حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب چینیؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍مارچ 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب چینیؓ آف اسلام گڑھ ضلع گجرات کی سیرۃ و سوانح سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحبؓ اور آپؓ کے دو بھائی یعنی حضرت قاری غلام حٰم صاحبؓ (وفات 6ستمبر 1941ء قادیان) اور حضرت قاری غلام یٰسین صاحب (وفات 24جولائی 1940ء قادیان) کو بھی حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب میں شمولیت کی سعادت حاصل ہے۔
حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب قریباً 1870ء میں موضع رسولپور ضلع گجرات میں میاں محمد بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ فقیہ تھے اور جب سورج اور چاند کو گرہن لگا تو انہوں نے فرمایا کہ مہدی پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح آپؓ کی والدہ ماجدہ بھی ولی اللہ عورت تھیں، درود شریف کا بہت ورد کیا کرتی تھیں اور بچوں کو بھی اس کی نصیحت کرتیں۔ چنانچہ حضرت قاری صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ہی میری والدہ درودِ تاج پڑھنے کی تاکید کرتیں اور درود تاج کی چلہ کشی بھی کی، مجھے بھی متعدد مرتبہ زیارت خواب میں مختلف پیرایوں میں ہوئی… ۔
حضرت قاری صاحب ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہانگ کانگ میں سپرنٹنڈنٹ جیل رہے اور ریٹائر ہو کر قادیان میں سکونت اختیار کی۔ بچپن میں ہی آپ کو کسی کے مہدویت کے دعویٰ کا علم ہوگیا تھا لیکن 1899ء میں جب ہانگ کانگ میں مقیم تھے تو حضرت اقدسؑ کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ ملی جس نے دل پر خاص اثر کیا۔ 1901ء میں درثمین پڑھی جس میں اردو اور فارسی نظمیں ملی جلی تھیں۔ اس میں حضرت مسیح موعود نے ایک دعا مانگی ہے۔ جب ہم نے اس دعا کے ان الفاظ کو پڑھا ؎
آتش فشاں بر در و دیوار من
دشمنم باش و تباہ کن کار من
یعنی اگر مَیں تیری طرف سے نہیں ہوں تو میرے درودیوار پر آگ برسا اور میرے دشمن کو خوش کر اور میرے کام کو تباہ کردے۔
تو میں نے کہا کہ اگر یہ سچا ہے تو زہے قسمت اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اس نے جھوٹ میں بھی کمال کر دیا ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ ایک دن جھینگا مچھلی کے حلال یا حرام ہونے پر میرا اپنے دوست کے ساتھ اختلاف ہوگیا۔ ہم جامع مسجد ہانگ کانگ کے پٹھان امام کے پاس گئے جن کے پاس موجود مولوی عبد الحیٔ صاحب دہلوی کی ایک کتاب فتاویٰ میں مختلف لوگوں نے اسے حرام، حلال اور مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی قرار دیا تھا۔ تب میں نے کہا کہ ہمیں تو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ا س کو حرام یا حلال بتائے۔ اس پر اس مولوی نے نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی نکالی جس کو پڑھ کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ عنقریب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے۔ کچھ عرصہ بعد میرے بھائی کی چٹھی مجھے ملی کہ حضرت امام مہدی پیدا ہوگئے ہیں اور ہم نے ان کی بیعت کرلی ہے۔ جب مَیں 1906ء میں رخصت پر لاہور آیا تو میرے دونوں بھائی احمدی ہوچکے تھے اور مجھے اشارۃً دعوت الی اللہ کرتے رہتے تھے لیکن کبھی کھلی تبلیغ نہیں کی۔ میں اپنی نماز الگ پڑھتا تھا۔ دو روز کے بعد میں نے ایک بھائی سے سوالات کئے جن کے جواب جزوی بھی درست لگے تو مَیں نے مان لیا۔
گاؤں میں مَیں نے اپنا مکان بنوانا شروع کیا تو بھائی نے مجھے کتاب ’’انجام آتھم‘‘ دی۔ حضرت صاحب کا دیگر علماء کو مباہلہ کا چیلنج پڑھ کر میرے دل میں بڑی رقت پیدا ہوئی اور مَیں اپنے بھائی کے ساتھ قادیان چلا آیا۔ مسجد مبارک میں حضورؑ کا انتظار کیا اور جب حضورؑ حجرہ میں تشریف لے آئے تو بعض لوگوں نے بیعت کے لئے عرض کیا۔ حضورؑ نے میرے بھائی کو پہچان لیا اور میری بیعت بھی قبول فرمائی۔ پھر چین کے حالات دریافت فرماتے رہے۔ بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ اور میں تھا مگر وہ نور اپنی اس حالت میں دکھائی دیا جس حالت میں مَیں نے کشف یا خواب میں دیکھا تھا۔ تین دن قادیان میں قیام رہا۔ پھر واپس آکر حضورؑ کی خدمت میں لکھا کہ حضور مجھے معلوم نہیں میں کیوں یہاں آگیا ہوں، حضور کو دیکھنے کی تڑپ ہمیشہ دل میں موجزن رہتی ہے۔
واپس ہانگ کانگ جاکر آپؓ نے تبلیغ شروع کی اور اخبارات میں بھی اعلانات شائع کئے جس پر مخالفت ہوئی جس کا آپؓ نے بڑی ہمت اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آپؓ کے خلاف فتویٰ بھی دیا گیا کہ اس کے ساتھ کھانا پینا حرام ہے۔
آپؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے لوگوں کو کھول کر بتایا کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ الہام ہے اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔ چنانچہ 1906ء میں ہانگ کانگ کے سمندروں میں زلزلہ آیا ہزاروں آدمی مرگئے اور جہاز جو ہانگ کانگ کے سمندروں میں تھے ان میں سے کوئی بھی نہ بچا۔ یورپین لوگ کہتے تھے کہ ہمارے سٹاف میں صرف یہ ہی سچا آدمی ہے۔
ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت قاری صاحب فرماتے ہیں کہ ایک سپاہی میرے پاس نماز کا ترجمہ سیکھنے آیا کرتا تھا جسے میں تبلیغ بھی کرتا۔ اس پر اس کے محکمہ کے سارجنٹ میجر نے جو ضلع جہلم کا باشندہ تھا اسے بہت سے سپاہیوں کے رو برو بہت سخت سست کہا اور مجھ سے ملنے سے منع کرکے حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں بھی ناشائستہ الفاظ کہے۔ اس پر سپاہی مذکور نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس سارجنٹ کو چند ہی دن کے بعد دیوانہ کر دیا اس وجہ سے کچھ عرصہ تو بند مکان میں رکھا گیا۔ کسی قدر حالت درست ہونے پر جب اُسے باہر نکالا گیا تو اس پر فالج گرا۔ میں اس کے پاس گیا تو وہ خود ہی وہ واقعہ بیان کرکے کہنے لگا کہ اس وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے آپ میرے لئے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ معاف کردے۔ آخر اُسے اسی حالت میں گھر پہنچایا گیا جہاں جاکر مرا۔ اُس کے بعد جو سارجنٹ میجرا ہوا، میں نے اس کو یہ نشان بتلا کر کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ آپ کے محکمہ کے لوگوں کے سامنے ایک لیکچر دوں اس نے خوشی سے اجازت دیدی اور میں نے دل کھول کر تبلیغ کی۔
آپؓ کی تبلیغی رپورٹس الفضل میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ آپؓ کا مرکز سے باقاعدہ رابطہ تھا۔ 1913ء میں آپؓ قادیان آکر دربار خلافت سے مستفید ہوتے رہے۔ خلافت اولیٰ میں جب صدر انجمن قادیان کی شاخ ہانگ کانگ میں بنی تو حضرت قاری صاحب اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔
آپؓ نے چین میں تبلیغ کے لئے اپنے بچوں کو چینی زبان بھی سکھانی شروع کی۔ نیز اپنے خرچ پر مربی منگوانے کے لئے مرکز سے درخواست بھی کی۔ 1922ء میں بھی قادیان آکر اپنی اولاد کے ساتھ کچھ عرصہ قیام کیا۔
1914ء میں آپ ہانگ کانگ میں ہی تھے کہ آپ کو خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات اور منکرین خلافت کی خبر پہنچی۔ آپؓ نے بغیر کسی تردّد کے بیعت خلافت ثانیہ کی اور اس سلسلے میں اپنی ایک لمبی رؤیا بھی مرکز کو بھجوائی جو اخبار ’’الفضل‘‘ میں بعنوان ’’چین سے شہادت‘‘ کے تحت چھپی۔
حضرت قاری صاحبؓ نے دینی خدمات میں خوب حصہ لیا۔ نہ صرف بطور سیکرٹری ہانگ کانگ اس خدمت کو بجالاتے رہے بلکہ 1912ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے تعمیر مدرسہ کے لئے ایک لاکھ روپے کی تحریک فرمائی تو حضرت قاری صاحب نے اس مدمیں 51 ڈالر چندہ کا وعدہ فرمایا۔ یتامیٰ فنڈ میں اور تعمیر مسجد کے لئے چندہ کی ادائیگی میں آپؓ کا نام بھی اخبار میں شائع ہوتا رہا۔ آپؓ 1/10 حصہ کے موصی تھے، جب 1936ء کی مجلس مشاورت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حصہ وصیت میں تین سال کے لئے اضافہ کرنے کی تحریک فرمائی تو آپؓ نے حضورؓ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 1/9 حصہ کا اضافہ کیا۔ خلافت جوبلی فنڈ میں آپ نے 100/- روپے چندہ دیا۔ مارچ 1944ء میں جب حضور نے اسلام کے لئے اپنی جائیداد وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو آپؓ نے اپنی دو ماہ کی آمد پیش کردی۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل ہوئے۔
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے بقیہ زندگی قادیان میں ہی گزاری۔ اس دوران محلہ دارالرحمت کے صدر اور 1937ء میں لوکل انجمن احمدیہ کے جنرل پریذیڈنٹ رہے، نیز نظارت امور عامہ میں بھی خدمات بجالاتے رہے۔ آپؓ نے حضورؓ کی وقارعمل کرنے کی تحریک پر بھی نہایت شوق سے لبیک کہا۔
قیام پاکستان کے بعد آپؓ زیادہ تر اپنے بیٹے ڈاکٹر عبدالقادر صاحب کے ساتھ مختلف مقامات پر رہے اور 92 سال کی عمر میں 24؍اکتوبر 1962ء کو لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ حسناء بیگم صاحبہ نے 22 دسمبر 1946ء کو بعمر 50 سال وفات پائی تھی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر فیصل آباد رہے جو 16؍جون 1984ء کو فیصل آباد میں شہید ہوئے۔