حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ ماجدہ کی سیرت کے بارہ میں جو مضمون رقم فرمایا تھا اس کا ایک اقتباس ’’خدمت خلق‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اکتوبر 1996ء کی زینت ہے۔
حضور ایدہ اللہ نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں جن سے حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کی بے کسوں ، یتیموں ، مساکین اور مظلوموں سے گہری ہمدردی کا اظہار ہوتا ہے۔ وفات سے ایک سال پہلے ڈلہوزی میں قیام کے دوران بیماری کے باوجود رمضان میں آپؓ اپنے ہاتھ سے حضرت مصلح موعودؓ کے تمام عملہ کی سحری کے لئے پراٹھے پکایا کرتی تھیں۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ خرچ کی تنگی کے باعث باورچی نے مہیا کئے جانے والے گھی میں مطلوبہ پراٹھے پکانے سے انکار کردیا تھا۔ آپؓ نے تکلیف کے باوجود خود پراٹھے پکانے شروع کئے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ اسی گھی میں سارے عملہ کی ضرورت پوری ہوتی رہی۔
آپؓ کو بھینس رکھنے کا بہت شوق تھا اور صبح کے وقت بڑی کثرت سے لوگ چھاچھ لینے آیا کرتے تھے۔ غریب اور معذور لوگوں کی چھاچھ میں مکھن بھی ڈال دیا کرتی تھیں جس کا اظہار آپؓ کی وفات کے بعد کئی لوگوں نے کیا۔
حضور ایدہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ غرباء کی امداد کیلئے اپنے گھر میں بہت تنگی اٹھاتی تھیں اور اکثر کھانا اتنا سادہ ہوتا تھا کہ کھانا کھاتے ہوئے اگر کوئی ملنے والا آجاتا تو بچپن کی نادانی کی وجہ سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ اسی طرح کپڑوں کی کمی بعض وقت سخت شرمندگی کا باعث بنتی تھی۔ کئی بار سکول سے اسی لئے غیر حاضر ہونا پڑتا تھا کہ مناسب کپڑے مہیا نہیں تھے۔
حضرت سیدہؓ نے کئی غریب لڑکیوں کی شادی کروائی۔ یتیموں کی پرورش کی امداد کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا۔ اگر اپنے پاس کچھ نہ ہوتا تو متموّل دوستوں کو توجہ دلا کر امداد کی صورت نکال لیتی تھیں اور کبھی قرض اٹھا کر بھی دوسروں کی ضروریات پوری کرتیں۔ چنانچہ وفات کے وقت بھی آپؓ کئی ہزار روپے کی مقروض تھیں۔ کسی کو مشکل میں دیکھنا آپؓ کی طبیعت پر بہت شاق گزرتا تھا۔ چنانچہ بارہا ایسے احباب جن سے مصلح موعودؓ ناراض ہو جاتے تھے وہ آپؓ سے التجائیں کرتے کہ معافی دلوادیں۔ اور ان کی سفارش کرنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ آپؓ کو پُرعذاب قربانی دینی پڑتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے دل ہی کچھ ایسا دیا تھا کہ دوسروں کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔
بیماروں کی تیمارداری بڑی ہمّت سے کیا کرتیں۔ کئی بار عزیزوں کی بیماری کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہسپتال میں ہی رہنے کیلئے چلی گئیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی لمبی بیماریوں میں بھی گھر کو عملاً خیر باد کہہ دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں