حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20؍نومبر 2023ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ نرگس ظفر صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہؓ حرم محترم سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی مختصر سیرت و سوانح شامل اشاعت ہے۔


حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ ایک نہایت مخلص اور ولیہ تھیں۔ ایمان میں اُن کو صدق حاصل تھا۔ حضرت سیّدہ نے علم و ادب کے ماحول میں آنکھ کھولی اس لیے بچپن سے ہی تحصیلِ علم کا شوق تھا۔ آپ نے ا پنے عالم باعمل والد محترم سے عربی و فارسی سیکھی اور صحیح بخاری اور قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پر بھی کافی عبور حاصل تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے آپ کا نکاح 12؍اپریل1925ء کو اور رخصتا نہ 3؍مئی 1925ء کو ہوا۔ آپ سے نکاح کی غرض حضورؓ کی یہ تھی کہ تعلیم نسواں کی وہ اسکیم جو حضرت سیّدہ امۃالحی بیگم صاحبہؓ کی وفات سے تعطّل میں پڑگئی تھی اس پر عمل کیا جاسکے اس لیے ایک پڑھی لکھی بیوی کی ضرورت تھی جو مزید تعلیم اور حضورؓ کی تربیت سے اس سکیم کو عملی جامہ پہناسکے۔ حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ بھی اپنا مشن اور مہم جانتی تھیں چنانچہ چند دن کی دلہن نے پڑھائی شروع کردی اور تا دمِ مرگ حصولِ علم میں لگی رہیں تاکہ اپنے آپ کو اُس اعلیٰ مقصد کے لیے تیار کرسکیں۔ 1929ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں سوم آئیں۔1931ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان دیا اور دوسال میں ہی گویا پانچ سال کی پڑھائی ختم کرکے اچھے نمبروں پر انٹرنس کرلیا۔ ایف اے کی تیاری کے لیے خا طرخواہ اساتذہ کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اس بارے میں فرماتے ہیں: اس طرح محنت، فکر اور گھبراہٹ نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا مگر آپ نے ہمت نہ ہاری۔ بیچ میں کئی دفعہ بیمار پڑیں اور بعض حصے کتابوں کے بالکل رہ گئے جس کے لیے آخری ایام میں آپ کو دوہری محنت اُٹھا نا پڑی۔ فارسی اور عربی میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں، فارسی شعر انہیں بہت یاد تھے، عربی میں صَرف و نحو خوب آتی تھی۔
حضرت سیّدہ محترمہ کے ایک استاد محترم ماسٹر محمد حسین صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ مطالعے میں اُن کی خودفراموشی کی سی حالت رہتی تھی۔ ایک اَور استاد حضرت چودھری عبداللہ خان صاحب (برادر حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ) لکھتے ہیں کہ محترمہ سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ ایک لعلِ بےبہا اور درخشندہ گوہر تھیں، وہ ایک انمول موتی تھیں، وہ سلسلہ عالیہ میں ایک بہت بڑا رکن تھیں۔ تمام عورتوں کے لیے ان کی زندگی مشعلِ راہ ہے۔ امورِ خانہ داری، بچوں کی دیکھ بھال، لجنہ کا کام، پھر تعلیم حاصل کرنے کا اِس قدر شوق، یہ سب کچھ اُن کی ذات ہی سے ہوسکتا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ اُن کا خط بہت سے مَردوں سے بھی زیادہ اچھا تھا اور خوب تیز لکھ سکتی تھیں۔ اچھی خاصی زودنویس تھیں۔ تحریر بھی بہت اچھی تھی۔
چنانچہ حضوؓر کے اکثرمضامین تیزی سے لکھتی جاتی تھیں اور خود بھی عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے اکثر مضامین رسائل میں لکھتی رہتیں۔ آپ کوزیادہ عملی کام کا موقع نہیں ملا کہ عمر نے وفا نہ کی۔ پھر بھی آپ کچھ عرصہ لجنہ کی سیکرٹری رہیں اور لجنہ کی تنظیم اور تعلیم کی اسکیم کے لیے سعی کرتی رہیں۔
شادی کے آٹھ سالہ دَور میں حضرت سیّدہ صاحبہ نے ایک مجاہدہ کی زندگی گزاری کیونکہ ایک طرف بچوں کی پیدائش تو دوسری طرف خلیفۂ وقت کی بیوی ہونے کے فرائض کی ادائیگی۔ تیسری طرف گھر کے کاموں کا انصرام۔ چوتھی خاوند کی خدمت، اس پر مستزاد ایک ایسی تعلیم جو بالکل فارغ رہنے والے طالب علموں کو بھی گھبرا دیتی ہے گویا آپ نے سرکاری نصاب کا اٹھارہ سالہ کورس آٹھ سال میں ختم کیا۔
آپ اوصافِ حسنہ سے متصف تھیں۔ نہایت نیک، صوم و صلوٰۃ کی پابند، منکسرالمزاج اور ہمدردانہ رنگ رکھنے والی تھیں۔ ان کی طبیعت میں تکلّف یا نمائش نہ تھی، فضول خرچ نہ تھیں۔ کم گو تھیں اورطبیعت میں ضد نہ تھی۔ استہزا سے اُن کو نفرت تھی۔ امراء اورغرباء کو ایک نظرسے دیکھتیں۔ اوقات کا اکثر حصہ تعلیم کے حصول میں خرچ کرتیں۔ نہایت علم دوست تھیں۔ ہر ایک سے جو علم میں ترقی کرنے کا شائق ہوتا محبت کرتیں اور مزید ترقی کی طرف حوصلہ افزائی فرماتیں، اُن کے لیے دُعا بھی کرتیں۔ طبقۂ خواتین کی خیرخواہی ان کا مقصد تھا۔ نہا یت پاک باطن اور نیک خُو تھیں مسابقت الی الخیر میں کوشاں رہتیں۔ حضورؓ کے مطابق ان کی زندگی کا خلاصہ تین لفظوں میں آجاتا ہے یعنی پیدائش، پڑھائی اور موت۔
حضرت سیّدہ سارہ صاحبہؓ نے حضورؓکی کامل فرمانبرداری کی۔ آپ اور آپ کے خاندان کا رویہ نہایت اعلیٰ اور ہمیشہ مقامِ ادب پر قائم رہنے والا تھا کہ حضورؓ کی نظروں میں قابلِ قدر ٹھہرا اور حضورؓ نے ان کے لیے اور ان کی نسلوں کے لیے دنیا و آخرت میں اس عمل کا نیک بدلہ پانے کی دعا کی۔
سلسلہ کے لیے آپ کے دل میں بڑی غیرت تھی۔ سلسلہ کی کامیابیوں پر جو خوشی آپ کو ہوتی وہ دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ادب انتہا درجہ کا تھا اور اس سبب سے حضرت اماں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی ہمشیرگان کا بھی بےحد ادب کرتی تھیں۔ وفات سے آدھ گھنٹہ قبل آپ کی کمزوری دیکھ کرحضر ت امّاں جانؓ پر رقت طاری ہوگئی تو باوجود اس کے کہ جان کنی کا وقت شروع ہو نے وا لا تھا بےتاب ہوکر اُن کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور رو کر کہا کہ ’’امّاں جان! آپ روئیں نہیں، مَیں تو اَب اچھی ہوں۔‘‘
آپ کی وفات 13؍مئی 1933ء کو ہوئی۔ آپ بنگال اور بہار کو حضرت مسیح موعودؑ کی رشتہ داری میں شامل کرگئیں۔ آپ کی اولاد کے ذریعے یہ تعلق پائیدار رہے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے لیے بہت ساری دعائیں کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اے اَرۡحَمُ الرَّاحِمِیۡنَ! اے بندے کے تھوڑے عمل کو قبول کرنے والے! اے نیتوں کا بدلہ دینے والے ربّ! جس کے دروازے سے کوئی سوالی واپس نہیں جاتا تُو اس فعل کے بدلے میں جب کہ تیرے لیے سارہ بیگم نے اپنی عمر سے کوئی فا ئدہ بظاہرنہیں اٹھایا تُو ان کو اگلے جہان میں اعلیٰ مقامات عطافرما، اپنے قرب میں جگہ دے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بہو کی حیثیت سے انہیں قبول کراور اپنے خُسرکے پاس اَعۡلیٰ عِلِّیِّیۡنَ میں جگہ دے کہ تیرے فضلوں سے یہ بات کچھ بعید نہیں اور تیری شان کے یہ بالکل شایان ہے۔ اٰمِیۡن اَللّٰھُمَّ اٰمِیۡن‘‘
حضرت سیّدہ صاحبہ کی طبیعت میں بچوں کی محبت عام عورتوں سے زیادہ تھی، بچوں کے دُکھ کو دیکھ کر بہت بےتاب ہوجاتی تھیں لیکن باوجود ایسے جذبات کے آپ نے محض تعلیم کے لیے بچوں کی جدائی کو برداشت کیا اور یہ ایک عظیم الشان قربانی تھی۔پانچ بچوں میں سے دو ایّام حمل میں ہی ضائع ہوگئے۔ تین بچوں میں سے آپ کی وفات پر محترم مرزا رفیع احمد صاحب تقریباً چھ سال کے، محترمہ امۃالنصیر صاحبہ تقریباً ساڑھے تین سال کی اورمحترم مرزا حنیف احمد صاحب تقریباً سوا سال کے تھے۔ آپ ایک ایسی خوش نصیب بیوی ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنے مضمون میں آپ کے لیے اپنی بےپناہ محبت کا اظہار کیا اور آپ کی خوبیوں کو بیان فرماتے ہوئے آپ اور اپنی اولاد کے لیے بہت دعائیں کیں۔ حضورؓ کا تحریر فرمودہ مضمون بعنوان ’’میری سارہ‘‘ اخبار الفضل 27؍جون 1933ء میں شائع ہوا جسے لکھنے کی غرض حضورؓ نے یوں بیان فرمائی کہ ’’مرحومہ کے نیک اذکار کو دنیا میں قائم رکھنے کی کو شش کروں تاکہ جب ان کی اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوان ہو تو ان کی نیکیوں کی پیروی کی کوشش کرے۔ دوسرے مَیں مستورات کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی تعلیم اور مرحومہ کی تعلیم میں ایک فرق ہے۔ دوسری مستورات اپنی اغراض کے لیے تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن مرحومہ کی غرض صرف خدمتِ دین تھی اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی۔ پس ان میں سے بھی جسے اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ دنیاطلبی کا خیال چھوڑ کر خدا کی رضا کو مقدّم رکھے۔‘‘
حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نظم بھی کہی جس کے چند ا شعا ر یہ ہیں :

کر رحم اے رحیم مرے حالِ زار پر
زخمِ جگر پہ دردِ دلِ بےقرار پر
مجھ پر کہ ہوں عزیزوں کے حلقہ میں مثلِ غیر
اِس بےکس و نحیف و غریب الدّیار پر
اُس مَے گسارِ بادۂ اُلفت کی رُوح پر
اُس بوستانِ عشق و وفا کی مزار پر
میری طرف سے اس کو جزا ہائے نیک دے
کر رحم اے رحیم! دلِ سوگوار پر
حاضر نہ تھا وفات کے وقت اے مرے خدا
بھاری ہے یہ خیال دلِ ریش و زار پر
ڈرتا ہوں وہ مجھے نہ کہے با زبانِ حال
جاؤں کبھی دعا کو جو اُس کے مزار پر
جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر

اپنا تبصرہ بھیجیں