حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی قبولیت دعا اور شفقت

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب حضورؒ کی قبولیت دعا اور شفقت کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ بیٹیوں میں سے سب سے بڑی کی شادی حضور رحمہ اللہ کی بابرکت ترغیب سے جلد ہی ہوگئی۔ یہ واقعہ جو میں بتانے جارہا ہوں اس وقت کا ہے جب حضورؒ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی بی بی طوبیٰ صاحبہ کی شادی ہوئی تھی۔ اس وقت میں اپنی چار بیٹیوں کے لئے مناسب رشتہ تلاش کررہا تھا۔ بدقسمتی سے برطانیہ میں لڑکیوں اور لڑکوں کا تناسب ناموافق ہے۔ یعنی لڑکوں کی نسبت ایسی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے لئے رشتہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اپنے ذہن پر یہی ’’بوجھ‘‘ لئے میں نے اور میری بیگم نے حضورؒ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران میری بیوی نے مذاقاً حضورؒ سے کہا کہ وہ ہماری بیٹیوں کے معاملہ پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ ایک لمحہ کی ہچکچاہٹ کے بغیر حضورؒ نے کمال مہربانی سے ہماری بیٹیوں کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرنے کا وعدہ کرلیا۔ الحمدللہ میرے سب بچے والدین کی پسند کی شادی پر یقین رکھتے ہیں، مزید اس معاملے میں حضورؒ کی دلچسپی دہرا انعام تھا۔
بدقسمتی سے اس کے بعد جلد ہی حضور اقدس بیمار ہوگئے۔ دنیا بھر کے احمدی یہ دیکھ کر پریشان تھے کہ اتنی متحرک شخصیت نے بیرونی معاملات میں مداخلت نہ ہونے کے برابر کردی تھی۔ مجھے یہ بیان کرتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اُس وقت مَیں یہ سوچ کر مایوس اور پریشان ہوگیا کہ اگر خدانخواستہ حضور مکمل صحتیاب نہ ہوئے تو نتیجۃً ان کا وعدہ بھی ادھورا رہ جائے گا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نہایت مہربان ہے۔ الحمدللہ کہ حضور اقدس مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے۔ صحت یابی کے چند دن بعد ہی حضور اقدس نے مجھے اور میری بیوی کو اپنے دفتر میں بلایا۔ ہم دونوں دفتر میں بیٹھے حضور اقدس کا انتظار کررہے تھے۔ بہت گھبراہٹ تھی اور ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔ حضورؒ اپنی مخصوص دلکش مسکراہٹ کے ساتھ کمرہ میں تشریف لائے۔ سلام کے بعد حضورؒ نے فرمایا کہ انہیں کچھ مہینے پہلے کا کیا ہوا اپنا وعدہ یاد ہے کہ وہ ہماری بیٹیوں کے لئے مناسب رشتہ تلاش کریں گے۔
اس کے بعد حضورؒ نے نہایت محبت سے اپنا وعدہ نبھایا چنانچہ ایک ہی سال کے عرصہ میں ہماری سب بیٹیوں کی شادی ہوگئی اور حضورؒ نے ازراہ شفقت شادیوں کی مختلف تقریبات میں شرکت بھی کی۔ خصوصاً ہماری سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی وہ آخری شادی تھی جس میں حضورؒ نے شرکت کی۔
مندرجہ بالا واقعہ سے اخذ کیا گیا نتیجہ یہ ہے کہ حضور اقدسؒ (جو کہ دنیا کے مصروف ترین انسان تھے اور پوری دنیا کے معاملات پر ان کی نظر تھی اور انفرادی کاموں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا)ن ے اپنے ایک ادنیٰ غلام سے کئے گئے وعدہ کو باوجود خرابی صحت کے پورا کیا۔ تو کیا ہم میں سے ہر احمدی کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ خلیفۃالمسیح اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے اپنے عہد کی پاسداری کرے!۔

اپنا تبصرہ بھیجیں