حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لدھیانویؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مارچ 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لدھیانویؓ کے حالات زندگی شامل اشاعت ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کرنے والے آٹھویں شخص تھے۔
حضرت قاضی خواجہ علی صاحب ’’براہین احمدیہ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے ارادتمندوں میں شامل ہوگئے۔ آپ کے آباء و اجداد کو نواب صاحب مالیر کوٹلہ نے یوپی سے بلاکر اپنی ریاست میں پیش امام مقرر کیا تھا اور گزارہ کے لئے جاگیر بھی عطا کی تھی چنانچہ آپ کے والد بزرگوار ایک عرصہ تک پیش امام رہے۔ حضرت قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم سکول میں ہوئی اس کے علاوہ آپ کو عربی، فارسی اور دینیات کا بھی علم کافی تھا۔ پھر آپ پولیس میں بھرتی ہوگئے اور جگراؤں ضلع لدھیانہ میں محرر سارجنٹ مقرر ہوئے۔ جلد ہی تفتیش کے معاملات میں آپ قابل افسروں میں شمار ہونے لگے۔ لیکن اِس ملازمت کو آپ نے پسند نہ کیا اور باوجود افسرانِ بالا کے استعفیٰ منظور نہ کرنے کے، ملازمت چھوڑ دی اور مالیرکوٹلہ اور فیروزپور کے درمیان مسافروں اور ڈاک وغیرہ کی ترسیل کا کام شکرم کے ذریعہ شروع کیا۔ آپ کے دفتر اور گھر پر روزانہ مباحثہ اور مذہبی گفتگو رہتی تھی۔ طبیعت نہایت سادہ تھی، محنتی اور نہایت بارعب آدمی تھے۔
حضرت قاضی صاحب نے حضورؑ کی خدمات میں ایک مثالی نمونہ قائم فرمایا۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت میں آپ نے بہت سعی کی۔ اگرچہ حضورؑ نے اہل لدھیانہ کے اصرار پر 1882ء میں لدھیانہ آنے کا وعدہ کیا ہوا تھا لیکن یہ سفر 1884ء میں ممکن ہوسکا۔ اس سفر میں نہ صرف تمام وقت آپؓ نے اپنی شکرم خدمت اقدسؑ میں وقف کئے رکھی بلکہ حضورؑ کی دعوت بھی کی۔ اسی سال اکتوبر میں حضورؑدوبارہ لدھیانہ تشریف لائے۔ اور نواب محمد ابراہیم علی خانصاحب آف مالیر کوٹلہ کی والدہ کی درخواست پر مالیرکوٹلہ بھی دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران بھی حضرت قاضی صاحب نے اپنی شکرم پیش کئے رکھی۔
حضرت قاضی صاحبؓ کو 23 مارچ 1889ء کو آٹھویں نمبر پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 27دسمبر 1891ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ میں شامل تھے۔ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں حضورؑ نے آپؓ کا نام 49 ویں نمبر پر تحریر فرمایا ہے۔ دوسرے جلسہ سالانہ 1892ء میں بھی شامل ہوئے اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں 75ویں نمبر پر آپؓ کا نام موجود ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپ کی نسبت تحریر فرمایا: ’’حبی فی اللہ قاضی خواجہ علی صاحب۔ قاضی صاحب موصوف اس عاجز کے ایک منتخب دوستوں میں سے ہیں محبت و خلوص و وفا و صدق و صفا کے آثار اُن کے چہرہ پر نمایاں ہیں خدمت گزاری میں ہر وقت کھڑے ہیں وہ ان اولین و سابقین میں سے ہیں… وہ ہمیشہ خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ایام سکونت لدھیانہ میں جو چھ چھ ماہ تک بھی اتفاق ہوتا ہے ایک بڑا حصہ مہمان نوازی کا خوشی کے ساتھ وہ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں اور جہاں تک اُن کے قبضہ قدرت میں ہے وہ ہمدردی اور خدمت اور ہر ایک قسم کی غمخواری میں کسی بات سے فرق نہیں کرتے اور اگرچہ وہ پہلے ہی سے مخلص باصفا ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زیادہ تر قریب کھینچے گئے ہیں … اور میری دانست میں وہ ان مراحل کو طے کر چکے ہیں جن میں کسی خطرناک لغزش کا اندیشہ ہے۔‘‘
حضورؑ کے ایک عربی مضمون ’’ذکر بعض الانصار۔ شکرًا لنعمۃ اللّہ الغفار‘‘ میں بھی آپؓ کا نام موجود ہے۔ نیز کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں درج فہرستوں میں بھی آپ کا نام شامل ہے۔ جون1897ء میں قادیان میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی منایا گیا جس کے شاملین کے اسماء حضورؑ نے ’’تحفہ قیصریہ‘‘ میں درج فرمائے۔ آپؓ کے نام کے ساتھ آپ کے پانچ روپے کا چندہ کا بھی ذکر ہے۔
حضرت قاضی صاحبؓ ایک ذہین، باریک بین اور صاحب فراست بزرگ تھے۔ پُر جوش داعی الی اللہ بھی تھے۔ لدھیانہ میں موجود آپ کا شکر موں کا اڈا حضرت مسیح موعودؑ کے تذکرے کا سٹیج تھا۔ زیارتِ حضرت اقدسؑ کے لئے اپنے خرچ پر احباب کو قادیان بھی لاتے۔ رمضان 1905ء میں جب حضورؑ دہلی سے واپسی پر لدھیانہ میں ٹھہرے تو مکان میں پہنچ کر آپؓ نے حضورؑ سے عرض کیا کہ حضور یہاں مولویوں نے حضور کی نسبت بہت سی غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ نعوذ باللہ حضور کو کوڑھ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہر وقت ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں اور چہرے پر نقاب رکھتے ہیں چاہتا ہوں کہ باہر برآمدہ میں کرسی بچھا دوں اس پر حضور تشریف رکھیں۔ حضورؑ نے اِس مشورہ کو پسند فرمایا اور پھر وہاں آکر لوگ مصافحہ کرتے رہے۔
اپریل 1910ء میں لنگرخانہ کے مہتمم حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی وفات پر حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت قاضی صاحب کو یہ ذمہ داری سنبھالنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ اپنی عمر کے آخری حصہ میں اس کام کو نہایت محنت اور امانت کے ساتھ بجالائے۔
آپ نے 24؍اگست 1912ء کو لدھیانہ میں وفات پائی، جنازہ قادیان لایا گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔
آپؓ کی وفات پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لکھا کہ قاضی خواجہ علی صاحبؓ کے اخلاص ومحبت ان کی ارادت و وفا کے متعلق میرا کچھ لکھنا بے سود ہے جبکہ حضرت امام المتقین نے متعدد جگہ اپنی تصنیفات میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لودھانہ کی جماعت پر ناراضگی کا ایک سبب پیدا ہوگیا اس موقعہ پر قاضی صاحب عفو تقصیر کے لئے آگے بڑھے اور میں تو بلا خوف تردید کہوں گا کہ قاضی صاحب کی دیرینہ خدمات اور اخلاص ہی اس وقت آڑے آیا اور حضرت اقدس نے تقصیر معاف کردی۔ لنگر خانہ کے کام کو اُنہوں نے نہایت دیانت، امانت، استقلال اور برداشت سے کیا۔آپ ایک پرانے زمانہ سے افیون اور حقہ کے عادی تھے، موت سے پہلے قادیان ہی میں انہوں نے ان دونوں چیزوں کو ترک کردیا اور ایسی جواں مردی سے مقابلہ کیا کہ پھر ان کی طرف توجہ نہ کی۔ آپ ہمیشہ ایک آسودہ حال اور فارغ البال بزرگ تھے، دل بڑا وسیع اور حوصلہ مند تھا۔ آپ نے اپنی نرینہ نسل میں صرف ایک پوتا اپنی یادگار چھوڑا ہے۔
حضرت غلام حسین صاحب لدھیانوی فرماتے ہیں کہ حضرت قاضی صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں حضرت مولوی صاحب (خلیفۃالمسیح اول) کے بعد حضرت میاں صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) کا وجود ہے جو اپنے شباب کے وقت میں اس قدر خدا کی یاد میں رہتے ہیں کہ کسی مجلس میں سوائے خطبہ جمعہ کے وقت شاذ ہی نظر آتے ہیں اور خطبہ جمعہ میں جو تقریر فرماتے ہیں اس میں حضرت مسیح موعود ؑ کی صحبت تازہ ہوجاتی ہے۔ خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی صدرالدین وغیرہ بڑے لیکچرار ہیں مگر اللہ والی باتیں صرف میاں صاحب میں ہی ہیں۔
آپ کی والدہ محترمہ حضرت رسول بی بی صاحبہ بفضل اللہ تعالیٰ سلسلہ احمدیہ میں داخل تھیں۔ حضورؑ نے ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں اپنے ایک نشان کے پورا ہونے کے مصدقین میں آپ کی والدہ کا ذکر یوں فرمایا ہے: ساتواں نشان۔ 28 فروری 1907ء کو یہ الہام ہوا سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی خوش آمدی نیک آمدی … سخت زلزلہ والی پیشگوئی مورخہ 28؍ فروری 1907ء کے قبل از وقت سننے کے گواہ ’’… والدہ خواجہ علی …‘‘۔ آپ کی والدہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھیں۔ انہوں نے 1944ء میں وفات پائی۔
1897ء میں احمدیت قبول کرنے والوں میں حضرت قاضی صاحبؓ کے بچوں (29۔ احمد حسن پسر، 30۔ ودود دختر، 31۔ قاضی علی لدھیانوی) کا ذکر بھی موجود ہے۔ آپؓ کی ایک بیٹی کی شادی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانی یکے از 313 (وفات 9جون 1921ئ۔ قادیان) کے ساتھ ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں