حضرت سلمان فارسیؓ

قبولِ اسلام کی توفیق پانے والے پہلے ایرانی شخص حضرت سلمان فارسیؓ تھے۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو غیرعرب ہونے کے باوجود اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا اور ایک موقع پر آپؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان ثریا پر چلاجائے گا تو سلمان کی قوم میں سے ایک شخص ایمان کو دوبارہ زمین پر قائم کرے گا۔ اسی لئے آپؓ کو سلمان الخیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ آپؓ کو غیرتِ ایمان کی وجہ سے اپنے مجوسی والدین کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں تھا اس لئے آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جن کی ولدیت کے خانہ میں اسلام لکھا ہوا ہے۔
آپؓ کے بارہ میں قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 15؍مارچ 1996ء کے اسی کالم میں ذکر کیا جاچکا ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 و 17؍اپریل 1999ء میں آپ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت سلمانؓ کا نام مابہ بن بوزخشان تھا اور آپؓ اصفہان کی بستی حبّی یا رام ہرمز کے گردونواح کے رہنے والے تھے۔ آپ کا والد آگ کی پرستش کرتا تھا اور اپنی بستی کا سردار اور زمیندار تھا۔ اُسے آپ سے اس قدر محبت تھی کہ ایک عرصہ تک اُس نے آپ کو گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیا۔ پھر جب وہ خود زمین کی نگہداشت کیلئے نہ جاسکتا تو آپ کو اپنی جگہ بھجوادیا کرتا۔
ایک روز آپ کا گزر عیسائیوں کے گرجا کے پاس سے ہوا اور اُنہیں عبادت کرتا دیکھ کر آپ گرجے کے اندر چلے گئے۔ اُن کا مذہب اپنے مذہب سے بہتر پایا تو شام تک وہیں بیٹھے رہے اور پھر اُن سے پوچھا کہ اُن کے مذہب کا مرکز کہاں ہے؟۔ انہوں نے بتایا کہ ملک شام میں۔ آپ نے کہا کہ اگر کوئی قافلہ وہاں جائے تو آپ کو بھی اُس کے ساتھ وہاں بھجوادیا جائے۔ جب آپ گھر واپس آئے اور باپ کو ساری بات کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا اور آپ کو بیڑیاں ڈال کر گھر میں قید کردیا۔ ایک روز جب ایک تجارتی قافلہ شام جانے والا تھا تو آپ نے کسی نہ کسی طرح خود کو آزاد کیا اور قافلہ کے ساتھ شام کے سب سے بڑے پادری کے پاس چلے گئے۔ یہ پادری بہت بددیانت اور بداخلاق تھا۔ اُس نے سونے چاندی کے سات مٹکے اپنے پاس جمع کر رکھے تھے۔ آپ کو اُس کی حالت دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی لیکن سوائے پیچ و تاب کھانے کے کچھ نہ کرسکے۔ جب وہ پادری مرگیا تو نیا پادری بہت عابد و زاہد اور تارک الدنیا تھا۔ آپ کو اُس سے دلی محبت ہوگئی۔ جب اُس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُس نے آپ کی خواہش پر آپ کو نصیحت کی کہ موصل میں ایک شخص کے پاس چلے جاؤ۔ آپ نے ایسا ہی کیا۔ جب اُس شخص کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اُس سے بھی پوچھا کہ اب اپنی روحانی تربیت کے لئے کہاں جاؤں؟۔ اُس نے عموریہ جانے کی تلقین کی۔ چنانچہ آپ عموریہ کے لاٹ پادری کے پاس چلے گئے اور وہاں کچھ گائیں اور بکریاں بھی پال لیں۔ جب اُس پادری کا آخری وقت آیا تو اُس نے آپ سے کہا کہ بیٹا آج دنیا میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں جس سے ملنے کا مشورہ تمہیں دوں۔ البتہ اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے جو ریگستان عرب سیدینِ ابراہیمی کو ازسرنو زندہ کرے گا اور ایک کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا۔ اس کی علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ حرام سمجھے گا۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت ہوگی۔
اس پادری کی وفات کے بعد آپ عرب قبیلہ بنوکلب کے تاجروں کے ساتھ ہولئے اور یہ سودا کیا کہ وہ آپ کی گائیں اور بکریاں لے لیں گے اور آپ کو عرب پہنچادیں گے۔ لیکن انہوں نے دھوکہ سے وادی قریٰ میں ایک یہودی کے پاس آپ کو فروخت کردیا۔ اُس یہودی کے ہاں کھجور کے کچھ درخت تھے جنہیں دیکھ کر آپ کو منزل کی آس بندھی لیکن جلد ہی اُس نے آپ کو اپنے چچیرے بھائی کے پاس بیچ دیا جو آپ کو مدینہ لے آیا۔ ایک روز آپ نے اپنے مالک کے ایک رشتہ دار کو یہ کہتے سنا کہ خدا بنی قیلہ کو غارت کرے، وہ سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور یہ لوگ اسے نبی سمجھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ کے بدن میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟۔ آپ کے مالک نے آپ کے منہ پر گھونسا مارا اور کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو۔ آپ خاموش ہوگئے لیکن شام کو خاموشی سے کھانے کی کچھ چیزیں لے کردربارِ رسالت جا پہنچے اور بطور صدقہ پیش کیں۔ آنحضورﷺ نے خود نوش نہ فرمایا لیکن دوسروں کو کھانے کا حکم دیا۔ دوسرے روز پھر کچھ چیزیں بطور ہدیہ پیش کیں تو آنحضورﷺ نے بھی یہ اشیاء کھائیں اور اپنے اصحاب کو بھی دیں۔ اس پر آپ بوسہ دینے کے لئے آنحضورﷺ پر اس طرح جھکے کہ مہر نبوت بھی دیکھ سکیں۔ آنحضورﷺ نے آپ کو سامنے سے آنے کا ارشاد فرمایا اور حقیقت حال پوچھی تو آپؓ نے ساری کہانی عرض کرکے اسلام قبول کرلیا۔ پھر آنحضورﷺ کے ارشاد پر آپؓ نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا سودا کھجور کے تین سو درخت اور چالیس اوقیہ سونے پر کیا۔ آنحضورﷺ کے ارشاد پر صحابہؓ نے مل کر درخت لگائے اور ایک غزوہ میں کچھ سونا مالِ غنیمت میں ہاتھ آیا تو آپؓ کو جسمانی غلامی سے آزادی نصیب ہوگئی۔ اس طرح رسول اللہ کی روحانی غلامی نے انہیں ہر غیراللہ کی غلامی سے نجات دلادی۔ اب آپؓ اصحاب الصفہ میں شامل ہوگئے اور آنحضورﷺ نے حضرت ابو الدرداء کے ساتھ آپکی مؤاخات قائم کردی۔
بدر اور احد کے غزوات میں اگرچہ آپؓ غلام ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے جب اپنے دورِ خلافت میں مختلف صحابہ کی خدمات کے مطابق اُن کے وظائف مقرر کئے تو آپؓ کا وظیفہ اصحاب بدر کے برابر مقرر کیا۔
غزوہ احزاب میں خندق حضرت سلمانؓ کے مشورہ سے کھودی گئی۔ آپؓ ایک مضبوط اور جفاکش انسان تھے اس لئے خندق کی کھدائی کے موقع پر صحابہؓ کے دونوں گروہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ سلمانؓ کو اُن کے گروہ میں شامل کیا جائے، تب آنحضورﷺ نے فرمایا سلمان منا اھل البیت۔ پھر جب ایک سخت چٹان خندق کی کھدائی کی راہ میں حائل ہوئی تو آنحضورﷺ نے آپؓ کی کدال لے کر چٹان پر ضربیں لگائیں اور ہر ضرب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ کو فتوحات کی خوشخبری عطا فرمائی۔ جنگ خندق میں آنحضورؐ کے لئے سلع پہاڑ پر ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا جہاں اب مسجد الفتح ہے اور حضرت سلمان کے خیمہ کی جگہ مسجد سلمان تعمیر ہوئی ہے۔
حضرت سلمان بیعت رضوان میں بھی شامل ہوئے اور قربانیوں کے بعد آنحضورؐ کے بال کاٹنے کی سعادت بھی آپؓ کو عطا ہوئی۔ اسی طرح اصحابؓ رسول کے ایمان لانے کے مواقع پر ان کے سروں کے بال مونڈ کر پیشہ مُوتراشی کو آپؓ نے رائج کیا۔
آپؓ خیبر، فتح مکہ اور حنین کے غزوات میں بھی شریک ہوئے۔ طائف کے محاصرہ کے دوران آپؓ نے ایک نئے طریقہ جنگ یعنی منجنیق اور دبابہ کے استعمال سے مسلمانوں کو متعارف کروایا جو قلعہ شکنی کے لئے پتھر پھینکنے کا مؤثر ہتھیار تھے۔
حضرت عمرؓ کے دور میں آپؓ کئی مواقع پر سالار لشکر بنائے گئے۔ ایرانی مہمات میں آپؓ پہلے ایرانیوں کو تبلیغ کرتے اور انہیں بتاتے کہ مَیں تمہارا ہم وطن بھائی ہوں اور عرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگر تم اسلام قبول کرلو تو ہمارے دینی بھائی بن جاؤ گے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ جب بھی رات کو حضرت سلمانؓ سے مصروفِ گفتگو ہوتے تو اتنی لمبی مجلس لگتی کہ ہمیں خیال آتا کہ شاید آج ہم میں سے کسی کی باری کھوئی جائے گی۔
حضرت سلمانؓ صحف سابقہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے اور قرآن مجید کو براہ راست زبانِ نبوت سے سیکھا تھا اسلئے بہت معروف عالم تھے۔ آنحضورﷺ نے ایک بار فرمایا کہ ’’سلمان علم وحکمت سے لبریز ہے‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’سلمان علم و حکمت میں لقمان حکیم کے برابر ہیں‘‘۔ حضرت سلمانؓ متعدد آریائی اور سامی زبانیں بول سکتے تھے۔ فارسی و عربی پر بہت دسترس رکھتے تھے، عبرانی سے بھی بخوبی واقف تھے۔ سریانی زبان شام سے سیکھی تھی۔آنحضورﷺ کی زندگی میں کئی بار ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔
جب مسلمانوں نے حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مدائن پر چڑھائی کی تو دریائے دجلہ میں طغیانی تھی اور کشتیاں میسر نہ آسکیں۔ حضرت سلمانؓ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا کہ ’’اسلام ہر دم نَو بہ نَو اور تروتازہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے سمندر بھی اسی طرح مسخر کردیئے گئے ہیں جس طرح خشکی۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں سلمان کی جان ہے کہ مسلمان اس دریا سے صحیح سلامت اسی طرح فوج در فوج نکلیں گے جیسے وہ فوج در فوج اس میں داخل ہوئے تھے‘‘۔ یہ کلمات حرف بہ حرف پورے ہوئے اور نہ کوئی شخص ڈوبنے پایا نہ کوئی چیز گُم ہوئی۔ ایرانی اس واقعہ پر غیرمعمولی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ انسانوں سے نہیں جنوں سے ہے۔
حضرت سلمانؓ مدائن کے گورنر بھی رہے لیکن مخلوق کی ہمدردی ہمیشہ پیش نظر رکھی۔ کبھی اپنے ملازم کو زیادہ کام کیلئے مجبور نہیں کیا۔ ان کا دسترخوان وسیع تھا۔ محنت مزدوری سے کوئی خاص آمدنی ہوجاتی تو بطور خاص معذوروں کی دعوت کرتے۔ اپنے ناداری کے دَور سے خوشحالی کے دَور تک غذا اور لباس میں ہمیشہ سادہ اور بے نفس رہے۔ گورنری کے زمانہ میں اتنا سادہ لباس پہنتے کہ ناواقف لوگ بعض دفعہ مزدور سمجھ کر بوجھ اٹھوا دیتے۔ آپؓ نے ساری عمر گھر نہیں بنایا۔ ایک بار کسی نے اصرار سے آپؓ کے لئے گھر بنانے کی اجازت چاہی۔ جب آپؓ راضی نہ ہوئے تو اُس نے کہا کہ آپؓ کی مرضی کے مطابق بناؤں گا یعنی اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے جا لگے اور لیٹیں تو پیر دیوار سے ٹکرائیں۔ فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔
آپؓ کے بستر میں معمولی سا بچھونا اور دو اینٹیں تھیں جو تکیہ کا کام دیتیں۔ اس پر روتے تھے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کا سازو سامان ایک مسافر سے زیادہ نہ ہو اور میرے پاس اس سے زیادہ مال ہے۔ آپؓ کا وظیفہ پانچ ہزار تھا جو آپؓ خیرات کردیتے تھے اور خود چٹائیاں بُن کر گزارا کرتے تھے۔ گورنر بننے کے بعد بھی اُس وقت تک یہ کام کرتے رہے جب تک حضرت عمرؓ نے روک نہیں دیا۔ آپؓ چمڑا رنگنے کا کام بھی کرتے رہے اور کاشتکاری بھی کی۔
حضرت سلمانؓ اسّی سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ محققین کے مطابق آپؓ کا مزار مبارک مدائن میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں