حضرت سید میر داؤد احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20ستمبر2010ء میں مکرم صوبیدار عبدالمنان دہلوی صاحب (سابق افسر حفاظت خاص) کے قلم سے حضرت سید میر داؤد احمد صاحب کی سیرت پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

مکرم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم (پرنسپل جامعۃالمبشرین) نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ آپ انسانی ہمدردی، خدمت خلق اور محبت وشفقت کا ایک حسین و جمیل پیکر تھے کہ ہر شخص آپ کا گرویدہ نظر آتا تھا۔ مجھے آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ سلسلہ کے فدائی، خلافت کے عاشق اور اسوۂ رسولؐ کے پابند، نڈر مجاہد، غریب پرور، محنتی، اعلیٰ درجہ کے منتظم، منکسرالمزاج اور بے نفس انسان ہونے کے علاوہ اَور بھی خوبیوں کے مالک تھے۔ مَیں ہر چند دیکھتا تھا کہ یہ مرد مجاہد انتھک محنت کرتا ہے جس نے سلسلے کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔اس کے باوجود ہر لمحہ ہشاش بشاش اور خوش و خرم نظر آتا ہے۔ کبھی بھی مَیں نے آپ کی پیشانی پر شکن نہ دیکھی۔ آپ کا طرز تکلم بھی ایسا تھا کہ دوسرے کی پاسداری کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ میرے پاس گرم کوٹ نہیں تھا اور صبرو شکر کرتے ہوئے ٹھنڈے کوٹ پر ہی قناعت کرتا رہا۔ ایک سال جبکہ ابھی سردیوں کی آمد آمد تھی۔ رات کی تاریکی میں ایک بچہ ایک نہایت بہترین قسم کا جیکٹ غریب خانہ پر دے کر چلا گیا جس کی جیب میں ایک سربند لفافہ میں بند چِٹ پر لکھا تھا کہ بالکل نیا ہے، کسی نے ایک مرتبہ نہیں پہنا اگر پسند فرمائیں تو پہن کر شکریہ کا موقع دے دیں ۔ والسلام۔ سید داؤد احمد
اسی طرح جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن میں ایک تکلیف پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے حضور کبھی کبھی مخمل کا سیاہ بوٹ پہنا کرتے تھے۔ حضورؓ نخلہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک دن مکرم میر صاحب ہاتھ میں وہ بوٹ پکڑے میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یہ بوٹ حضور کا ہے، بالکل نیا ہے حضور کے لئے آیا ہے اگر پسند کریں تو آپ رکھ لیں۔
حضرت مصلح موعودؓکی بیماری کے ایام میں سیر کے لئے جاتے ہوئے حضور کو کار میں بیٹھتے اترتے وقت حضرت میر صاحب اور محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب سہارا دیتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب کی غیرموجودگی میں یہ سعادت خاکسار کو عطا ہوتی۔ غرضیکہ حضور کو آرام پہنچانے اور سیر کی باقاعدگی کو برقرار رکھنے کا بہت ہی عمدگی سے اہتمام فرماتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ نہایت لطیف گفتگو کرکے حضورؓ کو خوش رکھنا بھی آپ ہی کا خاصہ تھا اس طرح حضور کی طبیعت میں بشاشت پیدا ہو جاتی۔
حضرت میر صاحب جتنا عرصہ بھی افسر جلسہ سالانہ رہے دن اور رات میں بار بار خود آکر مہمانوں کی آمد، کھانے کی تیاری، تقسیم خوراک اور ہر قسم کی اونچ نیچ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو باخبر رکھتے، روزانہ رات کو حضور کی خدمت میں تحریری رپورٹ بھی باقاعدگی سے بھیجتے۔
ایک بار گرمیوں میں قصر خلافت کی چھتوں کے ٹپکنے کی شکایت پیدا ہوئی تو محترم میر صاحب نے جامعہ کے طلباء کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ وقارعمل کے ذریعہ چھتوں کی مٹی اُتار کر مرمّت کروائی۔ شدّت کی گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں مسلسل کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران مکرم میر صاحب بھی اپنی قمیص اتار کر صرف بنیان پہن کر مٹی اکھیڑنے اور چیزیں پکڑانے میں ان طلباء کے دوش بدوش مصروف کار رہے۔ سب گرد و غبار سے اَٹے پڑے ہوتے اور پسینہ سے شرابور مگر ایک لمحے کے لئے بھی کسی قسم کی خجالت محسوس نہیں کرتے بلکہ چہرہ پر تبسم، بشاشت، شگفتگی کے آثار شروع سے آخر تک نمایاں رہے اور اس خدمت کے دوران ٹھنڈے پانی، چائے، آرام دہ وقفوں اور ان کے کھانے پینے غرضیکہ ہر بات کا خیال رکھتے رہے۔ اگر کسی کو طبی امداد کی ضرورت پیش آ جاتی تو اسے بھی کسی صورت نظر انداز نہ ہونے دیتے۔
ایام جلسہ سالانہ کی ابتدا سے لے کر مہمانوں کی واپسی تک آپ رپورٹس لے کر بارہا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آتے۔ دفتر کے بند ہونے پر اس عاجز کے ذریعہ رپورٹ بھجوا دیتے۔ اکثر مَیں آپ کو رات میں کئی کئی بار قصر خلافت سے گزر کر دیگر جگہوں پر جاتے دیکھتا اور سوچتا کہ آپ سوتے کس وقت ہوں گے۔ ایک بار آپ سے کھانا کھانے کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ چائے جتنی دفعہ پلاؤ کھڑے کھڑے پی لیتا ہوں، کھانا کھانے کا تو مجھے فکر نہیں ہوتا البتہ کھلانے میں شیر ہوتا ہوں۔
اگرچہ آپ خود دن رات خدمت میں مصروف نظر آتے لیکن دلداری کی خاطر اکثر مجھ سے پوچھتے کہ صوبیدار صاحب آپ کب سوتے ہیں؟ خاکسار عرض کرتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہاں جاگنے کے لئے لایا ہے تو پھر کتنی ناشکری ہو گی کہ میں اس سنہری موقع کو سو کر گزار دوں۔ نہ میں خود سوتا ہوں اور نہ ہی میرے ساتھی۔
ایک دفعہ محترم کیپٹن محمد رمضان صاحب نے مکرم میر صاحب سے پوچھا کہ آپ چیئرمین کمیٹی ربوہ کے عہدہ سے کیوں دستبردار ہوئے؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ مَیں واقف زندگی ہوں اس لئے مجھے یہ دنیاوی عہدہ پسند نہیں ہے۔
1965ء کی جنگ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کے گھر سے اوپر والے حضور کے کمرہ میں منتقل ہونا تھا تو اس کمرہ میں ائیرکنڈیشنر لگوایا گیا۔ مکرم میر صاحب نے کاریگروں کے پاس موجود رہ کر جلد سے جلد کام مکمل کروایا اور پھر جب حضورؓ کو اس کمرہ میں لانا تھا تو میر صاحب نے دُور کا چکر دے کر لانا پسند نہیں کیا بلکہ سیڑھی کے قریب سے دیوار تڑوا کر اُس میں دروازہ نصب کروایا اور پھر اس راہ سے حضور اوپر تشریف لائے۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب حضور کے آرام پہنچانے کے لئے ذرا ذرا سی بات کو مدنظر رکھتے تھے بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ بھی اس طرح محبت اور پیار کا سلوک جاری رکھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اپنی بیماری کے ایام میں ایک روز احمد نگر کے باغ میں تشریف لے گئے۔ اس موقعہ پر خان صاحب عبدالمجید خان آف ویرووالی نے دو عدد موٹے موٹے سیو بیر جو کہ سیب کے برابر تھے حضور کی خدمت اقدس میں پیش کئے جن کو مکرم میر صاحب نے فوراً دھو کر چھیلا اور ایک ایک قاش کی شکل میں حضور کی خدمت میں پیش کرتے گئے۔ ساتھ ساتھ میر صاحب ان کی تعریف بھی کرتے جاتے تھے اسی طرح باتوں ہی باتوں میں دونوں بیر حضورؓ کو کھلا کر بہت ہی خوش ہوئے۔ حضورؓ نے بھی لطف لے لے کر یہ بیر تناول فرمائے اور آپؓ بھی بیروں کی شیرینی کی تعریف فرماتے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے سفر یورپ و افریقہ سے کامیاب و کامران مراجعت کی خوشی کے موقعہ پر مکرم میر صاحب نے اہل ربوہ کی طرف سے ایک دعوت طعام کا اہتمام کیا۔ حضور اور تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کرنے کے بعد عاجز سے یوں مخاطب ہوئے: صوبیدار صاحب! کیا ہمیں بھی خدمت کرنے کا موقعہ دیں گے؟ پوچھنے پر فرمایا کہ اپنے تمام عملہ کو حضور کے ہمراہ کھانے میں شریک کرلیں۔ تاکہ جب حضور تشریف لے جائیں تو پھر انہیں بھوکا نہ جانا پڑے۔
دوسری دفعہ حضور کے سفر افریقہ سے واپسی پر جو دعوت طعام دی گئی اس موقعہ پر گجرات سے نہایت نفیس مٹی کے برتن منگوا کر حضور اور تمام مہمانوں کی خدمت میں ان برتنوں میں کھانا پیش کیا گیا۔ جس وقت تمام احباب کھانا تناول فرما چکے تو کئی لوگوں کے آگے رکھے ہوئے برتنوں میں کھانا بچ گیا۔ اس عقد ہ کو محترم میر صاحب نے اس طرح سے حل کیا کہ آپ نے اعلان کر دیا کہ دو ست اپنے اپنے برتن ہمراہ لے جا سکتے ہیں اس طرح پنڈال کی صفائی بھی ہو گئی اور اس کے علاوہ برتن میں جو کھانا بچا رہا ان کے گھر والے بھی اس خوشی میں برابر کے شریک ہو گئے۔ یہ واقعہ آپ کے حسن انتظام کے علاوہ آپ کی غیرمعمولی فراست کی بھی نشاند ہی کرتا ہے۔
حضرت سید میر داؤد احمدصاحب کی تاریخ وفات 25-24 ؍ اپریل 1973ء درمیانی شب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں