حضرت سید امیر صاحب المعروف حضرت جی صاحب کوٹھ شریف

تیرھویں صدی ہجری میں مغلیہ حکومت کا چراغ ڈگمگا رہا تھا۔ پنجاب اور سرحد پر سکھوں کی حکومت تھی۔ ایسے میں حضرت سید احمد بریلویؒ نے صوبہ سرحد سے دین کو پھیلانے کی ابتداء کی تو حضرت جی صاحب کو قاضی القضاۃ مقرر فرمایا۔ حضرت سید امیر صاحب المعروف حضرت جی صاحب کوٹھ شریف کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍ جولائی 2009ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت سید امیر صاحب کی ولادت حضرت محمد سعید باباجی صاحب کے دینی گھرانہ میں 1210 ہجری میں موقع کوٹھہ ضلع مردان میں ہوئی ۔ پیدائش پر والدہ وفات پاگئیں۔ آپ کی بڑی سات بہنیں تھیں جنہوں نے آپ کی پرورش کی۔ آپ کے دادا حضرت یار محمد باباجی صاحب نے علاقہ گدون کے میراگی گاؤں سے منتقل ہوکر کوٹھہ گاؤں میں رہائش اختیار کی۔
حضرت جی نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر دینی وروحانی ماحول میں پائی۔ والد اور چچا دونوں جلیل القدر عالم اور معروف فقیہ تھے ۔ بعد میں پشاور کے نامورعلماء سے زانوے تلمّذ تہ کیا۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد علم فقہ کی تحصیل کی۔ اس کے بعد صرف نحو، منطق، علم بلاغت و فصاحت ،علم بیان بدائع غرضیکہ 28سال کی عمر میں کمال حاصل کرلیا۔ دوران تعلیم ریاضتیں اور مجاہدے بھی کئے اور اس محنت کے طفیل آپ کو صفائے باطن اور علم لدنی عطا ہوا۔
حضرت جی صاحب کوٹھہ بے حد ذہین بہت عبادت گزار اور صادق القول تھے۔ تصوف واسرار کے حقائق اور رموز کے مطالعہ و مشاہدہ میں گہرائی اور وسعت نصیب تھی۔ آپ ہر وقت عشق الٰہی میں مستغرق رہتے۔ ذات الٰہی کی معرفت سے متعلق خود فرماتے ہیں کہ : ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنے عظیم فضل وکرم سے مجھے دوسرے اولیاء کی تقلید کے بغیر اپنی معرفت حاصل کرائی میں اس معرفت کے بارے میں کسی کا بھی مقلد نہیں اور اس معرفت کے احوال بیان نہیں کرسکتا‘‘۔ (درّاسرار)
حضرت جی صاحب ایک ولی کے مقام پرفائز تھے ۔ صاحب رؤیا وکشوف و الہام تھے۔ آپ نے آئندہ حالات کے بارہ میں اﷲ تعالیٰ سے اطلاع پاکر جس طرح خبردی وہ واقعات ویسے ہی ظہور میں آئے۔
جب حضرت جی صاحب کے وصال کا وقت آیا تو فرمایا : ’’گفتہ بندہ گفت خدا‘‘ میرے بعد کا مجتہد پیدا ہوچکا ہے اور اب ہم کسی اور کے زمانہ میں ہیں ۔
روایت ہے کہ ہر زمانہ کا مجدد جب دار فنا سے دارِبقا کو رحلت فرماتا ہے تو آئندہ پیدا ہونے والے مجدد کے متعلق اس کو بذریعہ الہا م اطلاع ملتی ہے۔ لہٰذا حضرت جی صاحب نے 1294ھ میں اطلاع دی تھی کہ دوسرا مجدّد پیدا ہوگیا ہے لیکن اس کے وجود میں کچھ عرصہ باقی رہتا ہے ۔
حضرت جی صاحب کے خلیفہ حافظ نور محمد نقشید بیان کرتے ہیں کہ حضرت جی صاحب ایک دن وضو کررہے تھے ۔اور میں روبروبیٹھا تھا ۔فرمانے لگے کہ ’’ہم اب کسی اور کے زمانہ میں ہیں‘‘۔ میں اس بات کو نہ سمجھا اور عرض کیا کہ کیوں حضرت اس قدر معمر ہوگئے ہیں کہ اب آپ کا زمانہ چلا گیا۔ ابھی آپ کے ہم عمر لوگ بہت تندرست ہیں اپنے دنیوی کام کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تُو میری بات کو نہ سمجھا۔ میرا مطلب تو کچھ اور ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ جوخدا کی طرف سے ایک بندہ تجدید دین کے لئے مبعوث ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہوگیا ہے ہماری باری چلی گئی ۔میں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم کسی اور کے زمانہ میں ہیں۔ میں نے پوچھا کہ نام کیا ہے ؟ فرمایا: نام نہیں بتاؤں گا مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے ۔
آپ کے خاص خلیفہ مولانا حمید اﷲ حمید سوات بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ہمارے مرشد حضرت صاحب کوٹھہ والے فرمانے لگے کہ : ’’مہدی پیدا ہوگیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا ‘‘۔ اس بات کو سن کر مولوی محمد یحییٰ اخونزادہ اس بات پر مصر ہوئے کہ اس بیان کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر تحریر کریں پس میں بحکم آیت تکتموا الشہادۃ … خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب کوٹھہ ایک دو سال اپنی وفات سے پہلے یعنی 1292ھ یا 1293ھ میں چند خواص میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اور ہر ایک باب سے مصارف اور اسرار میں گفتگو شروع تھی۔ ناگاہ مہدی (مجدد) کا تذکرہ درمیان میں آگیا۔ فرمانے لگے کہ مہدی پیدا ہوگیا ہے۔ ان کے منہ سے یہ الفاظ افغانی زبان میں نکلے تھے: ’’چہ مہدی پیدا شوے دے اور وقت ظہور نہ دے ‘‘ یعنی مہدی پیدا ہوگیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ بعد اس کے حضر ت موصوف نے ذی الحجہ 1294ھ میں وفات پائی ‘‘۔ (سوانح حیات سلطان اولیاء حضرت سیدامیر صاحب از الحاج صاحبزادہ محمد اشرف)
مکرم الحاج صاحبزادہ محمد اشرف صاحب نے مذکورہ کتاب کے صفحہ 289 کے حاشیہ میں درج کیا ہے: مرزا غلام احمد قادیانی نے اس قول کو اپنی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ صرف مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ نے چودھویں صدی کے مجدد اور امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
(کتاب تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 144)
حضرت صاحب کوٹھہ کی اس پیشگوئی کی وجہ سے صوبہ سرحد کے بڑے بڑے خاندانوںنے ابتداء میں احمدیت قبول کی اور حضرت صاحب کی یہ پیشگوئی صوبہ سر حد میں اشاعت احمدیت کا باعث ہوئی ۔
حضرت جی صاحب کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کا کوئی فعل اور کام قرآن وسنت کے خلاف نہیں تھا۔ بغیر ضرورت کے بات نہیں کرتے تھے۔ اپنے کلام کو خدا کے نام سے شروع کرتے اور خدا کے مبارک نام سے ختم کرتے۔چلنے میں بڑائی اور شان بے نیازی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔ کسی سے آگے چلنے کی کوشش نہ کرتے۔ اگر لوگ محبت سے آگے چلنے لگتے تو برا نہ مناتے۔ مسجد میں داخل ہوکر تحیۃ المسجد کے دو نفل ضرور ادا کرتے۔ مسجد میں دنیاوی باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ ریشمی اور نرم ونازک فرش پر نہ سوتے تھے تاکہ جسم اس نرمی اور آرام سے لذّت گیر ہوکر عادی نہ ہوجائے ۔ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے ان کی خاطر تواضع کرتے ۔متمول لوگوں اور حاکموں کی خوب مہمان نوازی کرکے نرم خوئی سے وعظ ونصیحت کرتے خود اٹھ کر ان کے ساتھ چند قدم چل کر رخصت کرتے درویشوں کی دلجوئی کرتے ان کو کچھ بطور امداد بخشتے بچوں کی دلداری کرتے کوئی میٹھی چیز دیتے اگر کچھ نہ ہوتا تو دعائیں دیتے اور پیارو محبت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ۔ انتہائی حلیم تھے۔ خدا کی مخلوق کے لئے وہ چیز پسند فرماتے جو خود اپنے نفس کے لئے پسند کرتے۔ جو کوئی سختی کرتا اس کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتے ۔
حضرت جی حق تعالیٰ کی عبادت بروقت اورہر لمحہ کرتے تھے۔ ہر صبح وشام دن رات خلوت اور جلوت میں عبادت کرتے رہتے۔ فرض نماز باجماعت پڑھتے۔ معانی قرآن میں تفکر سے کام لیتے ۔اﷲ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرتے۔ عشاء کی نماز کے بعد قرآن کریم پڑھا کرتے۔ ماہ رمضان میں تراویح اور نوافل پڑھتے ہوئے تمام یا اکثر شب بیداری کرتے۔ آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے۔
آپ کو سازش کے تحت وہابی مشہور کیا گیا۔ انگریز حکومت وہابیوں کے خلاف تھی چنانچہ آپ کو بھی 26شوال 1277ھ میں گرفتار کرلیا گیا اور بعد تحقیق تین مہینے اور تیرہ دن کے بعد رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد آپؒ نے تبلیغ اور تعلیم وتربیت کے کاموں کو تیزتر کردیا۔ بعض سفر بھی کئے۔ اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہ کر آخر 30؍ذی الحجہ 1294ھ بروز جمعہ وفات پائی۔ حاجی ابی ذرنے نماز جنازہ پڑھائی اور موجودہ مزار کی جگہ تدفین عمل میں آئی۔
حضرت جی صاحب نے مختلف اوقات میں پانچ شادیاں کیں۔ آپ کی تین بیٹیاں اور سات بیٹے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں