حضرت صاحبزادی سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 13؍جنوری2025ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ عابدہ خان صاحبہ نے اپنے مضمون میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ آپ کی یاد آتے ہی دل میں ایک خوبصورت نفیس سے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ بچپن کا دَور تھا پھر بھی ایک کشش تھی جو مجھے آپ کی طرف لے جاتی تھی۔ چونکہ ہم محلہ دارالنصر میں رہتے تھے اور ہمارے گھر سے آپ کے گھر کا کافی فاصلہ ہوا کرتا تھااس لیے جب بھی اُدھر جانا ہوتا میری امی جان کی شدید خواہش ہوتی کہ آپ سے مِل لیا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم جب بھی جاتے دوتین خواتین پہلے سے ہی ملاقات کے لیے بیٹھی ہوتیں۔ آپ سب کو بہت محبت سے ملتی تھیں اور ہمیشہ موسم کے مطابق مہمانوں کی تواضع کرتیں۔ اکثرخواتین اپنے مسئلے مسائل بھی بتایا کرتیں،آپ سب کی باتیں سنتیں اور ساتھ ہی اُن کا حل بھی بتاتیں۔ ہماری امی جان بھی دعا کی درخواست کرتیں۔ اگر گھر کی کوئی پریشانی یا خاندان میں کوئی مسئلہ ہوتا تو ہمیشہ آپ کو دعا کے لیے کہا کرتی تھیں۔ آپ امی کو تسلی دیتیں اور ایسا لگتا جیسے اسی وقت دعا کرنے لگ گئی ہوں۔ جب میرے امتحان قریب ہوتے تو امی مجھے بھی کہتیں کہ آپا جان کودعا کے لیے کہو۔ ملاقات کے وقت مَیں خاموشی سے آپ کو دیکھے جاتی۔ فرشتوں جیسا نُور آپ کے چہرہ پر ہوتا۔ آپ بہت خوش لباس بھی تھیں۔ آج جبکہ مَیں خود ایک گھریلو خاتون ہوں سوچتی ہوں کہ اگر کوئی اچانک آجائے تو کبھی کبھی ہم اپنی مصروفیات کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ مہمان اطلاع دے کر آئے مگر آپ کا وجود ایسا پیارا تھا کہ چاہے کوئی ضروری کام کر رہی ہوتیں یا آرام کر رہی ہوتیں جب بھی کوئی آتا تو نہایت خوش دِلی سے ملتیں۔
آپ لمبے عرصے تک ربوہ کی صدر رہیں۔ اس دوران جس محنت اوربےپناہ لگن سے کام کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ اکثر حلقوں میں دورہ کیا کرتیں تو تمام لجنہ و ناصرات آپ کو دیکھنے اور مصافحہ کرنے کے لیے بے چین ہو جاتیں۔ آپ مُسکراتی جاتیں اور سب آپ سے مصافحہ کرتے۔ ہم چونکہ چھوٹی ناصرات تھیں اس لیے ہم بار بار آپ سے مصافحہ کرلیتے۔ گویا ایک پیاس تھی جو بجھتی نہ تھی۔ پھر آپ تشریف فرما ہوتیں اور بہت پُراثر انداز میں تقریر فرماتیں۔ تقریر زبانی کیا کرتیں اور اپنی تقریروں میں ہمیشہ لجنہ و ناصرات کی تربیت پر زور دیتیں اور دعا کی تحریک کرتیں۔
جب خاکسار حلقہ کی لجنہ کی جنرل سیکرٹری تھی تو آپ کے گھر پر ہونے والی میٹنگز میں بارہا شامل ہوئی۔ ربوہ کی شدید گرمی میں آپ کا گھر کسی جنت سے کم نہیں تھا۔ وسیع و عریض ہال میں سب جمع ہوتے، ٹھنڈے مشروب سے مہمانوں کی خاطر کی جاتی، رپورٹیں جمع کی جاتیں۔ مسائل پیش ہوتے۔ بعض لوگ لمبی بات کرتے لیکن آپ ہر ایک کی بات بہت غور سے سنتیں اور مسئلہ کاحل نکالتیں۔ ہر وقت خواتین کی تربیت اور بہتری کی فکر میں رہتیں۔ اُن دنوں نصرت سکول میں سالانہ مشاعرہ اور گیمز وغیرہ میں بھی آپ کو بطورمہمان خصوصی مدعو کیا جاتا۔ آپ خوش دلی سے دعوت قبول کرتیں اور تشریف لاکر بہت عمدہ نصائح فرماتیں۔ ایک دفعہ فرمایا: تم سب کودعاکی عادت ہونی چاہیے اور جو بھی مانگنا ہو ہمیشہ اللہ سے مانگو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں