حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جون 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ عابدہ بشریٰ صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنے اور اپنی والدہ کے مشاہدات کے حوالے سے حضرت سیّدہ چھوٹی آپا صاحبہ کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری نانی محترمہ صوبہ بی بی صاحبہ کی وفات کے بعد میرے نانا جان محترم مولوی جمال دین صاحب مرحوم (آف اوکاڑہ) میری کمسن والدہ مکرمہ رشیدہ بشیر صاحبہ کو حضرت سیدہ چھوٹی آپاجان کے پاس چھوڑ گئے۔ چنانچہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓاور حضرت چھوٹی آپاجان نے اس معصوم بِن ماں کی بچی کوانتہائی شفقت اور پیار سے اس طرح اپنایاکہ بچپن سے لے کرجوانی تک آپ اُن کے زیرسایہ رہیں اور 1959ء میں آپ کی شادی کرکے ایک بیٹی کی طرح اپنے گھر سے رخصت کیا۔
میری والدہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت سیّدہ چھوٹی آپا نے شادی کے بعد بھی ہمیشہ ایک مہربان اور ہمدرد دل ماں کی طرح میری ہر خوشی اورغم میں شریک رہیں۔ 1968ء میں چوتھی بیٹی کی پیدائش پر مَیں راولپنڈی میں شدید بیمار ہوگئی۔ اعصاب پربہت زیادہ اثرتھا۔ حضرت سیدہ چھوٹی آپاجان صاحبہ کو علم ہوا تو علاج کی خاطر مجھے اپنے پاس بلوا لیااور دودھ کی باندھ لگوادی، سرمیں بھی روزانہ مالش کرواتیں، کھانے پینے کاخیال رکھتیں اوراپنی بےشمارمصروفیت کے باوجود میرے سر میں دوبار خود بھی مالش کی اوراس دوران بہت فکر سے دعائیں کرتی رہیں۔ ایک رات مَیں اچانک بہت زیادہ ڈرگئی توفرمایا: ’’میری رضائی میں آجاؤ۔ مَیں دعا کرتی ہوں اﷲفضل فرمائے گا۔‘‘ آپ کی محبت، خدمت اور دعاؤں سے اﷲتعالیٰ نے بےانتہا فضل فرمایا اور کامل شفا عطا فرمادی تو مَیں واپس راولپنڈی آگئی۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ ہر عید پر عیدی اور سردیوں گرمیوں میں ہمارے گھرموسمی پھل بھجوانا حضرت سیدہ چھوٹی آپاجان کامعمول تھا۔ ہم بہن بھائیوں کی پڑھائی کے دَورمیں ہماری ضرورتوں کا بھی بہت خیال رکھا اور خصوصاًقرآن مجید پڑھانے کی طرف توجہ دیتیں۔ ہمیشہ ارشادفرماتی تھیں کہ بچیوں کادینی ودنیاوی علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ کی زندگی بھی قرآنِ مجیدکی خدمت میں ہی گزری تھی۔ آپ نے بہت سی لڑکیوں اور عورتوں کو قرآن مجیدباترجمہ پڑھایا۔ میری بڑی باجی محترمہ راشدہ آصف صاحبہ بھی چندسال آپ کے پاس رہیں۔ آپ نے نہ صرف محبت اور لگن سے ان کو قرآن پڑھایا، بلکہ قرآن کریم کی محبت اور روزانہ تلاوت کی عادت پیدا کردی۔ جب باجی راشدہ نے قرآن مجید کا پہلا دَور مکمل کیا تو آپ نے باجی کی آمین کروائی اورگوٹے والا لہنگا بھی بنا کردیا۔
مَیں اپنے والدین کی تیسری بیٹی تھی۔ فطری بات تھی کہ دو بیٹیوں کے بعدامی جان کوبیٹے کی خواہش تھی۔ حضرت چھوٹی آپاجان کوجب میری پیدائش کاعلم ہواتو اسی روز فضل عمر ہسپتال ربوہ تشریف لائیں اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔پھر امی جان کے رونے پرآپ نے فرمایاکہ’’ناشکری نہیں کرنی، اﷲتعالیٰ کی رحمت ہے کہ صحت مند اولاد ہے۔‘‘ پھر آپ نے مجھے گھٹی دی اور مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب نے میرے کان میں اذان دی۔
جب مَیں پانچویں کلاس کی طالبہ تھی تو اپنے محلّہ دارالیمن کے مڈل سکول میں پڑھتی تھی۔ آپ نے میری والدہ کو مشورہ دیاکہ اسے نصرت گرلزہائی سکول میں داخل کرواؤ تاکہ یہ سائنس کے مضامین میں پڑھائی کرسکے۔ پھر خودنصرت گرلزسکول کی ہیڈمسٹریس صاحبہ کو خط لکھا کہ اس بچی کو داخلہ دے دیں یہ بچی ہوشیار ہے حساب جلدی کور کرے گی۔جب میراداخلہ وہاں ہو گیاتومجھے ارشاد فرمایاکہ سکول کے بعدمیرے پاس آجایا کرومَیں تمہیں الجبرا اورحساب پڑھادوں گی۔ چنانچہ گرمیوں میںجب مَیں سکول کے بعد ایک ڈیڑھ بجے آپ کے گھرپہنچتی توآپ خالہ فاطمہ مرحومہ سے کہتیں کہ اسے ا سکوائش بنا دو۔ پھر کھانا کھانے کے بعد آپ کبھی برآمدے میں اور کبھی اپنے کمرے میں مجھے پڑھاتیں۔ اﷲتعالیٰ کے فضل سے میرے حساب میں جب اچھے نمبر آئے تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور انعام سے بھی نوازا۔
1989ء میں والدہ صاحبہ کے جرمنی آنے کے بعد بھی حضرت سیّدہ کا خطوط کے ذریعے ان کے ساتھ رابطہ رہا۔ 1991ء میں والدہ صاحبہ کے گردے اچانک فیل ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے امیددلائی کہ آپریشن کرتے ہیں اگر تو گردے چل پڑے توٹھیک ورنہ Dialysis شروع کر دیں گے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ کی خدمت میں خطوط لکھے گئے۔ حضرت سیّدہ نے اپنے جوابی خط میں بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی تحریر فرمایا: ’’تمہاری بیماری کا علم ہوکر بہت پریشان رہی دعا کرتی رہی۔ جس دن آپریشن کا علم ہوا۔میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں وہاں پہنچ جائوں اتنی گھبراہٹ رہی جیسے اپنے بچے کی ہوتی ہے۔ رات کو جس وقت آنکھ کھلتی تمہاری صحت کے لیے دعا کرنے لگ جاتی۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس نے فضل کیا۔ اللہ تعالیٰ مکمل صحت عطا فرمائے۔ مَیں بھی پچھلے دنوں بیمار رہی۔ بلڈپریشر گر گیا تھا بڑی کمزوری محسوس کرتی تھی۔ ایک رات غسل خانے جانے کے لیے اٹھی تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا اور بےہوش ہوکر گرپڑی۔ اگلے دن سارے ٹیسٹ ڈاکٹر لطیف قریشی نے کروائے۔ ای سی جی ہوا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحیح نکلا ہے معلوم نہیں بلڈپریشر کیوں گر گیا تھا۔ میری صحت کے لیے بھی دعا کیا کرو۔ اب ڈاکٹروں کی ہدایت پر غذا وغیرہ لینا۔ اور خیال رکھنا۔ بچوں کو سلام دعا پیار۔…‘‘
اﷲتعالیٰ کے فضل سے محترمہ والدہ صاحبہ کوآپریشن کے بعدکامل شفا ہوئی اور1991ء سے لے کر اپنی وفات 2010ء تک گردے بالکل ٹھیک کام کرتے رہے۔الحمدللہ
حضرت سیدہ آپا جان صاحبہ کے خطوط پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ آپ کیسے ہمارے والدین اور ہم ساتوں بہن بھائیوں کی ایک مہربان ماںکی طرح فکرکرتی تھیںاوردعائیںکرتی تھیں۔ ہم بہن بھائیوں کی شادی کے موقع پر دعا اور استخارہ بھی کرتیں۔ میری والدہ صاحبہ کوتسلی اور مشورہ دیتیں کہ دین سب سے پہلے دیکھنا اور پھرخود بھی تحقیق کرواتیں۔ میری شادی کے موقع پر بھی میری والدہ صاحبہ کوتسلی دی کہ مَیں نے دعا کی ہے، رفیعہ بیگم (میری ساس صاحبہ) بہت فدائی احمدی اورسلسلہ کی خدمت گزار ہیں۔
میری شادی سے ایک ہفتہ قبل میرے ماموںکی وفات ہوگئی۔ بھائی کی وفات میری والدہ صاحبہ کے لیے تو بہت بڑاصدمہ تھا اور حضرت سیدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ کو اس بات کا احساس تھا۔ آپ افسوس کے لیے تشریف لائیں اوروالدہ صاحبہ کے پوچھنے پرکہ شادی چند روز آگے کردیتی ہوں، آپ نے فرمایا: ’’گھبرانانہیں شادی اپنے وقت پر کرو کیونکہ رخصتی کے دن مقررکردیے ہیں۔ تین دن افسوس کے گزر گئے ہیں بیوی کو اﷲ تعالیٰ کاحکم ہے کہ وہ چارماہ دس دن تک اور باقی لوگ تین دن تک سوگ منائیں۔ا س لیے اس فرض کوبھی اﷲتعالیٰ کاحکم سمجھ کرخوشی خوشی اداکرو۔‘‘
پھر شادی سے ایک شام قبل تشریف لائیں اور گھر کا افسردہ ماحول دیکھ کربچیوں سے فرمایا: ’’آؤ بیٹھو، گانا گاؤ اور خوشی کااظہارکرو۔ بچی کودعاؤں اور خوشیوں کے ساتھ رخصت کرواورسب مہندی بھی لگاؤ۔‘‘ پھر رخصتی کے وقت بھی کئی خواتین مبارکہ کے ہمراہ تشریف لائیں اور دعاؤں کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔
حضرت سیدہ چھوٹی آپا جان کے ساتھ میری آخری ملاقات اگست 1989ء میں سویڈن مشن ہاؤس میں ہوئی۔ مجھے ان کی شفقت اور محبت کالمس آج بھی یادہے۔ آپ میرا بےانتہا احساس کررہی تھیں اوراس بات پر خوش بھی تھیں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے شادی کے پانچ سال بعدامید لگائی ہے۔ پھرجب آپ کو میرے وقفِ نوبیٹے عزیزم فہد محمود کے پیدا ہونے کی اطلاع ملی تو بہت محبت بھرا خط لکھا اور بےشمار دعاؤں اور نصا ئح سے نوازا کہ ’’بچوں کے کانوں میں ہر روز اچھی بات ضرور ڈالنا اور حوصلے اور دعا کے ساتھ تربیت کرنا تاکہ یہ اپنے وقف کو بہترین طور پر نبھانے والے ہوں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں