حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی چند یادیں
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11؍نومبر2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل 1992ء سے ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے۔
اپنی حرم محترم حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات پر آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں کہ آپ کی پیدائش 21؍جنوری 1936ء کو ہوئی اور اس لحاظ سے مجھ سے تقریباً آٹھ برس چھوٹی تھیں۔ ہماری شادی 1957ء میں غالباً 17؍دسمبر کو ہوئی اور ایک لمبا عرصہ باوجود بعض اختلافات کے انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ مجھ سے گزارا کیا۔ ہمارے والدین نے ہمیں بچپن میں بہت ہی سادہ حالت میں رکھا اور نہایت غریبانہ حالت میں زندگی بسر ہوئی۔
باوجود اس کے کہ وہ ساری ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں جو امیروں کے بچوں کو ان معنوں میں نصیب ہوتی ہیں کہ پہاڑوں پر جانا اور شکار وغیرہ تاکہ کسی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے بالارادہ ہمیں Tough بنانے کی کوشش کی اور سادہ زندگی کی جو تعلیم دوسروں کو دیتے تھے اپنے گھر میں بھی یہی تعلیم عملاً جاری کی۔ اِن کے ہاں معیارِ زندگی ہمارے ہاں سے بہت اونچا تھا۔ جب ایک واقفِ زندگی کے ساتھ بیاہی گئیں جس کا روزمرّہ کا گزارہ بھی بہت ہی معمولی تھا تو بہت تکلیف میں وقت کاٹا لیکن بڑے ہی صبر کے ساتھ۔ کبھی مطالبےنہیں کیے۔ ساری زندگی میں مجھ پر یہ بوجھ نہیں ڈالا کہ وہ لاؤ جو تمہارے پاس نہیں ہے۔

قادیان میں غالباً 1946ء کی بات ہے کہ جب میں نے ان کے ساتھ شادی کا پیغام دینے کا فیصلہ کیا۔ حضرت فضلِ عمرؓ کی عادت تھی کہ بیٹوں سے بھی پوچھا کرتے تھے اور بیٹیوں سے بھی پوچھا کرتے تھے۔اپنی مرضی نہیں ٹھونستے تھے۔لیکن اگر کوئی غلط فیصلہ ہو تو سمجھا دیا کر تے تھے۔ اس طرح بہت ہی اعلیٰ پاکیزہ افہام و تفہیم کے ماحول میں سب کے رشتے طے ہوئے۔ مَیں نے جب استخارہ کیا تو رؤیا کی حالت میں ان الفاظ میں خدائی خبر ملی کہ ’’تیرے کام کے ساتھ اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘ اس وقت مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میرے کون سے کام ہیں۔وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ آئندہ خدا تعالیٰ مجھ سے کیا کام لے گا۔لیکن اس میں یہ عجیب پیغام تھا کہ عملاً کاموں میں ان کو شر کت کی اتنی توفیق نہیں ملے گی لیکن میرے تعلق کی وجہ سے خدا ان کو میرے کاموں میں شریک فرما دے گا۔

1991ء میں قادیان جانے سے دو تین ہفتے پہلے اچانک ان کی حالت بگڑی ہے تو مَیں نے ان کو کہا کہ مَیں ٹھہر سکتا ہوں لیکن ساری دنیا سے احمدی آرہے ہیں خصوصاً پاکستانی بڑی محبت اور شوق سے آرہے ہیں اور ہندوستان کے کونے کونے سے احمدی آرہے ہیں لیکن آپ کا فیصلہ ہے آپ بتائیں کہ آپ ٹھہریں گی یا جانا چاہیں گی؟ انہوں نے کہا: مَیں جاؤں گی۔ چنانچہ یہ جو قربانی تھی اس نے قادیان کا تاریخی جلسہ ممکن بنا دیا اور یہ احسان مجھ پر بہت بھاری ہے۔
ایک خاص بات جو میرے دل کو بہت ہی بھائی، وہ یہ تھی کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ بی بی میں آپ کے لیے بہت دُعا کررہا ہوں، آپ کو تصور نہیں ہے کہ کس طرح کر رہا ہوں۔ تو کہتی ہیں صرف میرے لیے نہ کریں، ساری دنیا کے بیماروں کے لیے کریں۔ میں نے کہا کبھی ہوا ہی نہیں کہ تمہارے لیے کروں اور توجہ پھیل کر ساری دنیا میں بیماروں تک نہ پہنچے۔ اس پر چہرے پربڑا ہی اطمینان آیا۔
ابتدا میں آپ کا لجنہ وغیرہ سے کوئی ایسا تعلق نہیں تھا لیکن میرے کاموں میں بہت ہی بوجھ اٹھایا کیونکہ میرے تعلقات بہت زیادہ وسیع تھے اورہر وقت مہمانوں کا آنا جانا رہتا اور گھر میں میٹنگز ہوتیں۔ میرا بےوقت سفر پر روانہ ہونا کہ رات کو آجاؤں گا لیکن وہاں سے آگے بنگال چلاگیا۔ کئی دفعہ دو دو، تین تین ہفتے بعد لَوٹا لیکن کبھی عدِم تعاون کا اظہار یا شکوہ نہیں کیا کہ یوں چلے جاتے ہیں اور بتاتے بھی کچھ نہیں۔
سلسلہ کے بعض کاموں کا مَیں گھر میں اشارۃً بھی ذکر نہیں کرتا تھا۔ اس پر یہ شکوہ کبھی کیا کرتی تھیں کہ باقیوں کو پتہ ہے لیکن آپ مجھ سے ہی صرف راز رکھتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں پسند نہیں کرتا کہ جماعتی ذمہ داریوں کا گھر والوں سے ذکر کروں۔ اس طرح پھرگھروں کے دخل شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تبصرے اور بہت سی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ تو اس بات کو پھر ہمیشہ قبول کیے رکھا اور وفات تک کبھی جماعتی کاموں میں دخل اندازی کی کوشش کی نہ جستجو کی نہ مشورے دیے۔
رفتہ رفتہ احمدی خواتین سے تعلق بہت بڑھ گیا اور خاص طور پر ترکِ وطن کے بعد بہت وسیع تعلق ہوا ہے۔ بہت ہی انکساری کے ساتھ خواتین سے ملتی تھیں اور یہ خوبی فطرتاً ودیعت ہوئی تھی اس میں کوئی تکلّف نہیں تھا۔ خاص طور پر کہا کرتی تھیں کہ انگلستان کی خواتین کے بہت ہی احسانات ہیں۔