حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2010ء میں حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، نہایت بلند پایہ عالم دین، مترجم قرآن کریم، بے بدل مفسّر و محدّث اور بارھویں صدی کے مجدّد تھے۔ کنیت ابوالفیاض ہے۔ 12فروری 1703ء کو مظفرنگر کے قصبہ پھلت میں محترم شاہ عبدالرحیم صاحب کے ہاں پیدا ہوئے والدہ کا نام مہرالنساء تھا اور وہ بھی عالمہ تھیں۔ اُنہیں پہلے ہی یہ بشارت مل چکی تھی کہ اُن کے ہاں ایک ولی پیدا ہوگا۔ والد کا نسب حضرت عمرؓ سے ملتا ہے اور والدہ کا حضرت امام موسیٰ کاظم سے۔
حضرت شاہ ولی اللہ بچپن ہی سے سنجیدگی کا پیکر تھے۔ سادگی شعار تھا۔ مزاج بہت دھیما اور باوقار تھا۔ 7 برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ 14 سال کی عمر میں پہلی شادی ہوئی۔ اہلیہ کی وفات پر دوسری شادی کی تو چار بیٹے (شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی صاحبان) پیدا ہوئے اور چاروں نے آپؒ کی عظمت میں اضافہ ہی کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے ہندوستان میں قرآن کریم کا فارسی ترجمہ سب سے پہلے کرنے کی سعادت پائی۔ آپؒ نے علم تفسیر سے متعلق بھی کتب تحریر کیں جن میں ’’الفوزالکبیر فی اصول التفسیر‘‘ بہت اہم ہے۔ ’’فتح الخبیر‘‘ کے نام سے قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔
حدیث کی بھی کئی کتب تصنیف کیں جن میں سے ’’الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ میں وہ چالیس احادیث درج کیں جو آپؒ کو خواب میں بتائی گئی تھیں۔ ’’حجۃاللہ البالغہ‘‘ اور ’’تفہیماتِ الٰہیہ‘‘ بھی آپؒ کی بہت ساری کتابوں میں اہم ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات 21 اگست 1762ء کو دہلی میں ہوئی۔ تدفین دلّی دروازہ کے بائیں جانب مہندیان میں عمل میں آئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی قبر پر تشریف لے گئے تو فرمایا:
’’شاہ ولی اللہ صاحب ایک بزرگ اہل کشف اور کرامت تھے۔ یہ سب مشائخ زیرزمین ہیں اور جو لوگ زمین کے اوپر ہیں وہ ایسے بدعات میں مشغول ہیں کہ حق کو باطل بنا رہے ہیں‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کی قرآن سے محبت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ایک دفعہ بادشاہ اُن سے ملنے کے لئے آیا، وہ کھڑے ہوگئے اور بادشاہ سے ملے اور پھر بیٹھ گئے۔ پھر وزیر آیا تو آپؒ اسی طرح بیٹھے رہے، کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہ کا پہریدار آیا تو پھر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے وجہ پوچھی کہ وزیر کے اعزاز کے لئے کیوں کھڑے نہ ہوئے۔ تو آپؒ نے فرمایا کہ بادشاہ کی اطاعت کا حکم ہے اس لئے اُن کے لئے کھڑا ہوا۔ وزیر کی اطاعت کا حکم نہیں ہے اس لئے اُس کے آنے پر کھڑا نہیں ہوا۔ پھر پہریدار آیا تو اس لئے کھڑا ہوگیا کہ وہ حافظ قرآن ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں