حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب

مجلس انصاراللہ پاکستان کا تربیتی مجلہ ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ اپریل 1995ء ’’حضرت شیخ محمد احمد مظہر نمبر‘‘ ہے۔ 128 صفحات پر مشتمل اس ضخیم مجلہ میں نہایت عمدہ مضامین شامل اشاعت ہیں جو آپ کے پاکیزہ خصائل اور حسن سیرت کی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں۔
حضرت شیخ صاحب نومبر 1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص اور فدائی خادم حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ہاں پیدا ہوئے اور آپ کا نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا اور مبارکباد دیتے ہوئے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ’’خدا تعالیٰ باعمر کرے۔ آمین‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس ؑ کی دعا کو بڑی شان کے ساتھ قبول فرمایا اور آپ لمبی عمر پاکر 28؍مئی 1993ء کو فیصل آباد میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی وفات پر سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ان میں صحابہ کا سا رنگ تھا۔ اگر تابعین نے کبھی صحابہ کا سا رنگ اختیار کیا ہے تو حضرت شیخ صاحب اس کی بہترین مثال تھے … میں نے ایک نظم میں ایک شعر خاص طور پر ان کو ذہن میں رکھ کر کہا۔ وہ شعر یہ تھا:

یہ شجر خزاں رسیدہ، ہے مجھے عزیز یا رب
یہ اک اور فصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے‘‘

حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نہ صرف ایک بلند پایہ ماہر لسانیات، ممتاز قانون دان اور قادرالکلام شاعر تھے بلکہ آپ کو شاندار جماعتی خدمات کی بھی توفیق حاصل ہوئی۔ 1948ء سے تا وفات امیر ضلع فیصل آباد رہے۔ 1922ء میں مجلس مشاورت کا آغاز ہوا جس میں 1923ء سے 1983ء تک آپ اپنی جماعت کی نمائندگی فرماتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کے دوران دو سال (64ء اور 65ء میں) آپ نے مجلس مشاورت کی صدارت بھی فرمائی۔ اسی طرح مجلس افتاء کے ابتدائی رکن اور بعد ازاں سالہا سال تک صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔ دسمبر 1957ء میں وقف جدید کے اجراء پر آپ اس کے صدر مقرر ہوئے اور وفات تک اسی حیثیت سے خدمت بجا لاتے رہے۔ 1961ء میں ایک نگران بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس کے فرائض میں صدر انجمن، تحریک جدید اور وقف جدید میں رابطہ قائم رکھنا تھا، آپ اس بورڈ کے ممبر تھے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے بھی ابتدا سے ہی آپ ممبر رہے۔ صدسالہ جوبلی کمیٹی کے شروع سے آخر تک صدر رہنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل تھا۔ 1974ء میں پاکستان قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے وفد میں شمولیت کا اعزاز بھی پایا۔
حضرت شیخ صاحب کی علمی خدمات میں عربی زبان کو ام الالسنہ ثابت کرنے کے لئے 51 زبانوں پر آپ کی تحقیق بے مثال ہے۔ تصانیف میں ’’مضامین مظہر‘‘ اور شعری مجموعہ ’’درد و درماں‘‘ کے علاوہ گیارہ ایسی تحقیقی کتب شامل ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں کا منبع عربی کو ثابت کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
ایک لمبے عرصہ تک دنیا بھر کے ماہرینِ لسانیات سنسکرت زبان کو ہی ام الالسنہ قرار دیتے رہے۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے عربی زبان کو ام الالسنہ قرار دینے کے بعد حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہرؒ نے نصف صدی سے زائد عرصہ گرانقدر تحقیق میں صرف کیا اور جہاں عربی کے ام الالسنہ ہونے کے حق میں دلائل دیئے وہاں سنسکرت کے حوالہ سے بطور سند پیش کئے جانے والے یورپین ماہرین کے حل الفاظ کی ایسی ایسی غلطیاں پکڑیں کہ اُن کی حیثیت طفل مکتب بن کر رہ گئی۔
مصر کے سابق سفیر جناب محمد عزالدین شرف جب وہ دوسری بین الاقوامی اسلامی تعلیمی کانفرنس کے سلسلہ میں اسلام آباد (پاکستان) آئے تو انہوں نے اپنے انٹریو میں آپ کے بارہ میں پاکستانیوں سے کہا: ’’آپ کے ایک نہایت ممتاز سکالر ہیں… انہوں نے اس موضوع پر نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے… میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس بارہ میں سبقت لے گیا ہے۔‘‘
حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحبؒ نے دنیا کی 51؍ زبانوں کے ایک لاکھ پندرہ ہزار الفاظ کی جڑوں تک پہنچ کر اُن کے عربی روٹ ثابت کئے ہیں۔
حضرت شیخ صاحبؒ کے عظیم الشان کام کے بارہ میں مکرم ایس خالد صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍ جولائی 1996ء کی زینت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں