حضرت صاحبزادہ پیر محمد سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ
حضرت صاحبزادہ پیر محمد سراج الحق نعمانیؓ کا تعلق سرسادہ ضلع سہارنپور سے تھا اور آپ کا خاندان نسل در نسل گدی نشین چلا آرہا تھا۔ آپ کے والد نے پہلے آپ کا نام نصیرالدین رکھا اور پھر بدل دیا۔ آپؓ کے والد بچپن میں ہی آپ کو اپنے ہمراہ جنگلوں میں لے جاتے اور مجاہدے کرواتے اور بار ہا فرماتے کہ سراج الحق! تیری قسمت میں ایک ایسی نعمت ہے جو ہمیں نصیب نہیں ہو گی۔
آپ کو بچپن سے قرآن کریم پڑھنے کا ایساشوق تھا کہ کئی سال تک روزانہ قرآن شریف ایک بارختم کیا۔ نفلی نمازوں سے بھی خوب رغبت تھی۔ بے شمار چلّے بھی کئے اور جو وظائف آپ ایک لمبا عرصہ کرتے رہے وہ آپ کی اس تڑپ کا پتہ دیتے ہیں جو تعلق باللہ کیلئے آپ کے دل میں موجزن تھی۔ نیز یہ دعا بھی خشوع سے کیا کرتے کہ اگر مہدی علیہ السلام اس زمانہ میں پیدا ہوں تو خدا ان کی زیارت کروائے۔
ایک روز ایک دوست نے حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا پرانا قصیدہ آپ کو دیا جس کے حساب سے امام مہدی ؑ پیدا ہوچکے تھے۔ آپؓ روز انہ ا سے پڑھتے اور چومتے اور روتے۔ جب 1889ء میں بیعت اولیٰ ہوئی تو آپؓ لدھیانہ میں تھے۔ آپ کی اس درخواست کو حضرت اقدس علیہ السلام نے قبول فرمایا کہ آپؓ قادیان پہنچ کر بیعت کریں گے۔ چنانچہ آپؓ نے 23؍دسمبر 1889ء کو بیعت کی سعادت پائی۔
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو حضور علیہ السلام سے 1882ء سے تعلق خاطر تھا اور حضورؑ اپنی ہرکتاب اور اشتہار آپؓ کو بھجوایا کرتے تھے۔ آپؓ کا دل نور یقین سے اس قدر بھرا ہوا تھا کہ بیعت سے قبل بھی حضورعلیہ السلام کے ہر دعویٰ کو بلا تردّد قبول کرنے کی توفیق پائی۔ ستمبر 1899ء میں آپؓ ہجرت کرکے قادیان آبسے۔ آپؓ حضور اقدس کی تحریرات کی نقول تیار کرتے ، علمی مضامین اور خط و کتابت کا فریضہ سرانجام دیتے اور سفر و حضر میں حضورؑ کی مصاحبت میں رہتے۔ 1896ء میں آپ کو یہ بھی سعادت حاصل ہوئی کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مضمون نقل کریں۔
آپؓ خود گدی نشین اور پیر خاندان سے تھے اور قبول احمدیت کی سعادت پانے کے بعد آپؓ نے اپنے سلسلہ پیری مریدی کو خود ختم کردیا تھا۔ اور پھر آپؓ نے کئی علماء اور گدی نشینوں کو دعوت حق بھی دی جن میں آپ کے ہم زلف مولوی رشید احمد گنگوہی بھی شامل تھے۔
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو حضورؑ کے پاؤں دبانے کی سعادت بھی بارہا حاصل ہوئی۔ ایک روز آپؓ نے خدمت اقدس میں عرض کیا کہ جب بھی حضورؑ کے قدم مبارک دبانے کا موقع مل جاتا ہے تو کئی کئی روز تک ایک لذت رہتی ہے اور ماسوائے اللہ کے تمام شاخیں کٹ جاتی ہیں اور اللہ کی محبت اور نماز میں ذوق و شوق اور لذت و سرور حاصل ہوجاتا ہے پس مجھے ہر روز دبانے کی اجازت مل جاوے۔ حضور نے ہنس کر فرمایا: اچھا جب تم کو فرصت ہو تو دبادیا کرو۔
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو ایک بار نزلہ کی ایسی شدیدشکایت ہوئی جو چار برس تک رہی۔ دودھ پینا اور خوشبو سونگھنا زہر بن جاتا۔ ایک روز بعد نماز عشاء مسجد مبارک کی شہ نشین پر حضورؑ اپنے صحابہؓ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ حضورؑ نے دودھ طلب فرمایا اور ایک گھونٹ خود پی کر گلاس آپؓ کے ہاتھ میں دے کر فرمایا: ’’پی لو‘‘۔ آپؓ نے اپنی بیماری کا عرض کیا تو فرمایا: ’’خیر پی بھی لو، کاہے کا زکام وکام‘‘۔ اس پر آپؓ نے سارا گلاس پی لیا اور فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نزلہ نہیں ہوا۔
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ اپنی خود نوشت سوانح ’’تذکرۃ المہدی‘‘ میں بے شمار واقعات بیان کرتے ہیں۔ قادیان کے ساتھ دارالامان لکھنے کی تجویز آپؓ کی ہی تھی جو حضورؑ نے منظور فرمائی۔ جماعت کا نام ’’احمدی‘‘ رکھنے کی تجویز بھی آپؓ نے ہی 1901ء کی مردم شماری کے موقعہ پر خدمت اقدس میں پیش کی تھی۔
حضورؑ کی مجالس میں آپؓ کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے اور حضور کے کئی الہامات و کشوف کے وقت بھی آپؓ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب پیشگوئی ’’پسرموعود‘‘ کا اعلان فرمایا تو اس کے نشانات صداقت کے طور پر آپؓ کو گواہ بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو پسر موعود کا زمانہ بھی دکھایا اور آپؓ اس عظیم نشان کے عینی گواہ بنے۔
حضور علیہ السلام کے ساتھ آپؓ کے پاکیزہ تعلق کی جھلک آپؓ کی تصنیف ’’تذکرۃالمہدی‘‘ میں درج ہے۔ حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کے حالات اختصار کے ساتھ محترم نصراللہ خان ناصر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر 1996ء میں شامل اشاعت ہیں۔
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ 3؍جنوری 1935ء کو 80 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔