حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم (مہر آپا) صاحبہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 16؍دسمبر2024ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ فریال فیروز صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ (المعروف مہر آپا) کی سیرت شامل ہے۔
آپ7؍اپریل 1919ء کو بمقام جہلم اپنے ننھیال میں پیدا ہوئیں۔آپ ایک نہایت شریف اور مخلص سادات خاندان میں سے تھیں۔ آپ مکرم سیّد عزیر احمد شاہ صاحب کی بیٹی اور حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ کی پوتی تھیں جن کا شمار جماعت کے ممتاز اہلِ کشوف و الہام میں ہوتا تھا۔حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا ۔1920ء میں وہ سینئر اسسٹنٹ سرجن کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تو مستقل سکونت کے لیے قادیان تشریف لے آئے۔ 1937ء میں ان کی وفات ہوئی۔ حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ بھی ان کے بیٹے تھے۔

حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ

حضرت مہر آپا فرماتی ہیں کہ حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے۔مٹی کا لوٹا پانی سے بھرتے۔وضو کر تے اور نماز پڑھ کر واپس آجاتے ۔مسجد کے دروازے پر ایک بڑا زمیندار بیٹھ جاتا اور آپ کو مسلسل گندی گالیاں نکالتا رہتا مگر آپ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہتے اور اُس کو کچھ کہے بغیر اطمینان کے ساتھ نماز سے فارغ ہو کر گھر واپس آ جا تے۔ مگر ایک دن اس زمیندار نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں ۔ جونہی اس نے ایسا کیا حضرت شاہ صاحبؓ نے پانی بھرا لوٹا زور سے اس کے سر پر دے مارا۔ اس کاماتھا پھٹ گیا اور خون بہ نکلا۔ مگر حضرت شاہ صاحبؓ نے اطمینان سے وضو کیا نماز پڑھی اور واپس لَوٹ آئے ۔وہ زمیندار وہیں بیٹھا رہا۔ حضرت شاہ صاحبؓ جب دوسری نماز کے لیے تشریف لائے تو دوسرے احمدیوں نے کہا کہ شاہ صاحب! یہ زمیندار تو بہت اثر ورسوخ والا ہے اور یہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ شاہ صاحبؓ نے شانِ بےنیازی سے کہا: ’’ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ زمیندار حضرت شاہ صاحبؓ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے مرزا غلام احمد کے بارے میں بتائیں اُن کا دعویٰ کیا ہے؟ تب آپؓ نے سب کچھ بتایا تو وہ آپؓ کے پاؤں پڑ گیا یہ کہتے ہوئے کہ میری توبہ قبول کریں اور بیعت لیں۔ اس کے بعد زمیندار کا سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ اور جب بھی اس کے خاندان سے کوئی ملاقات کے لیے آتا تو اپنے نام کے ساتھ ’’لوٹے والے‘‘ ضرور لکھتا۔ آپ مزید فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؓ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں نام کے ساتھ ’’لوٹے والے‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اس پر میں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضورؓ فرمانے لگے: لو تمہیں علم ہی نہیں تمہارے ہی گھر کا تو واقعہ ہے۔ پھر حضورؓ نے مذکورہ واقعہ مجھے سنایا۔
(اس واقعے کے حوالے سے ایک ضروری تحقیقی نوٹ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو اس مضمون کے آخر پر دیا جارہا ہے)

سیّدہ مہر آپا نے 1944ء میں میٹرک کیا اور دینیات سکول کی دو جماعتیں بھی پاس کیں، پھر جامعہ نصرت ربوہ سے ایف اے کیا اور اس کے بعد بی اے میں داخلہ لیا مگر پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی علالت کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیا اور حضورؓ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحب

حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہؓ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہو تا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کی خاطر دوسری شادی کرنا بہتر ہوگا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اتفاقاً ایک روز میں نے تذکرہ کھولا اس میں لفظ بشریٰ موٹے حروف میں لکھا نظر آیا۔ اسے دیکھ کر میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی لڑکی کا نام بشریٰ ہے مگر اس سے تو میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ میر صاحبؓ مر حوم نے حضرت امّاں جانؓ کا دودھ پیا ہے۔ پس بشریٰ میری بھتیجی ہے۔ … میرا ذہن اس طرف گیا کہ مریم مرحومہ کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشریٰ نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہوسکی ۔ چنانچہ سیّد ولی اللہ شاہ صاحبؓ جو (رشتہ کا) پیغام لے کر گئے تھے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ لڑکی کے والد تو راضی ہیں مگر لڑکی کہتی ہے کہ میں تو شادی کے قابل ہی نہیں (بعض تکالیف کی وجہ سے آپ کے ہاں اولاد نہیں ہوسکتی تھی) پہلے ہی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بیمار عورت حضرت صاحب کے گھر بھیج دی ہے۔ اب اگر مَیں گئی تو خاندان کی بدنامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ ایک اَور بیمار بھیج دی۔ سیّد حبیب اللہ شاہ صاحبؓ نے کہا کہ میں نے کشفاََ دیکھا کہ بشریٰ بیگم سفید لباس میں ملبوس میرے سامنے کھڑی ہے اور حضورؓ کو بھی دیکھا کہ قریب ہی ایک طرف کھڑے ہیں اور یہ القا ہوا: ’’بشریٰ بیگم صاحبہ حضرت کے لیے ہیں۔‘‘


آپ کے بارے میں حضورؓ کو ایک رؤیا میں خبر دی گئی تھی کہ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہرآپا کو بلاؤ۔ یعنی محبت کرنے والی آپا۔ اسی رؤیا کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو جماعت میں ’مہر آپا ‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل کرنے کی طرف توجہ کی گئی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، پروفیسر صوفی بشارت الرحمٰن صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ نے واضح خوابیں دیکھیں۔ چنانچہ 24؍جولائی 1944ء کو آپ کے ساتھ حضورؓ نے اپنے نکاح کا اعلان ایک ہزار روپے حق مہر پر فرمایا۔ خطبہ نکاح میں حضورؓ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہرصاحبہ ؓکی وفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’حضرت اُمّ طاہرؓ کے بچوں کی نگہداشت کے لیے شادی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ طے پایا کہ حضرت سیّدہ اُمّ طاہرؓ کے خاندان سے رشتہ کیا جائے۔‘‘
آپ حضورؓ کی ساتویں اور آخری حرم محترم تھیں۔ شادی کی تقریب24؍اگست1944ء کی شام مکرم سیّد عزیر احمد شاہ صاحب کی کوٹھی واقع دارالانوار قادیان میں منعقد ہوئی۔ اگلے روز حضورؓ کی طرف سے مسجد مبارک قادیان میں دن کے دو بجے دعوت ولیمہ دی گئی۔ حضورؓ اُن دنوں ڈلہوزی میں تھے تو آپؓ کے ارشاد پر حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ امیر مقامی نے دعا کروائی اور ڈلہوزی میں بھی ایک دعوت دی گئی۔
حضرت مہر آپا شادی سے پہلے کا ایک خواب یوں بیان فرماتی ہیں کہ بہت خوبصورت جوڑا مَیں نے پہنا ہوا ہےجس کا رنگ بہت پیارا ہے اور جوڑے پر چمکدارخوبصورت کام کیا ہوا ہے۔ جوڑے کے اوپر بہت خوبصورت اور بھاری جبّہ پہنا ہوا ہے مگر یہ لباس اس قدر بھاری ہے کہ اس کو پہن کر کسمساہٹ محسوس کر رہی ہوں۔ کانوں میں دلکش آویزے ہیں جو گردن تک آتے ہیں ان میں سفید اور سرخ نگینے ہیں۔ آئینہ دیکھتی ہوں تو سب چیزیں بہت پیاری معلوم ہوتی ہیں۔
آپ اپنے نام کی طرح مہربان اور محبت کر نے والی تھیں۔ نہایت نفیس طبیعت ،شگفتہ مزاج اور باوقار خاتون تھیں۔ آپ غریب پرور اور مسکین نواز بھی تھیں۔آپ اپنے گھر میں کام کرنے والی لڑکیوں کا بہت خیال رکھتیں اور ان کی تعلیم و تر بیت پر بھی توجہ فرماتی تھیں۔
حضرت سیّدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ شادی کے بعد حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ حضورؓ کے معیار اور اعتماد پر پوری اتریں۔ آپ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہؓ کے سارے بچوں کا بہت خیال رکھا اور جتنا پیار بھی ممکن تھا ان کو دیا۔ اس کے علاوہ حضرت صاحبؓ کے سارے بچوں سے ہمیشہ محبت اور شفقت سے پیش آتیں۔ بڑے بچوں سے محبت کے علاوہ ان کا احترام بھی بہت کرتیں۔اپنے متعلق تو میں حتمی طور پر کہہ سکتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت محبت دی اور اس کے ساتھ عزت بھی بہت کر تیں اور میں نے بھی ان کی عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں کی اور ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ آپ میرے رویہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ سسرال کے سارے عزیزوں سے محبت واحترام کا رویہ تھا۔ بڑی دعاگو اور تہجد گزار تھیں۔ غریبوں کی امداد کرنے والی، مہمان نواز اور ملازمین سے حسن سلوک رکھنے والی ہستی تھیں۔
حضرت سیّدہ مہرآپا کے خاندان کی باقی خواتین بھی بہت مخلص تھیں اور دین کی خاطر قربانی کرنے والی تھیں۔ زیورات، روپیہ پیسہ جو کچھ بھی پاس ہوتا جماعت کی ضرورت کے وقت پیش کر دیتیں مگر کسی کو کانوں کان بھی علم نہ ہوتا۔ آپ بھی اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم اوراسوۂ پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی سب مال و دولت اور دیگر جائیداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرگئیں۔ آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کی عظیم مالی قربانی کا جو مصرف سوچا وہ تاریخ احمدیت میں ایک نہایت حسین یادگار کے طور پر زندہ رہے گا۔ حضورؒ نے فرمایا:

’’سیدہ مہر آپا کی وفات کی اطلاع چونکہ مجھے جرمنی میں ملی ہے اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو روپیہ یہاں موجود ہے اس میں سے اور کچھ باہر سے منگواکر تین لاکھ جرمن مارک جماعت احمدیہ جرمنی کے سپرد کردوں گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سومساجد کی جو تحریک ہے اس میں سے ہر سو میں سے تین ہزار ان کی طرف سے ہوگا ۔… جماعت جرمنی کو جو توحید کے نشان کے طور پر مسجدیں بنانا ہے۔ اس کی میں آج سیدہ مہر آپا کی وفات کے ساتھ تحریک کرتا ہوں۔… اس میں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے سیدہ بشریٰ بیگم مہر آپا کا ایک مستقل حصہ ہوگا۔ گویا ہر مسجد میں اُن کی طرف سے کچھ نہ کچھ ہوگا اور میں بھی اللہ کے فضل سے آپ کے ساتھ شامل ہوجاؤں گا تو اللہ کرے کہ ہمیں یہ توفیق عطا ہو۔… پس سیدہ مہرآپا کے وصال نے ایک نئی بات بھی آپ کے اندر پیدا کردی ہے جماعت جرمنی میں یہ سارے خیالات میرے دل میں اس وصال کے ساتھ ہی اُٹھنے شروع ہوئے اور اس طرح پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وفات کو زندہ کرنے کی توفیق بخشے ۔جو بھی ہم میں سے مرے صفاتِ باری تعالیٰ کو پیچھے روایات کی صورت میں زندہ چھوڑتا چلا جائے ۔آمین‘‘
محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کی شادی کے بعد قادیان آکر ہم بہن بھائی آپ کے ساتھ رہنے لگ گئے۔ آپ ہم سب سے انتہائی محبت و شفقت کا اظہار فرماتیں۔ آپ حضرت صاحبؓ کے لیے بہت غیرت اور محبت رکھتی تھیں۔ ان کی انتہائی فرمانبردار اور خدمت گزار تھیں۔ ایک دفعہ ببی (سید قمر سلیمان احمد) کو ایک پستول دی اور کہا کہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کی نشانی ہے۔ یہ میں اپنے بھائیوں کو بھی نہیں دینا چاہتی کیونکہ اس کی جو قدر آپ کو ہوگی اَور کسی کو نہیں ہوگی۔ ابا جانؓ کی وفات کے بعد ان کے سب بچوں کا بہت خیال رکھتیں۔ باقاعدگی سے عیدی کے پیکٹ ان کے گھر بھجواتیں۔ اسی طرح ہمسایوں کے گھر بھی باقاعدگی سے تحفے بھجواتیں اور کہتیں یہ ہمسایوں کا حق ہے۔ 1957ء میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کی شادی ان کے گھر میں ہوئی تو بہت خوش اسلوبی سے سارے انتظامات کروائے۔ حضوؒر کے ساتھ خاص محبت کا سلوک تھا۔ اکثرباتوں میں حضورؒ کا ذکر ’میرا طاری‘ کہہ کر کرتیں۔ آپ کے اندر مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھی۔ مہمان نوازی اور خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ بیماری میں بھی تواضع کرتیں۔ کھانا بہت اچھا پکاتیں، باوجود ملازموں کے کوئی نہ کوئی چیز خود بھی بناتیں اور سب کو کھلا کر بہت خوش ہوتیں۔ بہت صفائی پسند تھیں۔ اپنے آپ کو بھی صاف ستھرا رکھتیں اور گھر کو بھی سلیقے سے سجاتیں۔ صبرو تحمل کا پیکر تھیں۔ قریبی عزیزوں، بھائیوں کے صدمات بڑے حوصلہ سے برداشت کیے۔ اپنی بیماری کا عرصہ بھی صبرو تحمل سے گزارا۔ بہت عبادت گذار تھیں۔ تہجد اور صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ مطالعہ کا بھی شوق تھا۔ مضامین لکھتیں، جلسوں اور اجتماعات پر تقاریر بھی بہت جوش اور ولولہ سے کرتیں۔ آپ نے انسپکٹر جلسہ سالانہ کے فرائض بھی انجام دیے۔ سیر کی شوقین تھیں صبح کو باقاعدگی سے سیر پر جاتیں۔ شام کوبھی چہل قدمی کرنے جاتیں اور سب بچوں کے گھروں میں ملنے جاتیں۔
22؍مئی 1997ء کو حضرت مہر آپا کی وفات ہوئی۔

ایک ضروری تحقیقی نوٹ

’’لوٹے والا واقعہ‘‘ ۔ ضروری تصحیح

حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے بارے میں ایک مضمون (مطبوعہ رسالہ ’’خدیجہ‘‘ ۲۰۱۳ء) کا خلاصہ اخبار ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ ۱۶؍دسمبر۲۰۲۴ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا جس میں حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا کہ اُن کے والد محترم حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ جس مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر ایک بڑا زمیندار آپ کو گالیاں نکالتا رہتا مگر آپ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہتے مگر ایک دن اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں تو آپؓ نے پانی بھرا لوٹا اس کے سر پر دے مارا۔ ……
مذکورہ مضمون کی اشاعت کے بعد بعض قارئین کی طرف سے اس واقعے کے مختلف ورژن کا حوالہ دیتے ہوئے کنفیوژن کا اظہار کیا گیا تو متعلّقہ شعبہ سے اس بارے میں راہنمائی کی درخواست کی گئی۔ اُن کی طرف سے تحقیق کے بعد جو تفصیلی جواب موصول ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ واقعہ مکرم سیّد احمدعلی شاہ صاحب مربی سلسلہ نے ۳؍جون ۱۹۶۷ء کو مکرم چودھری عنایت اللہ صاحب امیر حلقہ جماعت احمدیہ دھرگ سے منسوب کرکے بیان کیا تھا جو یوں تھا کہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ قبولِ احمدیت سے قبل حضرت سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ کے زیرتبلیغ تھے اور اکثر دعوۃالی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک دن کسی مسئلے پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر حضرت شاہ صاحبؓ کے سر پر لوٹا دے مارا جس سے آپؓ زخمی ہوگئے اور ہسپتال سے فوری مرہم پٹی کروائی۔ پھر گھر سے خون آلود کپڑے تبدیل کرکے واپس مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور کمال وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر فرمایا: مولوی صاحب! کیا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے؟ آپؓ کے اس رویّے کے نتیجے میں حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ احمدی ہوگئے۔ یہ واقعہ ’’لوٹے والا واقعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہی واقعہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کے پوتے سکواڈرن لیڈر (ر)مکرم چودھری حنیف احمد صاحب کی زبانی کتاب ’’حضرت ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ‘‘ (مرتّبہ احمدطاہر مرزا صاحب) میں بھی شامل ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم سیّد داؤد مظفر شاہ صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ یوں بیان فرمایا تھا کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ جو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے۔ اُن کی وسعتِ حوصلہ اور صبر کا ایک واقعہ ہے۔ آپؓ ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے۔ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُس وقت آپ سرکاری ہسپتال میں سول سرجن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور دعویٰ پر بحث ہورہی تھی تو اس نے ایک وقت میں غصے میں آ کر پکّی مٹی کا لوٹا اُٹھا کے آپ کی طرف زور سے پھینکا یا سر پہ مارا۔ بہر حال ماتھے پر لگا اور سر پھٹ گیا جس سے اِن کا خون بہنے لگا۔ تو حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بغیر کچھ کہے وہاں سے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہسپتال چلے گئے۔ وہاں جا کے پٹّی کروائی اور اس دوران میں اُس شخص کو بھی احساس ہوا کہ یہ مَیں نے کیا کیا؟ یہ تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور پولیس آئے گی اور مجھے پکڑ کے لے جائے گی۔ بڑا خوفزدہ تھا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد حضرت ڈاکٹر صاحب سر پہ پٹّی باندھے واپس تشریف لے آئے اور اُس شخص سے کہا کہ مجھے امید ہے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا، اب دوبارہ بات کرتے ہیں۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میرا تو پہلے ہی بُرا حال تھا تو میں اُن سے معافیاں مانگنے لگ گیا اور اُس وقت شرمندگی سے بھی اور خوف سے بھی میری حالت عجیب تھی۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍مارچ۲۰۱۱ء)
پس اصل واقعہ یہی ہے جو مذکورہ مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ جبکہ رسالہ خدیجہ کے مضمون میں درج شدہ واقعہ مکرمہ سعیدہ احسن صاحبہ کے اُس مضمون سے (حوالہ دیے بغیر) لیا گیا ہے جو موصوفہ کی یادداشتوں پر مشتمل تھا اور ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اپریل ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے یہ واقعہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کی طرف منسوب کیا تھا جبکہ حضرت سیّدہ کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز مضمون نگار کی عمر اُس وقت قریباً ستّر سال تھی اور غالب امکان ہے کہ انہیں اس واقعہ کی جزئیات یاد رکھنے میں ذہول ہوگیا ہے۔ (مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 24فروری2025ء)

حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم (مہر آپا) صاحبہ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں