حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کی جانوروں اور پرندوں سے شفقت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 دسمبر 2011ء میں مکرم محمد افضل متین صاحب کے قلم سے جانوروں اور پرندوں سے شفقت اور رحم کے سلوک کے بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؓ کے چند واقعات پیش کئے گئے ہیں ۔
٭ مکرم احسان اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضورؓبیمار تھے ان ایام میں ایک کمزور سی لومڑی وہاں آیا کرتی تھی۔ حضورؓ نے اُسے دیکھا تو فرمایا کہ اس کا خیال رکھا کریں ۔ چنانچہ حضورؓ کے پرشفقت ارشاد کی تعمیل میں ہم نے اُسے سالن اور روٹی ڈالی لیکن وہ اسے کھاتی نہیں تھی۔ پھر اُسے کچا گوشت ڈالا تو اُس نے کھالیا۔ اس کے بعد ہم روزانہ اسے کچا گوشت ہی ڈالا کرتے تھے۔ اُسے دیکھ کر چھ سات دیگر لومڑیاں بھی وہاں آنا شروع ہوگئیں اور ہم انہیں بھی باقاعدہ گوشت ڈالتے تھے اور حضورؓ باقاعدگی کے ساتھ پوچھتے تھے کہ آج کتنی لومڑیاں آئی تھیں اور انہیں کتنا گوشت ڈالاتھا۔ چنانچہ وہ نہایت کمزور لومڑی بھی لازوال شفقتوں سے وافر حصہ پاکر بڑی موٹی تازی ہو گئی۔
٭ محترم عطاء المجیب راشد صاحب لکھتے ہیں : حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کا یہ معمول تھا کہ آپ نماز فجر کے بعد سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ بالعموم آپ ومبلڈن کامن کے علاقہ میں سیر کو جایا کرتے وہاں ایک تالاب بھی ہے جس میں مرغابیاں اور بطخیں بھی ہوتی ہیں ۔ حضور کا طریق تھا کہ آپ ان پرندوں کو اپنے دست مبارک سے روٹی ڈالاکرتے تھے۔ اس غرض سے ہر روز کافی تعداد میں ڈبل روٹیاں آپ کے ہمرا ہی اپنے ساتھ لے کر جاتے۔ روزانہ کے اس معمول کی وجہ سے یوں لگتا کہ پرندے ہر صبح اس مبارک ضیافت کے لئے منتظر ہوتے تھے۔ جونہی حضور اور آپ کے ہمراہی تالاب کے قریب پہنچتے تو یہ پرندے ایک عجیب والہانہ انداز میں ہر طرف سے اُڑ کر یا تیزی سے تیرتے ہوئے آپؒ کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ اگر کسی روز بارش یا ناسازیٔ طبع کی وجہ سے مجبوراً سیر پر تشریف نہ لے جاسکتے یا کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو آپؒ کی ہدایت ہوتی کہ کوئی نہ کوئی ضرور صبح کے وقت جا کر ان پرندوں کو ان کا کھانا ڈال کر آئے۔ اس میں ہرگز ناغہ نہ ہو۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضور کسی وجہ سے دو تین روز سیر کے لئے تشریف نہ لے جا سکے اور غالباًان پرندوں کے کھانے میں بھی کچھ ناغہ ہوگیا۔ پھر ایک صبح جب حضورؒ نماز فجر سے فارغ ہونے کے بعد اپنی رہائشگاہ کی طرف واپس تشریف لارہے تھے تو آپ نے یہ محسوس کیا کہ بعض پرندوں کی آوازیں آرہی ہیں ۔ مُڑ کر دیکھا تو مسجد کے قریب لگے ہوئے پھولوں کے پودوں کے قریب کچھ مرغابیاں تھیں جو ایک عجیب کیفیت میں آوازیں نکال رہی تھیں ۔ پھر یہ مرغابیاں باہر نکل آئیں اور حضور کی طرف بڑھنے لگیں ۔ حضورؒ ان مرغابیوں کو دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس طرح یہ یہاں آگئی ہیں اور کس طرح انہیں حضور کی رہائشگاہ کا پتہ چل گیا ہے۔ ان کی بے قرار آوازوں کو سن کر حضور نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان کی روٹیاں نہیں مل سکیں اسی لئے یہ اُڑ کر خود یہاں آگئی ہیں ۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ ابھی کچن کھول کر ان مرغابیوں کے لئے روٹیاں لائی جائیں چنانچہ فوری طور پر خدام نے کچن کھلوایا اور روٹیاں لے کر آئے۔ اس میں چند منٹ لگ گئے اور اس سارے عرصہ میں یہ ساری مرغابیاں حضور کے اردگرد بڑی محبت اور مانوسیت سے گھومتی رہیں اور ایک خاص انداز میں آوازیں نکالتی رہیں ۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ یہ مرغابیاں اپنے محسن اور مہربان وجود کے قدموں میں آکر بے حد خوش اور مطمئن اور منتظر ہیں کہ اب اس کے مقدس ہاتھوں سے روز کی طرح انہیں ان کا کھانا ملنے والا ہے۔ حضورؒ بھی مرغابیوں کی اس کیفیت سے بہت متأثر تھے اتنی دیر میں روٹیاں آگئیں اور حضور انور نے اپنے دست مبارک سے ان مرغابیوں کو ڈالیں ۔ ہم خدام اس نظارہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب حضور نے سارا کھانا ان مرغابیوں کو دے دیا اور اس کے بعد اپنی رہائشگاہ کی طرف جانے لگے تو یہ مرغابیاں بھی حضورؒ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں ۔ یہ نظارہ آج بھی مجھے خوب یاد ہے۔
٭ حضور نے ایک دفعہ فرمایا تھا: ’’مغربی دنیا میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانوروں پر شفقت کے متعلق فولڈر ز کثرت سے تقسیم کئے جائیں ‘‘۔
٭ مکرم عبدالغنی جہانگیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ

مسجد فضل لندن کے ایک مستقل رہائشی کبوتر کو لنگرخانہ کے اُن گندے دیگچوں میں جاکر کھانے کی عادت تھی جو دھلنے کے لئے باہر رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ ایک روز وہ بے چارہ ایک ایسے دیگچے میں چھلانگ لگا بیٹھا جس میں پرانا تیل ضائع کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا۔ گندے تیل میں بھیگنے کے بعد وہ بمشکل دیگچے سے باہر آسکا لیکن اُڑنے کے قابل نہ رہا اور اسی حالت میں گھسٹتے اور ٹھٹھرتے ہوئے حضور کے گھر کے دروازے تک پہنچا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر کانپنے لگا۔ یہ اکتوبر کی ایک سرد شام تھی جب مغرب کی نماز سے واپس آتے ہوئے حضورؒ نے اُسے اچانک دیکھا اور میجر محمود احمد صاحب سے فرمایا کہ ابھی اس کا بندو بست کریں۔

میجرصاحب نے اُسے میرے سپرد کرکے کہا کہ میں اس کی دیکھ بھال کروں اور حضورؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رپورٹ بھی دینی ہے کہ اس کا کیاحال ہے۔
چنانچہ کبوتر کو اپنے ساتھ لے آیا۔ پہلے اسے تین مرتبہ شیمپو کیا تاکہ اس کے پروں سے تیل صاف ہوجائے اور پھر اس کو اچھی طرح خشک کیا۔ اس کے بعد اس کو مَیں نے تین دن کے لئے اپنے دفتر میں ہی رکھا اور کھلایا پلایا۔ تین دن بعد جب اسے حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؒ بہت خوش ہوئے اور فرمایا آپ آج رات اسے فرنچ ملاقات پروگرام میں لے کر آئیں اور اس پر ایک مختصر ڈاکومنٹری بنائیں کہ اس کو کیا ہوا تھا اور کس طرح اس کی دیکھ بھال کی گئی ہے۔
چنانچہ اس رات فرنچ ملاقات پروگرام میں وہ خوش قسمت کبوتر Star Of The Show بن گیا۔ اس پروگرام میں حضور کو کبوتر کی ساری کہانی سنائی گئی اور کبوتر بھی دکھایا گیا اور بعد میں اسے آزاد کر دیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں