حضرت سُمیّہ رضی اللہ عنہا

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت سُمیّہؓ بنت خباط کے مختصر حالات اور قربانیوں کا بیان مکرمہ نرگس ظفر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت سُمیّہؓ بنت خباط مکّہ کے قبیلہ بنومخزوم کے رئیس ابوحذیفہ بن المغیرہ کی کنیز تھیں ۔ آپؓ کی شادی حضرت یاسرؓ بن عامر سے ہوئی جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پانچ سال قبل یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے ایک گمشدہ بھائی کی تلاش میں مکّہ آئے تھے لیکن بھائی نہ ملا۔ بعدازاں یاسر کے دونوں بھائی واپس چلے گئے اور یاسر نے یہیں قیام کرلیا۔ یہاں اُن کی دوستی ابوحذیفہ سے ہوگئی جنہوں نے اپنی کنیز سُمیّہ کی شادی یاسر سے کردی۔ اس طرح ان کے ہاں تین بیٹے عمّار، عبداللہ اور حریث پیدا ہوئے۔ حریث کو قبل از اسلام ہی قتل کردیا گیا جبکہ دیگر دو بیٹوں نے اپنے والدین کے ہمراہ اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔ ایک روایت کے مطابق عمّار کی پیدائش ہوئی تو ابوحذیفہ نے سُمیّہ کو آزاد کردیا۔
حضرت سُمیّہ ساتویں نمبر پر مسلمان ہوئیں ۔ حضرت یاسرؓ اور حضرت سُمیّہؓ دونوں ہی ضعیف اور کمزور تھے مگر اسلام پر مضبوطی سے قائم تھے کہ مشرکین کا کوئی ظلم بھی اُن کو اسلام سے برگشتہ نہ کرسکا۔ یہی حال ان کے بیٹوں حضرت عمّارؓ اور حضرت عبداللہؓ کا تھا جنہیں لوہے کی زرہیں پہناکر مکّہ کی تپتی ریت پر لٹانا، ان کی پیٹھ پر گرم کوئلے رکھنا اور پانی میں غوطے دینا کفّار کا روزانہ کا معمول تھا۔
ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سُمیّہ اور ان کے خاندان کے پاس سے گزرے جن کو سخت اذیّتیں دی جارہی تھیں تو آپؐ نے فرمایا: اے آلِ یاسر! تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارا ٹھکانا جنت ہوگا…۔
بوڑھے یاسرؓ یہ ظلم سہتے سہتے شہید ہوگئے لیکن مشرکین نے اُن کے بیوی بچوں پر ظلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک روایت ہے کہ حضرت یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت سُمیّہؓ نے ایک رومی غلام ازرق سے نکاح کرلیا تھا جو حارث بن کلدہ ثقفی کا غلام تھا۔ اُس سے ایک بچہ سلمہ پیدا ہوا۔
ایک دن ابوجہل کو حضرت سُمیّہؓ پر اتنا غصّہ آیا کہ پہلے انہیں گالیاں دیں پھر برچھی کا وار کرکے شہید کردیا۔ پھر تیر مار کر ان کے بیٹے عبداللہؓ کو بھی شہید کردیا۔ ایک روایت ہے کہ ابوجہل نے نیزے کی اَنی حضرت سُمیّہ کی شرمگاہ میں چبھودی تھی جس سے وہ شہید ہوگئیں ۔ وہ شہید ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں ۔
حضرت عمّارؓ کو اپنی والدہ کی اس بے کسی پر سخت افسوس تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ اب حد ہوگئی ہے۔ آپؐ نے صبر کی تاکید فرمائی اور آلِ یاسرؓ کو جہنّم سے بچانے کی دعا کی۔ غزوۂ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا تو آپؐ نے عمّارؓ سے فرمایا: دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کردیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں