حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن28؍اگست 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ ثمینہ مسعود صاحبہ اور مکرمہ عطیہ کریم عارف صاحبہ کے قلم سے حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی سیرت پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی ولادت 25؍جون 1904ء کو ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اَور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’دخت کرام‘ چنانچہ وہ الہام … شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امۃالحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے۔‘‘ (صفحہ 228 ایڈیشن1984ء)
حضرت سیدہ موصوفہ کے قرآن کریم کا پہلا دَور ختم کرنے پر 3؍جولائی1911ء کو آمین ہوئی۔ آپؓ بےحد ذہین و فہیم تھیں۔ حصولِ علم کا اتنا شوق تھا کہ شادی کے بعد میٹرک، ادیب عالم اور انگریزی میں ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ اردو ادب کے علاوہ انگریزی ادب بھی کافی پڑھا ہوا تھا۔
7؍جون 1915ء کوحضرت سیّدہ موصوفہؓ کا نکاح ہمراہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ ( ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ )مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے پڑھایا اور22؍فروری1917ء کو رخصتی عمل میں آئی۔
حضرت نواب محمد عبدا للہ خان صاحبؓ اپنی لمبی بیماری سے شفایابی پر ایک مضمون میںاپنی اہلیہ محترمہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیںکہ یہ نور کا ٹکڑا حضرت مسیح موعودؑ کا جگر گوشہ جو میرے پہلو کی زینت بنا ہوا ہے کس خدمت اور کس نیکی کے عوض مجھے حاصل ہو ا ہے اسی بات کو سوچ کر میں ورطۂ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا ہوں۔ اس مجسمِ مہر و وفا نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فوراً لاہور پہنچیں۔ ساری رات موٹر پر سفر کرکے صبح چار بجے کے قریب لاہور پہنچیں پھر اس قدر تندہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں کہہ نہیں سکتا کوئی دوسری عورت اس قدر محبت اور پیار کے جذبہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو۔ عام طور پر لوگ چند دن کی تیمارداری سے تنگ آ جاتے ہیں لیکن یہاں پانچ سال کی لگاتار محنت و مشقت کی خدمت نے ان کی مہرووفا اور محبت پر مہر لگا دی ہے۔ اس بے پناہ محنت اور مشقت نے ان کی اپنی صحت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اب وہ مجھ سے زیادہ بیمار نظر آتی ہیں۔
آپؓ کی بیٹی محترمہ طاہرہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ جس جانفشانی اور محنت سے امی جان نے ابا جان کی خدمت کی وہ ایک مثال ہے۔ تین تین چار چار بج رہے ہیں اور امی جان اسی طرح بھوکی کام میں مصروف ہیں۔ بڑی مشکل سے اور زور دینے سے کھڑے کھڑے دو چار نوالے منہ میں ڈالتیں اور پھر ابا جان کی (پلنگ کی) پٹی کے ساتھ لگ جاتیں۔ چار پانچ مہینے تو امی جان نے نیند بھی پوری نہیں لی۔ کبھی دس پندرہ منٹ کے لیے آنکھ جھپک جاتی اور پھر آکر ابا جان کی پشت کو دبانے لگ جاتیں۔ رات گیارہ بارہ بجے جب آپ کو تسلی ہوجاتی کہ اباجان سوچکے ہیں تو ایک اسٹول اباجان کی چارپائی کے ساتھ ملا لیتیں اور اس پر ٹیڑھی ہو کر اس حالت میں لیٹ جاتیں کہ سر اور شانے ابا جان کے پلنگ کی پٹی پر اور ہاتھ ابا جان پر ہوتا تھا۔
حضرت سیّدہ ؓ جماعتی مساعی میں حتی المقدور حصّہ لیتی رہیں۔ مجلس مشاورت 1929ء میں تجویز پیش ہوئی کہ خلافت جوبلی کے موقع پرلوائے احمدیت تیار کیا جائے چنانچہ اس کے لیے سُوت کاتنے والی صحابیات کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آپؓ کا نام نامی درج ہے۔ مسجد محمود زیورچ (سوئٹزرلینڈ)کا سنگِ بنیاد آپؓ کے دستِ مبارک سے رکھا گیا۔
آپؓ نماز ہمیشہ اپنے وقت پر ادا کرتیں اور نماز جمع کرکے پڑھنے کی عادت نہ تھی۔ ایک دفعہ آپؓ شدید بیمار تھیں اور تقریباً دو دن تک بے ہوش رہیں۔ ہوش میں آئیں تو کمزوری اتنی تھی کہ بات نہ کر سکتی تھیں لیکن جو پہلی چیز آپؓ نے اشارۃً طلب کی وہ پاک مٹی کی تھیلی تھی جس سے تیمم کر کے آپؓ نماز ادا کرتی تھیں۔ جب آپؓ نے تیمم کیا تو نمازادا کرنے کی کوشش میں دوبارہ بے ہوش ہو گئیں اور ایسا کئی دفعہ ہوا۔ جو لڑکیاں آپؓ کے پاس رہتی تھیں انہیں نماز بروقت ادا کرنے کی تلقین فرماتی تھیں اور ہر نماز کے وقت ہر لڑکی کو پوچھتیں کہ اُس نے نماز ادا کی ہے یا نہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ حضرت پھوپھی جان کو نہایت ہی لطیف شعری ذوق عطا ہوا تھا۔ خود بہت ہی صاحب کمال شاعرہ تھیں لیکن اپنے کلام کو لوگوں سے چھپاتی تھیں۔ اکثر چند سطور لکھیں اور ایک طرف پھینک دیں اور پھر وہ کلام نظر سے غائب ہو گیا۔چونکہ مجھے بچپن سے ہی شعرکا ذوق رہا ہے اس لیے آپؓ کے ساتھ میرا ایک خاص تعلق اس وجہ سے بھی تھا۔ میری ان تک رسائی تھی اور وہ بعض دفعہ بڑے پیار کے ساتھ مجھے اپنا کلام سنا بھی دیا کرتی تھیں۔
آپؓ کی بیٹی محترمہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ امی جان کا ایک خاص وصف خدا تعالیٰ پر توکّل تھا۔ ایک دفعہ امی کو شہد کی ضرورت پڑی۔ اتفاق سے اس وقت شہد موجود نہیں تھا۔ مَیں نے کہا کہ ابھی جا کر سیّدی حضرت بھائی جانؒ (حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ) سے لے کر آتی ہوں۔ امی نے فوراًکہا ’’نہیں میں نے کسی سے نہیں مانگنا۔ جب اللہ تعالیٰ خود میری تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے تومَیں کسی سے کیوں کہوں۔‘‘ اور پھر اسی دن یا دوسرے دن ہی کسی نے امی کو بہت اچھا خالص شہد تحفۃً بھجوادیا۔
دعاؤں پر بے حد یقین تھا اور غیر اللہ پر بھروسہ کرنے سے سخت نفرت۔ آپؓ کی بیٹی محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میری بیٹی سمیرا نے کسی چیز کے لیے خط لکھ کر پیسے مانگے تو اس کو بڑا پیارا جواب دیا۔ اس کی خواہش بھی پوری کر دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ جس چیز کی ضرورت ہو اللہ میاں سے مانگا کرو۔ دعاؤں کی عادت ڈالو۔ ہاں انسانوں میں صرف میرے کان میں چپکے سے کہہ دیا کرو۔
ایک دفعہ مجھے کہا کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں گھبراہٹ میں دعا نہیں کر سکتا۔ مگر زبردستی کمرہ بند کر کے نفلوں کی نیت باندھ کر دعا شروع کر دو پھر دیکھو خودبخود دعا نکلنی شروع ہوجائے گی۔ دو نفل نو دس بجے دن اور دو یا چار نفل تہجدکے پڑھ کے تو دیکھو اللہ تعالیٰ کیسا فضل کرتا ہے۔ جب بندہ مانگے ہی نہ تو وہ کیوں دے! فرماتی تھیں کہ جس نے دعا کی عادت کو اپنا لیا اس نے سب ہی کچھ پا لیا۔
آپؓ نے ہر ابتلا کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ابا کی وفات کے بعد جائیداد کا حساب کتاب خود سنبھالا۔ پھر جب بیٹے نے کام سنبھالا تو اس کو ٹوکتی رہتیں کہ‘‘فضول خرچی نہ کرو مجھے ڈر لگتا ہے۔’’ اکثر سناتی تھیں کہ مَیں نے اپنی تنگی کے زمانے میں خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ آئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں ’’مجھے تمہاری سوچ کر خرچ کرنے کی عادت پسند ہے اور مجھے روکتے رہے کہ تکلّفات میں نہ پڑنا یہ اخلاص و محبت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں۔‘‘ امی فراخی میں بھی اسراف سے ڈرتیں اور ہمیں بھی منع کرتی رہتیں۔
آپؓ خود بھی بہت زندہ دل تھیں اور اپنے بچوں کو بھی ہمیشہ عزم و ہمت اور خوش دلی کی نصیحت کرتیں۔ فرماتیں کہ زندگی میں جو گھڑی بھی خوشی کی ملے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ وقت اور حالات کی وجہ سے خود پر افسردگی اور غم طاری رکھنا بُری بات ہے،ناشکری ہے، توکّل کے خلاف ہے، اپنے سے کمزور کو دیکھو ،اپنا حوصلہ بلند رکھو، اعتماد پیدا کرو۔ بس دعا نہ چھوڑو اللہ سے رشتہ جوڑ لو سب ٹھیک ہوجائے گا۔
محترمہ رضیہ درد صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ یہ عاجزہ ایک شادی شدہ لڑکی کو لے کر آپؓ کے ہاں گئی جس کی اپنے خاوند سے اَن بن تھی۔ آپؓ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا: ’’بیٹی تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے شادی شدہ تو لگتی ہی نہیں۔ ازدواجی زندگی کی کامیابی کا راز اس میں بھی ہے کہ عورت اپنی ظاہری طرز کو ہر لحاظ سے درست رکھے۔‘‘ آپؓ کے کہنے کا ایسا اثر تھا، ایسی اپنائیت تھی کہ کچھ عرصہ ہی بعد اس کے حالات یکدم بہتر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے پیارا سا بچہ بھی عطا فرما دیا۔ ممکن ہے یہی بات ان کی ناچاقی کا باعث ہو۔
محترمہ امۃالودود صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ اپنے خادموں سے بہت شفقت کا سلوک فرماتی تھیں۔ اگر کبھی کسی کی صحت خراب ہو جاتی تو اس کا بہت خیال رکھتیں اور اس کے لیے ادویات کا انتظام کرنے کے علاوہ بار بار اس کا حال بھی دریافت فرماتی تھیں۔ آخری ایام میں بوجہ ضعف آپؓ کو نیند بہت کم آتی تھی اس لیے بیماری کے سبب اگر کسی خادمہ کو رات کے وقت جگاتیں تو پھر اس کے لیے بہت دعائیں کرتیں اور پھر دن کو بتاتیں کہ آج رات میں نے تمہارے لیے بہت دعائیں کیں۔ خدمت کرنے والی لڑکیوں کے بارہ میں اکثر کہتے سنا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں جو میری خدمت کرتی ہیں۔
مکرمہ زہرہ نسیم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے اس بات پر فخر تھا اور ہے کہ میں آپؓ کی خادمہ ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے آپؓ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن مَیں سوچتی ہوں کہ آپؓ نے مجھ پر جس قدر احسانات کیے اور میرے لیے جتنی دعائیں کیں اس کے مقابلے میں میری خدمت کیا معنی رکھتی ہے! ایک دفعہ ایک شادی کی تقریب کے موقع پر مَیں آپؓ کے ساتھ ایک ہوٹل میں گئی تو آپؓ نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور اپنے دست مبارک سے مجھے کھانا ڈال کر دیا۔ اس پر پاس بیٹھی ہوئی ایک خاتون نے بڑی حیرت سے کہا کہ آپؓ اپنی خادمہ کو اپنے ساتھ کھلاتی ہیں، مَیں تو ایسے کبھی نہ کروں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اسے مَیں نے بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا ہے، جب یہ میرا خیال رکھتی ہے تو مَیں کیوں اس کا خیال نہ رکھوں۔
محترمہ امۃالودود صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ پردہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابند ی کرتی تھیں۔ آپؓ بیمار تھیں اور روزانہ ڈاکٹر آپؓ کو دیکھنے آتا تھا، لیکن حتی الامکان ڈاکٹروں سے پردہ کرتی تھیں۔ ایک دفعہ کسی نے عرض کی کہ ڈاکٹرتوآپ کو روزانہ دیکھنے آتا ہے اور معائنہ کرتے ہوئے اور بے ہوشی کی حالت میں اس نے آپ کو دیکھا ہوا بھی ہے اس لیے اگر آپ ڈاکٹر سے پردہ نہ کریں تو کیا حرج ہے۔ فرمانے لگیں ’’اللہ تعالیٰ کا حکم ہے عورت غیرمرد سے پردہ کرے اس لیے میں کیوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نا فرمانی کروں۔ معائنہ اور بےہوشی کی حالت میں پردہ نہ کر سکنا تو ایک مجبوری ہے۔‘‘ آپؓ کے پاس جو لڑکیاں خدمت کے لیے رہتی تھیں انہیں بھی پردہ کرنے کی ہمیشہ تلقین فرماتیں اور چھوٹے دوپٹے اوڑھنے سے منع فرماتی تھیں بلکہ فرماتیں کہ تم گھر میں بھی بڑی چادر اوڑھا کرو اس میں وقار ہے۔
آپؓ میں مالی قربانی کا انتہائی جذبہ موجودتھا۔ نیکی کے کاموں میں بالعموم اخفاء ان کی عادت تھی۔ اگرچہ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق نظام وصیّت سے مستثنیٰ تھیں لیکن اس کے باوجود آپؓ چندہ عام اور حصّہ جائیداد ادا فرماتی رہیں۔ ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتیں۔ تحریک جدید کا چندہ وعدہ کے ساتھ ہی ادا کر دیا کر تی تھیں۔ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں حتیٰ کہ اپنی خادمہ محمد بی بی صاحبہ کا چندہ بھی آپؓ اپنی طرف سے ادا کرتی رہیں۔
آپ کی بیٹی مکرمہ فوزیہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ کی شادی تیرہ سال کی عمر میں ہوئی اور بتاتی تھیں کہ ہمارے گھر کا ماحول بالکل سادہ تھا۔ شادی کے بعد ایک دم جب نوابی طرزِ زندگی میں داخل ہوئی تو سٹپٹا گئی لیکن فطرتی ذہانت نے اس مرحلے سے بھی ان کو وقار سے گزار دیا۔ مثلاً ایک دفعہ ابا نے کہیں جاتے ہوئے ٹائی مانگی۔ آپؓ کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ لیکن الماری کھولی اور کپڑوں کا جائزہ لیا تو صرف ٹائی ایسی چیز نکلی جس کا آپؓ کو پتہ نہ تھا۔ وہی اٹھا کر لے آئیں۔
آپؓ سخت سے سخت حالات کا بھی بڑے صبر اور حوصلے سے مقابلہ کرتیں۔ سناتی تھیں کہ ایک دفعہ بعض حالات کی وجہ سے بڑی پریشانی تھی۔ بڑے بھائی (حضرت مصلح موعودؓ) مجھ سے بالکل باپ والی شفقت فرماتے تھے۔ مجھے الگ لے گئے اور کہا ’’حفیظ! مجھے بتاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے۔‘‘ مَیں یہ سن کر رو پڑی لیکن بولی کچھ نہیں۔ حضورؓ نے بڑے پیار سے کہا: ’’حفیظ گھبراؤ نہ بعض وقت ریس میں پیچھے رہنے والا گھوڑا سب سے آگے نکل جاتا ہے۔‘‘
حضرت سیّدہؓ کے مبارک وجود میں اپنے مقدّس والدین کا رنگ نمایاں تھا۔ آپؓ دعاؤں کا ایک بیش قیمت خزانہ تھیں اور مخلوقِ خدا کے لیے ایک درد مند دل رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا یہاں تک کہ زبان بھی مبارک تھی اور جو بات آپؓ کے منہ سے نکل جاتی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پوری فرما دیتا۔ مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنی تو آرمی میں اپلائی کیا۔ بظاہر کامیابی کی کوئی امید نہ تھی کیونکہ فارم پر احمدی لکھا ہوا تھا۔ میں نے آپؓ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا۔ خداتعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ عزیزہ نے انٹرویو اور پرچے میں بہت اچھے نمبر لیے اور منتخب کرلی گئی۔ میں نے آپؓ سے ذکر کیا تو آپؓ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے اور رقت بھری آواز میں فرمایا: بیٹی سے کہنا کہ وہ ہمیشہ احمدیت کو ہر جگہ مقدّم رکھے اور کہیں بھی کسی موقع پر احمدیت کو نہ چھپائے اور نہ گھبرائے اللہ تعالیٰ اس کی ہر جگہ مدد فرمائے گا۔
مکرم عبدالسمیع نون صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے بھانجے محمد زبیر کے والدین چند سال قبل فوت ہوچکے تھے۔ 1980ء میں وہ کینسر سے بیمار ہوا تو مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے درخواستِ دعا کی اور پھر ’بیت الکرام‘ کوٹھی پر دستک دی کہ وہاں ماں سے زیادہ شفیق ہستی رہتی تھی۔ جب میں نے دعا کے لیے عرض کیا تو چند ثانیے کے توقف کے بعد اپنے ربّ کریم پر توکّل کرتے ہوئے بڑے وثوق کے ساتھ پُر شوکت آواز میں فرمایا: ’’تم بےفکر ہو جاؤ اللہ تعالیٰ محمد زبیر کو ضرور شفا دے گا۔ سُچی بوٹی پلانا شروع کر دیں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے محمد زبیر کو معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
مکرمہ امۃالقدوس ندرت صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ امّی مجھے حضرت سیّدہ سے ملاقات کروانے لے گئیں۔ آپؓ نے میرے متعلق پوچھا تو امّی نے بتایا کہ بی اے فائنل میں ہے۔ پھر پوچھا کہ اس کا رشتہ کہیں طے ہوا ہے؟ امّی نے کہا کہ ابھی تو نہیں ہوا آپ دُعا کریں۔ اس پر آپؓ نے آنکھیں بند کیں اور کھول کر فرمانے لگیں: ’’مجھے تو اِس وقت ہی سبز جوڑے میں دُلہن بنی نظر آ رہی ہے۔‘‘ امّی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کرے۔ اس کے چند ماہ بعد ہی میرا رشتہ طے پا گیا۔ شادی کے بعد مَیں جرمنی آگئی۔ اللہ کے فضل سے ہماری شادی کو اکیس سال ہوگئے ہیں اور ماشاء اللہ ہمارے چار بچے ہیں۔
حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی وفات ۶؍مئی ۱۹۸۷ء کو بعمر ۸۳؍سال ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو تین بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا فرمائیں۔

وہ عالی جناب اور عالی مقام
کہا جس کو اللہ نے دخت کرام
نظر سے کہاں ہو گئے ہیں نہاں
گہر ہائے آغوشِ نصرت جہاں
===========
دخترِ احمدؑ ، مسیح پاکؑ کی لختِ جگر
ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات پر
پاک طینت ، با صفا ، عالی گہر ، دختِ کرام
سیّدہ کی جان ، مہدی کی حسیں نورِ نظر

اپنا تبصرہ بھیجیں