ تعالیٰ نے بہت لطیف حس مزاح سے نوازا تھا۔ مزاح کے رنگ میں بہت خوبصورتی سے نصیحت کردیتے تھے۔ ایک دفعہ بہت سی خواتین گھر میں زوردار انداز میں باتیں کررہی تھیں کہ حضورؒ تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’مَیں نے خواتین میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ سب خواتین بیک وقت بول رہی ہوتی ہیں اور بیک وقت سن بھی رہی ہوتی ہیں اور سمجھ بھی رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ مردوں میں ایک بولتا ہے تو دوسرے سنتے ہیں اور اگر یہ نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ یہ سن کر ہم ہنس پڑیں اور اس نصیحت کا اثر یہ ہوا کہ چند دن بحث مباحثہ ذرا طریقے سے کیاجاتا رہا۔
٭… مکرم منظور احمد سعید صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؒ نے 1960ء میں ہومیو پیتھی کی مفت ادویہ دینے کا سلسلہ اپنے گھر سے شروع کیا۔1967ء میں وقف جدید میں باقاعدہ ڈسپنسری قائم ہوئی۔ اس وقت تک تمام اخراجات آپؒ خود برداشت کرتے تھے۔ ڈسپنسری میں ایک دن ایک بچہ آیا اور کہنے لگا:دوائی نہیں لینی۔آپؒ نے فرمایا پھر کیا لینا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے اور رات کو گرمی ہوتی ہے اور ہمیں مچھر کاٹتا ہے ہمارے پاس پنکھا نہیں۔ آپؒ نے پنکھا خرید کر اُن کے گھر پہنچادیا۔
جب میں وقف جدید میں بطور کارکن آیا اس وقت ہمارا گھر دارالصدر میں ہوتا تھا اور میرے پاس سائیکل نہیں تھی۔ دفتری اوقات کے بعد جب مَیں پیدل گھر جا رہا ہوتا تھا تو آپؒ مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا لیتے تھے اور سائیکل خود چلاتے تھے۔ میرے اصرار پر بھی سائیکل مجھے نہ چلانے دیتے اور فرماتے کہ پیچھے بیٹھ جائیں۔ میں عرض کرتا گرمی ہے پیچھے ہوا نہیں لگتی تو فرماتے: آپ آگے بیٹھ جائیں۔


حضورؒ کے دَور ِخلافت کی چند تحریکات یہ ہیں:
29؍اکتوبر1982ء کوبیوت الحمدمنصوبہ کا اعلان۔
28؍جنوری 1983ء کو داعی الی اللہ بننے کی تحریک۔
14؍مارچ 1986ء سیدنا بلالؓ فنڈکا قیام۔
3؍اپریل 1987ء تحریک وقف نوکا آغاز۔
1989ء جرمنی میں تحریک سومساجد۔
نوجوانوں کو شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کی تحریک۔
1993ء میں عالمی بیعت کا آغاز ہوا۔
7؍جنوری1994ء الفضل انٹر نیشنل کا اجرا۔
جنوری1994ء میںMTAانٹرنیشنل کا آغاز۔
جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک۔
21؍فروری 2003ء کومریم شادی فنڈ کا اجرا۔
حضورؒ کی تصانیف کو مغرب ومشرق کے د انشوروں نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ متعدد کتب کے کئی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ چند مطبوعات درج ذیل ہیں:
’’مذہب کے نام پر خون‘‘ (1962ء)،
’’ورزش کے زینے‘‘(1965ء)،
’’احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ (1968ء)،
’’سوانح فضل عمر جلد دوم‘‘ (1975ء)،
’’رسالہ ربوہ سے تل ابیب تک پر تبصرہ‘‘ (1976ء)،
’’وصال ابن مریم‘‘ (1976ء)،
’’سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ‘‘ (1989ء)،
’’خلیج کا بحران اور نظام جہا ن نو‘‘ (1992ء)،
’’ذوق عبادت اور آداب دعا‘‘(1993ء)،
’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘(1998ء)
اور ’’قرآن کریم کا اردو ترجمہ مع تشریح‘‘ (2000ء )
حضورؒ نے صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کی شہادت پر آپ کی والدہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کے نام ایک خط میں فرمایا: ’’میرے لیے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بےحساب بخش دے۔ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً قرار دیتے ہوئے اپنے بندوں اور اپنی جنت میں داخل فرمائے۔ ہمیشہ دل کی یہی تڑپ رہی ہے۔ ہمیشہ دل کی یہی تڑپ رہے گی کہ اے کاش میرا انجام اُس کی نظر میں نیک ٹھہرے، آمین۔‘‘

مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً
رُوح بےتاب ہے رُوحوں کو بُلانے والے

19؍اپریل 2003ء کوحضورؒ کی وفات ہوئی۔ ؎

تحسین تری عمر کہ اس عمر میں تُو نے
صد خضر کی عمروں سے سوا کام کیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں