حضرت محمد رمضان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 2000ء میں حضرت محمد رمضان صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم وحید احمد رفیق صاحب لکھتے ہیں کہ آپ ضلع کرنال کے گاؤں محمود پور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد بوٹا تھا جن کی ایک سو ایکڑ زمین تھی۔ قریب کوئی سکول نہیں تھا اس لئے آپ نے بچپن ہی سے اپنے والد کے ہمراہ کھیتی باڑی کا کام شروع کردیا۔ آپ کے والد جماعت احمدیہ کے قیام سے قبل ہی وفات پاگئے۔ جب آپ نے یہ سنا کہ قادیان میں کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو آپ پاپیادہ قادیان روانہ ہوگئے اور ایک ہفتہ کے سفر کے بعد قادیان پہنچ کر بیعت کرلی۔ یہ فروری 1905ء کا ذکر ہے۔ آپؓ کے بعد گاؤں کے تین دیگر بزرگوں نے بھی بیعت کرلی جن کی تبلیغ سے پھر اکثریت احمدی ہوگئی۔
آپؓ نے قریباً ستر برس عمر پائی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپؓ کو نمونیہ ہوگیا تھا۔ اس دوران آپؓ نے ایک کشف میں دو فرشتے دیکھے جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے اور اُن کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ اُن کے آنے سے کمرہ روشن ہوگیا۔ پوچھنے پر انہوں نے اپنے نام بتائے اور کہا کہ مولوی صاحب! آئیے آپ کا نام رجسٹر سے کٹ چکا ہے۔ آپؓ نے پوچھا اعمال نامہ کیسا ہے؟ تو انہوں نے ایک گہرے سیاہ رنگ کا تھان کھولا جس پر کئی دھبے تھے۔ اس پر آپؓ گھبراگئے تو انہوں نے تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ مولوی صاحب! گھبرائیں نہیں۔ اور پھر ایک سفید چمکدار تھان کھولا جو اُس کالے تھان سے دگنا تھا۔ پھر فرمایا کہ وہ آپ کے احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا تھا جبکہ یہ سفید تھان احمدیت قبول کرنے کے بعد کا ہے۔ آپؓ نے فرشتوں سے بیٹھنے کی درخواست کی لیکن وہ السلام علیکم کہہ کر چلے گئے۔ اس کشف کے بعد آپؓ کو صحت ہوگئی۔ پھر ایک روز آپؓ نے اپنی اہلیہ سے صبح سویرے کہا کہ آپ کو نہلاکر کپڑے بدل دیں۔ پھر آپؓ گھر سے باہر چارپائی پر بیٹھ گئے اور گاؤں والوں سے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو معاف کردیں۔ پھر آپؓ اندر آئے اور کچھ ہی دیر بعد آپؓ کی وفات ہوگئی۔ محمودپور میں ہی تدفین عمل میں آئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں