حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 27؍جنوری2025ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالمجید احمد لطیف صاحبہ کا ایک مضمون (ترجمہ:مکرمہ شگفتہ احمد صاحبہ) شامل اشاعت ہے جو یورپ کی تاریخ احمدیت کی ایک انمول جھلکی بھی پیش کررہا ہے۔

محترم عبداللطیف صاحب

مکرمہ امۃالمجید احمد لطیف صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں جرمنی کے پہلے امیر و مبلغ انچارج محترم عبداللطیف صاحب (1915ء تا 1997ء) کی سب سے بڑی بیٹی ہوں۔ ساٹھ کی دہائی میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مَیں ترجمانی میں مدد دینے کے لیے اپنے والد صاحب کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ چلی گئی جہاں زیورچ میں پہلی احمدیہ مسجد محمود کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب ہونے والی تھی اور حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے یہ سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھنا تھا۔ اخباری نمائندے مدعو تھے اور مَیں نے ان کے لیے ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے تھے۔

مسجد محمود زیورک

سنگ بنیاد 25؍ اگست1962ء کو حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوئٹزرلینڈ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔

صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب
مرزا غلام قادر شہید

حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ اپنی بیٹیوں بی بی فوزیہ اور بی بی قدسیہ کے ساتھ یورپ آئی تھیں۔ ان کے داماد مکرم مرزا مجید احمد صاحب (بی بی قدسیہ کے شوہر) بھی ہمراہ آئے تھے جبکہ بی بی قدسیہ کے بیٹے (عزیزم مرزا غلام قادر شہید) بھی ساتھ تھے۔
مَیں زیورچ میں مکرم امام مشتاق احمد باجوہ صاحب اور ان کی بیگم کلثوم صاحبہ کے پاس ٹھہری تھی۔ مَیں حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ اور پریس کے نمائندگان اور جماعت کے لوگوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی رہی۔ زیورچ شہر کے لیے بھی یہ ایک بہت اہم موقع تھا کیونکہ یہ سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد تھی۔
حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ Blütenstraße میں اسی فلیٹ میں ٹھہری ہوئی تھیں جس میں ہم رہتے تھے۔ ہم اکٹھے کھانا کھاتے تھے اور اکٹھے سیر کے لیے بھی جاتے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ آپؓ کیسے پردہ کیا کرتی تھیں، لمبا سیاہ کوٹ پہنتیں جو پاؤں تک تھا اورسیاہ نقاب لیتیں۔
سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں آپؓ کو اینٹ پکڑانے کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔ اس اہم تقریب میں میڈیا اور آپؓ کے درمیان ترجمانی کا فریضہ بھی ادا کرنے کی توفیق ملی۔ گھر پر بھی آپؓ کا انٹرویو لینے کے لیے خاتون رپورٹر آئیں ۔ آج بھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپؓ نے کتنی فہم و فراست کے ساتھ رپورٹرز کے سوالات کے جواب دیے، حالانکہ آپ نے کسی یونیورسٹی میں کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔
آپؓ بہت ہی مخلص اور بےتکلّف خاتون تھیں اور محبت کرنے کے لائق تھیں۔ چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے مجھے اس بات کا احساس نہ تھا کہ مجھے کتنی بڑی شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ آج مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی سے ملنے کا اعزاز ملا۔

مسجد فضل عمر ہمبرگ جرمنی

زیورچ میں سنگ بنیاد کی تقریب سے پہلے آپؓ ہمبرگ بھی آئی تھیں اور ہمارے ساتھ مسجد فضل عمر میں قیام فرمارہی تھیں۔ اس دوران میری نانی جان پاکستان میں فوت ہوگئیں اور میری امی کو گہرا صدمہ پہنچا تو اس وقت آپؓ کی صاحبزادیوں نے ہمارے لیے کھانا پکایا اور امی کی مدد کی۔ پاکستان واپس جا کر بی بی فوزیہ نے رسالہ مصباح میں لکھا کہ اس واقعہ کے بعد اُنہیں پہلی بار جماعت کے مربیان اور ان کے خاندانوں کی قربانیوں کا احساس ہوا جنہیں دین کی خاطر بیرون ملک رہنا پڑتا ہے۔
حضرت سیّدہؓ نے ہر جگہ میری تعریف کی۔ یہ آپؓ کی ایک خوبی تھی کہ ہر ایک کی قدر کرتیں اور اسے یاد بھی رکھتیں۔ جب میرے والد صاحب نے میری اسکول کی رپورٹ آپؓ کو دکھائی تو آپؓ نے لکھائی کی تعریف کی اور اپنی بیٹی سے فرمایا: دیکھو! تمہیں بھی بالکل اسی طرح لکھنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں