حضرت سیّدہ امّاں جانؓ کا اپنی خادمات کے ساتھ حُسنِ سلوک

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12 ؍مارچ 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2013ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت امّاں جانؓ کے اپنی خادمات کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے حضرت امام بی بی صاحبہؓ کی ایک روایت بیان کی گئی ہے جسے حضرت محمود احمد عرفانی صاحبؓ نے اپنی کتاب (سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صا حبہؓ)میں درج کیا ہے۔
حضرت عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار بٹالہ نے قادیان میں وفات پائی تو اُن کی وفات کے بعد اُن کی بیوہ مائی امام بی بی صاحبہؓ حضرت اماں جان ؓکی خدمت میں رہ گئیں۔ اکثر ساتھ سفر و حضر میں رہنے کا موقع بھی ملا۔ وہ حضرت اماں جانؓ کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ
’’حضرت اماں جان کا سلوک اپنی خادمات سے ہمیشہ ایسا رہتا ہے جیسے ایک مہربان ماں کا اپنی اولاد سے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک رہتی ہیں اور کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کبھی ان کو حقیر نہیں سمجھا۔ اپنے عزیزوں کا سا سلوک کرتی ہیں۔
خدا تعالیٰ کا خوف آپ کو ہر وقت رہتا ہے۔ کثرت سے عورتیں آپ کی ملاقات اور زیارت کو آتی رہتی ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو یا چہرے پر شکن آیا ہو بلکہ ہر ایک سے نہایت محبت اور پیار سے باتیں کرتی ہیں اور کبھی اپنی زبان سے نہیں کہتیں کہ چلی جاؤ۔ ہر ایک مہمان کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ گرمی کا موسم ہو تو شربت وغیرہ سے تواضع کرتی ہیں اور کھانا کھلاتی ہیں اور یہ کام خادمات پر نہیں چھوڑتیں بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں۔
اب تو آپ کی صحت اچھی نہیں رہتی ہے۔ تاہم اب تک آپ کا ایسا ہی عمل جاری ہے۔ بیماری کی حالت میں آپ خاموش رہتی ہیں۔ کوئی چڑ چڑا پن وغیرہ جو بیماری کی حالت میں عام طور پر پیدا ہو جاتا ہے بالکل نہیں۔ صبر اور سکون کے ساتھ خاموش رہتی ہیں۔ روزے کی حالت میں بھی آپ کا یہی معمول ہے کہ خاموش رہتی ہیں گویا آ پ روزہ کی تکمیل میں خاموشی بھی ضروری سمجھتی ہیں، خاموشی میں ذکر الٰہی کرتی رہتی ہیں، تنہائی اور خلوت کو پسند کرتی ہیں۔
نوکروں سے جو سلوک آپ کرتی ہیں وہ مَیں نے کسی گھر میں نہیں دیکھا۔ مَیں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کی ہو یا حقارت سے اس کا نام لیا ہو۔ مَیں نے اتنے لمبے عرصے میں کبھی کسی نوکر پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا، کسی سے کچھ نقصان ہو جائے تو ہمیشہ درگزر فرمایا۔ مَیں نے کسی کو جھڑکی دیتے بھی نہیں دیکھا، ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں کی پرورش کی۔ جن کا کوئی سہارا اور آسر ا دنیا میں نہ تھا آ پ کے ہاں ان کو آسرا مل جاتا تھا۔ صدقہ خیرات دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ سلسلہ تو جاری رہتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا اور آپ خود بھی اس کو مخفی رکھتی ہیں۔ میں نے بعض ایسی غریب لڑکیاں دیکھی ہیں جن کو کوئی پاس نہ بیٹھنے دے مگر حضرت اماں جان نے ان کے کپڑوں کی بدبو وغیرہ کا خیال نہ کر کے خود ان کے سروں کو صاف کیا۔
حضرت اماں جان ہر اس چیز کو پسند کرتی ہیں جو حضرت مسیح موعوؑد کو پسند تھی، پھلوں میں آم، کیلا وغیرہ پسند کرتی ہیں۔ مٹھائیوں میں برفی اور مرغ کے سالن کو بھی پسند فرماتی ہیں۔ حضرت اماں جان کا معمول ہے کہ جو عورتیں آپ کے پاس آتی ہیں ان کو مناسب موقع نصائح بھی فرمایا کرتی ہیں اور اصل طریق تربیت کا آپ نے اپنا عمل اور نمونہ رکھا ہے تاہم عام طور پر یہ فرمایا کرتی ہیں: جس کام کے لیے آئی ہو وہ بات کرو اور کوئی اَور بات نہ کرو۔
ہم نے کبھی حضرت اماں جان کو نہیں دیکھا کہ کسی بات پر بھی حضرت صاحب سے ناراض ہوئی ہوں۔ حضرت صاحب کا ادب کرتیں اور آپؑ کو خوش رکھتیں۔ ابتدا میں حضرت صاحب صرف تین روپے جیب خرچ دیا کرتے، آپ نے کبھی نہیں کہا کہ یہ کم ہیں۔ شکرگزاری سے لے لیتیں اور عورتوں کو ہمیشہ نصیحت فرمایا کرتیں کہ اپنے خاوند کو تنگ نہ کیا کرو۔‘‘
حضرت امام بی بی صا حبہؓ نے دو حج کیے تھے۔ ایک اپنا اور دوسرا حضرت ا ماں جانؓ کی طرف سے۔
تقسیم ملک کے بعد پہلے رتن باغ لاہور آئیں پھر چنیوٹ آکر آباد ہوئیں لیکن خلافت اور خاندان حضرت اقدسؑ سے محبت اور دیرینہ خدمات کی و جہ سے ربوہ میں سکونت اختیار کی۔ حضرت اماں جانؓ بھی آپ کی دیرینہ خدمات کی و جہ سے آپؓ سے محبت رکھتی تھیں اس تعلق کی بِنا پر آپؓ کے بیٹے حضرت محمد اسماعیل صاحب کی شادی پر حضرت اماں جانؓ ازراہ شفقت گھر بھی تشریف لائیں۔ یکم جون 1950ء کو دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے سنگ بنیاد کے لیے حضرت اماں جانؓ نے اپنے دست مبارک سے اینٹ نصب فرمائی، پھر صحابیات سے باری باری اینٹیں رکھوائی گئیں، اس تقریب میں حضرت امام بی بی صاحبؓہ بھی شامل تھیں۔
حضرت امام بی بی صا حبہؓ نے 29 مارچ 1957ء کو 95 سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پائی۔ یہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا:’’کچھ جنازے ہیں جومیں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا ایک جنازہ تو حضرت مسیح موعوؑد کی ایک پرانی صحابیہ امام بی بی صاحبہ اہلیہ محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار آف بٹالہ کا باہر پڑا ہے۔‘‘
آپؓ کی تدفین بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں ہوئی۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں