حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم اکتوبر 2021ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 15؍مارچ 2013ء میں مکرم حافظ میم الف صاحب کے قلم سے آنحضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطّلب کی سیرت و سوانح پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
دراز قد، خوبصورت شکل ،گورا رنگ، یہ تھے رسول خدا ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف، جوعمر میں آپؐ سے دو تین سال ہی زیادہ تھے۔ ان کی والدہ نتیلہ بنت خباب بن کلیب وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو ریشمی غلاف چڑھایا۔ کنیت ابو الفضل تھی۔ زمانہ جاہلیت سے قریش کے رؤسا میں سے تھے۔ بنوہاشم کے سپرد بیت اللہ کی ’’خدمت سقایہ‘‘ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور ’’عمارۃ المسجد الحرام‘‘ یعنی بیت اللہ کی آبادی اور قیامِ امن انہوں نے ورثہ میں پائی۔ دیگر تمام سردارانِ قریش اس خدمت میں حسب معاہدہ ان کے معاون ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے مکہ میں ایک شرف کا مقام انہیں حاصل تھا۔
بالعموم حضرت عباسؓ کا زمانہ اسلام ان کی ہجرت مدینہ کے وقت خیال کیا جاتا ہے جو فتح مکہ سے معاً پہلے ہوئی لیکن فی الواقعہ انہوں نے مکہ میں بہت ابتدائی زمانے میں اپنی بیوی اُمّ الفضلؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر بیت اللہ کی اہم خدمات کی سعادت اور مکہ میں مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے حضرت عباسؓ کا مکہ میں رہنا ایک دینی ضرورت تھی۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق مکہ میں ہی رہ کر اہم خدمات بجالاتے رہے۔
حضرت عباسؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کی روایت ہے کہ ان کے والد حضرت عباسؓ ہجرت مدینہ سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے دوسری روایت کے مطابق اُمّ الفضلؓ کے ساتھ ہی حضرت عباسؓ نے بھی اسلام قبول کیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابورافعؓ بیان فرماتے ہیں: مَیں حضرت عباسؓ کا غلام تھا اور ان کے سارے گھرانے بشمول حضرت عباسؓ ان کی بیوی اُمّ الفضلؓ اور مَیں نے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر عباسؓ کو(اپنے منصب کی وجہ سے) قوم قریش سے خدشات تھے او روہ ان کی اعلانیہ مخالفت پسند نہیں کرتے تھے اس لیے انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا۔
یہ بھی روایت ہے کہ اُمّ الفضلؓ مکہ میں حضرت خدیجہؓ کے معاً بعد اسلام لائی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور آرام فرماتے تھے۔
ابتدائی زمانہ میں حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کے لیے حضرت عمرؓ کی کوششوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو بالآخر کامیاب ہوئیں۔ حضرت عمرؓان سے اپنی دوستی کی وجہ سے کہتے تھے کہ ’’آپ مسلمان ہو جائیں آپ کا قبول اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘۔ چنانچہ جب حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺ بھی بہت خوش ہوئے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام ابور افعؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی خبردی جس پر خوش ہو کر رسول کریم ﷺ نے انہیں آزاد کر دیا۔
پس رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ کے بعد مکّہ میں حضرت عباسؓ کا قیام رسول کریم ﷺ کی اجازتِ خاص کے ماتحت تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے بعد مکہ میں کوئی خبر رسول اللہ ﷺپر مخفی نہیں رہتی تھی۔ حضرت عباسؓ سب حالات آپ کو لکھ کر بھجواتے تھے۔ نیز ان کی موجودگی سے مکّہ میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کو مدد اور تقویت حاصل ہوتی تھی۔ حضرت عباسؓ آپؐ سے مدینہ آنے کی اجازت طلب کرتے رہتے تھے۔ مگر رسول کریمؐ نے آپ کو یہی لکھا کہ ’’آپ کا وہاں ٹھہرنا عمدہ جہاد ہے۔‘‘ چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کے ارشاد پر مکہ ٹھہرے رہے۔
آنحضورﷺکی ہجرتِ مدینہ سے قبل حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی روایت زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ شعب ابی طالب کے زمانہ میں حضرت عباسؓ نے رسول کریم ﷺ کا کھل کر ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ تین سال تک وہاںمحصور رہے جبکہ بنو ہاشم میں سے بعض دیگر ابو لہب وغیرہ کھل کر مخالفت کرتے رہے۔ محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران رسول کریم ﷺ نے اپنی چچی اُمّ الفضلؓ کو بیٹے کی بشارت دی انہوں نے حضرت عباسؓ کو جاکر بتایا تو وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ نے ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اپنے دائیں بٹھایا اورفرمایا ’’یہ میرے چچا ہیں۔ جو چاہے وہ اپنا ایسا چچا مقابلہ پر لائے‘‘۔ حضرت عباسؓ نے جھینپتے ہوئے عرض کیایارسولؐ اللہ!۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’مَیں یہ کیوں نہ کہوں جبکہ آپ میرے چچا اور میرے والد کی نشانی ہیں اور چچا بھی والدہوتا ہے۔‘‘ پھر محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران ہی اُمّ الفضلؓ کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا،اس کا نام آپؐ نے عبداللہ رکھا اور خود اسے گڑتی دی۔ حضرت عبداللہؓ معروف عالم باعمل بزرگ ہوئے۔ حضرت عباسؓ کی تین شادیوں سے کئی بیٹیوں کے علاوہ دس بیٹے تھے۔
حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد مدینہ ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺکا قابل اعتماد ٹھکانہ حضرت عباسؓ کا گھر تھا جہاں ذوالحجہ12ھ میںانصار کے نمائندوںنے آکر ملاقات کی اور حضرت عباسؓ کے مشورہ سے ہی حج کے بعد منیٰ کی رات ایک پہاڑی گھاٹی میںمخفی اورمحدود ملاقات طے ہوئی۔ عقبہ میں بارہ انصار کی اس پہلی بیعت سے قبل رسولؐ اللہ کے خیر خواہ اور نمائندہ کے طورپر حضرت عباسؓ ہی شریک ہوئے ۔ انہوں نے انصار سے کھل کر یہ بات کی کہ آپ لوگ رسول کریمؐ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے ہیں اور محمدؐ ہم میں سب سے معزز اور قابل احترام ہیں۔ قبیلہ ان کی مکمل حفاظت کرتا ہے۔ اب تمہارا ان کو مدینہ لے کر جانا پورے عرب سے کھلم کھلا اعلان جنگ ہوگا۔ کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو؟ جب انصارمدینہ نے اپنے دلی جذبات کا مخلصانہ اظہار کیا اور رسول اللہ کی اطاعت و وفا اور حفاظت کا یقین دلایا تو نبی کریمؐ نے کچھ وعظ کرنے کے بعد ان کی بیعت لی۔ اس بیعت میں بھی حضرت عباسؓ نہ صرف شامل ہوئے بلکہ ابن سعد کی روایت ہے کہ انہوں نے اس تاریخی بیعت کے وقت رسولؐ اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنا عہد بیعت ازسرنو تازہ کیا۔
بعد کے زمانہ میں جب انصار مدینہ میں یہ سوال اٹھا کہ اس موقع پرسب سے پہلے کس نے بیعت کی تھی؟تو سب کی رائے ہوئی کہ حضرت عباسؓ سے پوچھا جائے۔ انہوںنے اپنے ساتھ جن انصار کے حق میں بالترتیب رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی گواہی دی وہ حضرت براءؓ، حضرت ابوالہیثمؓ اور حضرت اسعدؓ تھے۔
اگلے سال حج کے موقع پرپھر ستر انصارجب اسی گھاٹی میں اکٹھے ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تو صر ف حضرت عباسؓ رسول کریم ﷺکے ہمراہ تھے ۔آپؐ نے انصار سے فرمایا کہ ’’مشرکین کے جاسوس تمہارے پیچھے ہیں۔ اس لیے تمہارے نمائندے مختصر بات کریں تاکہ مشرک تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں۔‘‘
ابن اسحاق کی کعب بن مالکؓ سے یہ روایت محل نظر ہے کہ بیعت عقبہ کے وقت حضرت عباسؓ اپنے دین پر تھے اورمحض اپنے بھتیجے کی تائید کے لیے آئے تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تائید کے لیے آئے تھے اور ابن اسحاق کی یہ رائے حضرت عباس ؓ کے اسلام مخفی رکھنے کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ اس شدید مخالفت کے زمانے میں ان کی یہی حکمت عملی رہی، انہوں نے اہل مدینہ کو عقبہ کی رات بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج رات مکے والوں نے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں تم اپنی سواریوں کی گھنٹیاں بھی اتار دینا اور بیعت کے بعد اپنا معاملہ مخفی رکھنا۔ ورنہ مجھے تمہارے بارے میں خوف ہے‘‘۔ چنانچہ اہل مدینہ نے حضرت عباسؓ سے یہ سب کچھ مخفی رکھنے کا وعدہ کیا۔
عقبہ ثانیہ کے بعد کفار مکہ کے سخت ردّعمل سے بھی حضرت عباسؓ کے اخفاء کی حکمت سمجھ آجاتی ہے۔ رسول کریم ؐ نے لیلۃالعقبہ میں حضرت عباسؓ کی مکمل تائید و حمایت کو ہمیشہ یاد رکھا۔آپؐ فرماتے تھے ’’اس رات میرے چچا عباسؓ کے ذریعہ میری تائیدو نصرت کی گئی‘‘۔
حضرت عباسؓ اپنے مخفی اسلام کی وجہ سے ہی جنگ بدر میں پہلے پہل لشکر کفار میں شامل نہیں ہوئے جب لشکر مرّا لظہران مقام پر پہنچا تو ابو جہل نے کہا کہ بنو ہاشم کے لوگوں کا اس لشکر میں شامل نہ ہونا فتح یا شکست دونوں صورتوں میں تمہارے لیے نقصان دہ ہے۔پس جیسے بھی ہو ان کو اس جنگ میں ضرور شامل کروخواہ زبردستی نکال کر ساتھ لے آئو ۔چنانچہ اہل مکہ واپس جاکر حضرت عباسؓ اور دیگر افراد بنو ہاشم کو ساتھ لائے اور انہیں لشکر کفار میں شامل کیا۔ ادھر رسول کریم ﷺکوبھی اس کی اطلاع ہو گئی۔ چنانچہ حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا ’’مجھے خوب علم ہے کہ بنی ہاشم وغیرہ کے بعض لوگ مجبور اً جنگ کے لیے مکہ سے نکالے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے جنگ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے جو عباس، طالب،عقیل اور نوفل کو جنگ میں پائے انہیں قتل نہ کرے۔‘‘
بنو ہاشم کے مجبوراً جنگ میں شامل ہونے کے باوجود قریش کو اندیشہ ہائے دورودراز تھے کہ وہ کہیں رسولؐ اللہ کی تائید کرتے ہوئے انہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ چنانچہ انہوں نے دوران جنگ بنوہاشم کو حکیم بن حزام کے زیر نگرانی ایک الگ خیمہ میں رکھنے کا احتیاطی انتظام کیاتھا۔ پھر جنگ کے دوران جب حضرت عباسؓ اور عقیلؓ کو عبیدؓ بن اوس انصاری نے گرفتار کیا تو رسول کریم ﷺ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی جانیں بچ گئیں اور عبیدؓ کو فرمایا کہ ان دونوں کی(صحیح سالم)گرفتاری کے لیے فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ان کی حفاظت کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔)
جنگ کے بعد حضرت عباسؓ نے پھرواپس مکہ جاکر اپنے مفوضہ فرائض انجام دینے تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ان کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے ان سے دیگر کفار قیدیوں جیسا معاملہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عباسؓ سے دیگر قیدیوں کا ساسلوک کرتے ہوئے رسیوں میں جکڑ کر باندھا گیا۔ رسول کریم ﷺکو اپنے مسلمان چچا کے قیدمیں جکڑے ہونے کی حالت میں کراہنے کی آواز سن کر بے چینی سے نیند نہیں آرہی تھی۔ صحابہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت عباسؓ کے بندھن ڈھیلے کر دیے۔ رسول کریم ﷺکو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو۔ رہائی کے لیے حضرت عباسؓ سے فدیہ کا مطالبہ بھی اسی لیے تھا کہ انہیں دیگر قیدیوں جیسا ہی سمجھا جائے۔ اس پر وہ خود تعجب سے کہہ اٹھے ’’یارسولؐ اللہ! مَیں تو دل سے مسلمان ہوں۔مجھے مجبوراًجنگ میں لایا گیا ہے۔‘‘ نبی کریمؐ نے کیا پُرحکمت جواب دیا۔فرمایا : ’’اللہ آپ کے اسلام کو جانتا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو اللہ تعالیٰ آپؓ کو ضرور اس کی جزا عطا کرے گا۔مگر ہم تو ظاہر پر فیصلہ کریں گے اس لیے آپ اپنا فدیہ ادا کریں۔‘‘ چنانچہ ان سے 20اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا۔یہ ایک مضبوط حکمت عملی تھی تاکہ اس کے بعد بھی حضرت عباسؓ مکہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کے لیے کام کر سکیں۔ بعض صحابہ نے اس حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے ، حضرت عباسؓ کے مسلمان ہونے کے ناطہ سے رسول کریمؐ سے درخواست بھی کی کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے لیکن رسول کریمؐ نے بوجوہ یہ درخواست قبول نہیں فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کے مطابق اس کے بعد حضرت عباسؓ کو اس فدیہ سے کئی گنا زیادہ مال عطا کرنے کے سامان ہوئے ۔جیسا کہ اسیر ان بدر کے بارہ میں سورت انفال کی آیت71میں بھی وعدہ تھا۔حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت عباسؓ اور دیگر اسیران بدر کے بارہ میں اتری تھی کہ ’’اے نبی! تمہارے ہاتھ میں جو قیدی ہیں انہیں کہہ دے کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں ‘خیر’ معلوم کرے گا تو جو (فدیہ) تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ خود حضرت عباسؓ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا تھا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس غلام عطا کیے جن میں سے ہر ایک کی قیمت بیس اوقیہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے زمزم عطا کیا جو مکہ کے سب اموال سے بڑھ کرمجھے عزیز ہے (ابو لہب کی موت کے بعد یہ ذمہ داری براہ راست حضرت عباسؓ کے حصہ میں آئی تھی)۔ اور اب مَیں اپنے ربّ کی طرف سے اس آیت میں کیے گئے آخری وعدہ مغفرت کا امیدوار ہوں۔
فتح بحرین کے بعد جب اموال غنیمت آئے تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ اس میں سے جتنا چاہیںلے لیں۔ حضرت عباسؓ نے ایک گٹھڑی بنالی جو اتنی بھاری تھی کہ اکیلے اٹھا نہ سکے اور رسول کریمؐ سے کہا کہ اٹھوادیں۔ حضوؐر مسکرائے اور فرمایا کہ گٹھڑی کو ہلکا کرکے جتنی طاقت ہے اتنا خود ہی اٹھائیں۔ حضرت عباسؓ یہ مال لے کر کہتے جاتے تھے کہ اللہ کا وعدہ تھا جو پورا ہوا کہ ’’جو تم سے لیا اس سے بہتر دے گا۔‘‘
بدر کا بدلہ لینے کے لیے کفار مکہ نے اگلے سال پھر جنگ کی تیاری کی اور اُحد کا معرکہ پیش آیاجس کے لیے تین ہزار کا لشکر لے کر وہ مکہ سے نکلے جس میں تین ہزار اونٹ سات سو زرہ پوش اور دو سو گھڑسوار تھے۔حضرت عباسؓ نے یہ تیاریاں دیکھیں تو بنی غفار کا ایک شخص اس شرط سے اجرت پر لیا کہ وہ ان کاخط تین دن کے اندررسول کریم ﷺ کو مدینہ پہنچائے۔ اس میں اطلاع تھی کہ قریش کا تین ہزار کا مسلح لشکرمدینہ کی طرف روانہ ہوچکا ہے آپ اپنا انتظام کرلیں۔ قباء میں حضوؐر کو یہ خط ملا توآپؐ نے فوری طور پر صحابہ ؓسے مشورہ کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺنے نواح مدینہ کے حالات معلوم کرنے کے لیے کچھ لوگ مقرر کر دیے جو آپؐ کو تازہ خبر پہنچاتے رہیں اور مدینہ کی حفاظت اور پہرے کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور بالآخر مسلمانوں کے مشورے سے مدینہ کے باہر جاکر دشمن کے مقابلہ کا فیصلہ کیا گیا اور احد میں یہ معرکہ پیش آیا۔ اس طرح حضرت عباسؓ کی بروقت اطلاع سے مدینہ اچانک حملہ سے محفوظ رہا۔
فتح خیبر کے موقع پر حضرت عباسؓ مکہ میں ہی تھے ۔ایک شخص حجاج نامی نے مسلمانوں کی شکست کی خبر اڑا دی۔حضرت عباسؓ سخت پریشان ہوئے۔ بعد میں خیبر کی فتح کا علم ہوا تو رسول کریمؐ سے ملاقات کے لیے مکہ سے روانہ ہوئے ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ سے جحفہ مقام پر ان کی ملاقات ہوئی۔ نبی کریمؐ نے حضرت عباسؓ کو غنیمت خیبر سے حصہ عطا فرمایا اور دوسو وسق (قریباً نو صد من)کھجور سالانہ بھی مقررفرمائی۔ اس کے بعد حضرت عباسؓ جملہ غزوات فتح مکہ،حنین،طائف اور تبوک میں رسول کریمؐ کے ساتھ شریک رہے۔
سفر فتح مکہ میں جب حضرت عباسؓ کی جحفہ میں رسول کریم ﷺسے ملاقات ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ اے میرے چچا! آپ ہجرت میں اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں۔
گویا حضرت عباسؓ کا ارادہ ہجرت کے باوجود رسولؐ اللہ کے ارشاد پر مکہ میںرہ کر اہم ذمہ داریاں ادا کرنا آپؐ کی ہجرت کی شان بڑھا گیاکہ آپ سب مہاجرین میں ہجرت کے لحاظ سے بلند مرتبہ اور افضل ٹھہرے۔
فتح مکہ کی رات جب حضرت عمرؓ گشت کے دوران ابوسفیان کو گرفتار کر لائے تو حضرت عباسؓ نے اسے پناہ دی اور یوں مکہ کی قیادت اس طرح ٹوٹ گئی کہ فتح مکہ کے موقع پر کفار کی طرف سے کوئی بڑی مزاحمت نہ ہوسکی۔
غزوہ حنین میں حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ ہوکر لڑے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ‘‘میں اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو سفیان بن حارث آپؐ کے ساتھ چمٹے رہے اور آپؐ سے کسی حال میں جدا نہیں ہوئے۔ حضوؐر سفید خچر پر سوار تھے۔ حضرت عباسؓ نے اس کی لگام تھام رکھی تھی ۔ بنوہوازن کے تیر اندازوں کے اچانک حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت عباسؓ جو بلند آواز تھے وہ کمال حکمت سے جوش دلا کر اصحاب رسول ﷺ کو آواز دینے لگے کہ کہاں ہیں حدیبیہ کے موقع پر بیعت کرنے والے ؟حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میری اس آواز پر صحابہ میدان میں اس طرح واپس پلٹے جیسے گائے اپنے بچے کی آواز پرپلٹتی ہے۔وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے آئے اور کفار سے ڈٹ کرمقابلہ کرنے لگے۔ پھر حضرت عباسؓ نے انصارکو آواز دی۔ پھر باری باری ان کے قبائل کے نام لے کر بلایا یہاں تک کہ میدان جم گیااور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اب میدان جنگ خوب تپ گیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے کنکروں کی مٹھی لے کر کفار پر پھینکی اور فرمایا: ’’محمد ﷺکی قسم! اب یہ پسپا ہوگئے۔‘‘
رسول کریم ﷺحضرت عباسؓ کی بہت عزت اور اکرام فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:’’عباسؓ میرے بقیہ آباواجدادمیں سے ہیں۔ جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور چچا بھی باپ کے قائمقام ہوتا ہے۔‘‘
حضرت عباسؓ نہایت دانش مند اور صائب الرائے تھے اور خاندان قریش کے رحمی رشتوں کے نمائندہ اور ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے والے تھے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا عباسؓ قریش میں سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ستر غلام آزاد کیے۔
رسول اللہ ﷺکے ہاں حضرت عباسؓ کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا اور صحابہؓ ان کی یہ فضیلت خوب پہچانتے تھے۔ وہ ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عباسؓ بیمار ہوئے اور موت کی تمنا کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور فرمایا ’’موت کی تمنا نہ کرو کیونکہ اگر تو تم نیک ہو اور تمہیں اور مہلت مل جائے تو مزید نیکیوں کی توفیق مل جائے گی اور اگر معاملہ برعکس ہے اور پھر تمہیں مہلت مل گئی تو شاید اپنی کوتاہیوں سے معافی کی توفیق مل جائے اس لیے موت کی خواہش نہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺکی دعا سے صحت یاب ہوئے اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا زمانہ پایا۔ صحبت رسول ﷺکے نتیجہ میں انہیں دین کی گہری سمجھ عطا ہوئی اور وہ راضی برضا ہوگئے تھے۔ ان سے مروی احادیث سے بھی یہ بات جھلکتی ہے کہ ان کے رجحانات اور احساسات و خیالات کیسے پاکیزہ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا: ’’اس شخص نے ایمان کا مزا چکھ لیا جواللہ کو ربّ، اسلام کو دین او رمحمد ﷺ کو رسول ماننے پر راضی ہوگیا۔‘‘
حضرت عباسؓ نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺسے عرض کیا کہ ’’مَیں آپ کا چچا ہوں اور عمر رسیدہ، موت کے قریب ہوں، آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو اللہ کے ہاں مجھے فائدہ دے‘‘۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’اے عباس! تُو میرا چچا ہے اور مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا لیکن تم اپنے ربّ سے یہ دعا کیا کرو۔ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ الۡعَفۡوَ وَالۡعَافِیَۃَ اے اللہ میں تجھ سے عفو وعافیت کا طلبگار ہوں۔‘‘یہ بات حضورؐ نے تین بار فرمائی۔ سال گزرنے پر انہوں نے پھر یہ سوال کیا توآپؐ نے یہی جواب دیا۔
حضرت عباسؓ صاحبِ رؤیا و کشوف تھے۔ رسولؐ اللہ کی وفات کی پیشگی خبر انہیں بذریعہ رؤیا ہوئی جو انہوں نے خود رسول کریم ﷺ سے بیان کی کہ میں نے سورج یا چاند کو دیکھا کہ شایداسے مضبوط رسیوں کے ساتھ زمین سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’اس سے مراد تمہارا بھتیجا ہے۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے اپنے اہل بیت کے بارہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ میرے اہل بیت اور ان کے قرابت داروں سے میری وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘
رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعدحضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے زمانہ میں جب حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت کی طرف سے وراثت رسول کا سوال اٹھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ’’رسول کریم ؐ نے فرمایا تھا کہ ہمار ا ترکہ صدقہ ہوگا اور محمدؐ کے اہل بیت اس میں سے اپنے گزارے کے اخراجات لیا کریں گے۔میرا فیصلہ بھی یہی ہے باقی جہاں تک رسول اللہ ﷺکے قرابت داروں کا تعلق ہے خدا کی قسم! رسول اللہ ﷺکے قرابت دار مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے بڑھ کر پیارے ہیں‘‘۔ حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت نے یہ فیصلہ بسروچشم قبول کیا۔
حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کی بہت قدرو منزلت فرماتے تھے۔جب مدینہ میںقحط ہوتا تو حضرت عمرؓ،حضرت عباسؓ کے نام کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔چنانچہ 17ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شدید قحط پڑا تو حضرت کعبؓ نے کہا اے امیر المومنین! بنی اسرائیل میں جب اس قسم کی مصیبت آتی تھی تو وہ انبیاء کے کسی قریبی رشتہ کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکے چچا ان کے والد کے قائمقام اور بنی ہاشم کے سردار موجود ہیں۔چنانچہ وہ حضرت عباسؓ کے پاس تشریف لے گئے اور قحط کی شکایت کی، پھر حضرت عباسؓ کو ساتھ لے کر منبر رسول ﷺپر آئے اور یہ دعا کی: اے اللہ ہم اپنے نبی ﷺ کے چچا (جو اُن کے با پ جیسے ہیں)کا واسطہ لے کر تیرے دربار میں حاضر ہیں تُو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ کر۔ پھرحضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا: اے ابوالفضل! اب آپ کھڑے ہوکر دعا کریں۔چنانچہ حضرت عباسؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد بڑی درد بھری دعا کی: اے اللہ!تیرے پاس بادل بھی ہیں اور پانی بھی،پس بادلوں کو بھیج اور ان سے ہم پر پانی نازل فرما اور اس کے ذریعہ جڑوں کو مضبوط کر اورجانوروں کے تھنوں میں سے دودھ بھردے۔اے اللہ!تو کوئی مصیبت کسی گناہ کے بغیر نازل نہیں فرماتا اور سوائے توبہ کے اسے دُور نہیں کرتا اور پوری قوم تیری طرف رُخ کرکے آئی ہے پس ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمارے نفوس اور گھروں کے حق میں ہماری شفاعت قبول فرمالے، اے اللہ! ہم تجھے اپنے جانوروں اور چارپایوں میں سے ان کا بھی واسطہ دیتے ہیںجو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے،اے اللہ!ہمیں خوب اطمینان بخش اور نفع رساں برسنے والے اور عام موسلا دھاربادل سے سیراب کر۔اے اللہ !ہم سوائے تیرے کسی سے امید نہیں کرتے ،نہ تیرے سوا کسی سے دعا کرتے ہیں اور نہ ہی تیرے سوا کسی سے رغبت رکھتے ہیں۔اے اللہ! ہم ہر بھوکے کی بھوک کا شکوہ اور ہرننگے کے ننگ کی شکایت تجھ سے کرتے ہیں۔ ہر خوف زدہ کے خوف اورہر کمزور کی کمزوری تیرے حضور پیش کرتے ہیں۔
الغرض حضرت عباسؓ نے خدا کے رحم کو جوش دلانے والی ایسی دعائیں کیں جن کا مختلف احادیث میں ذکر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہاڑوں جیسے بادل امڈ آئے اور آسمان برسا اور خوب برسا۔زمین کی زرخیزی لَوٹ آئی اور لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ بارش ہونے کے بعد لوگ حضرت عباسؓ سے ملتے اور کہتے اے مکہ اور مدینہ کو بارش سے سیراب کرنے والے !تجھے مبار ک ہو۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پریہ اصولی وضاحت بھی فرمائی کہ ’’خدا کی قسم!یہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ چاہنے اوراس کے ہاں مقام و مرتبہ کا معاملہ ہے۔‘‘
حضرت حسان ؓبن ثابت نے اس تاریخی واقعہ کا ذکرعربی اشعار میں یوں فرمایا: (ترجمہ) امام نے مسلسل قحط سالی کے بعد حضرت عباسؓ کی پیشانی کا واسطہ دے کر دعا کی تو باران رحمت کا نزول ہو گیا ہاں وہ عباسؓ جو رسول اللہ ﷺ کے چچا اور اپنے اس والد کی روشنی ہیں جو نبی کریمؐ کا باقی لوگوں سے بڑھ کر وارث ہے۔ خداتعالیٰ نے اس بارش سے شہروں کو زندہ کر دیا اور ایک مایوسی کے بعد ان کی اطراف سرسبز ہو گئیں۔
ایک دفعہ حضر ت عمرؓ جمعہ پڑھانے کے لیے تشریف لارہے تھے۔ حضرت عباسؓ کے گھر کے پرنالے کے پاس سے گزر ہوا۔ جہاں دو چوزے ذبح کرکے ان کا خون پانی سے بہایا جارہاتھا۔ اس کے چھینٹے حضرت عمرؓ پر بھی پڑے۔ انہوں نے گزرگاہ کے بیچ اس پرنالے کے اکھیڑنے کی ہدایت فرمائی۔ گھر واپس جاکر جمعہ کے لیے لباس بدل کر تشریف لائے اور جمعہ پڑھایا۔ حضرت عباسؓ آئے اورعرض کیا کہ اس جگہ پر یہ پرنالہ خود نبی کریمؐ نے لگایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا اب میرا آپ کو حکم ہے کہ میری پشت پر سوار ہو کر وہ پرنالہ دوبارہ اسی جگہ رکھیں جہاں رسول کریمؐ نے رکھا تھا۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔
حضرت عباسؓ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ حضر ت عمرؓ اورحضرت عثمانؓ ان کا خاص احترام کرتے تھے۔ آپ کو دیکھ کر وہ گھوڑے سے اتر آتے اور کہتے رسول اللہ ﷺکے چچا ہیں۔ 32ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے دو سال قبل88سال کی عمر میں حضرت عباسؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں