حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2010ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اخلاق عالیہ سے متعلق حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کا ایک مضمون’’مضامین مظہر‘‘ سے منقول ہے۔ اس سے قبل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت کے حوالہ سے حضرت شیخ صاحب کا ہی ایک مضمون 12 فروری 1999ء کے الفضل انٹرنیشنل کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ولادت 20؍ اپریل 1893ء کو ہوئی اور 2ستمبر1963ء کو انتقال فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’کشتی نوح‘‘ میں اپنی جماعت کو جن ہدایات پر کار بند ہونے کے لئے فرمایا ہے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی زندگی اس تعلیم کا عملی نمونہ تھی۔ آپؓ کے اندر علم او رعمل کے کمالات تھے۔ عفوودرگزر ، رفق و مدارات، تحمل اور برداشت، زُہد و تعبد، اپنوں اور بیگانوں کی خیر خواہی اور ہمدردی، شجاعت اور انتظامی قابلیت، مہماتی امور اور مشکل حالات میں ہمیشہ خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے، جاں بکف اور سینہ سپر ہو جانا۔ یہ وہ اخلاق عالیہ تھے جن کو ایک دنیا نے مشاہدہ کیا اور انہی اوصاف اور کمالات کی وجہ سے آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے معتمد علیہ رفیق اور دست راست تھے۔
ابتلاؤں میں خاکسار نے آپ کے اندر ایک عجیب شجاعت اور توکل علی اللہ کی روح دیکھی۔ مشکلات اور مصائب کے اندر آپ کے علمی او رعملی جو ہر اَور زیادہ روشن ہو جاتے تھے اور جس مجلس میں آپ موجود ہوں آپ کے رفقائے کار کو یقین اور اطمینان ہوتا تھا کہ پیش آمدہ مشکل پر انشاء اللہ قابو پا لیا جائے گا۔
آپ قرآن و حدیث کے متبحر عالم تھے اور زبان عربی، انگریزی اور اردو پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ تحریر ہو یا تقریر، کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے جو رکیک یا دلآزار ہو اور میانہ روی کے خلاف ہو۔ آپ کی تحریر گویا ایک قانونی مسودہ ہوتی تھی جس کا ہر لفظ جچا تُلا اور برمحل ہوتا تھا، یہ احتیاط نہ صرف تصانیف کے اندر بلکہ روزمرہ کتابت میں بھی مدنظر رہتی تھی۔ آپ کو یہ عرفان حاصل تھا کہ انسان کی فطرت معزز واقع ہوئی ہے اور کسی تحقیر کو برداشت نہیں کر سکتی۔ تحریر میں آپ کی نرمی اور میانہ روی دلوں کو موہ لیتی تھی اور بیگانوں کو اپنا بنا لیتی تھی۔
آپ کی تصانیف سے عیاں ہے کہ آپ بہت بڑے تاریخ دان، قلم کے بادشاہ، زبان کے استاد، تحقیق مسائل میں دُور رس نظر رکھنے والے، محنت اور کاوش کے عادی تھے اور آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ مضمون تشنہ اور نامکمل نہ رہے۔
قانونِ ملکی سے آپ واقف تھے اور کئی موقعوں پر خاکسار نے آپ کو قانونی نکات بیان کرتے دیکھا ہے۔
تقسیم ملک سے پہلے آپ کی دُور اندیش نظرنے آنے والے واقعات کا اندازہ لگایا اور اس کے متعلق سبق آموز مضامین لکھے۔ بعد میں آنے والے واقعات نے آپ کی فراست کی تصدیق کی۔ قادیان سے ہجرت ایک بڑا دشوار گزار مرحلہ تھا۔ آپؓ کی حوصلہ مندی اور حسن انتظام سے آپؓ کے ساتھی بھی اثر پذیر ہوئے اور سب نے مل کر تنظیم اور تعاون کے ساتھ یہ کٹھن منزل اس عمدگی سے طے کی کہ تمام اہل قادیان صحیح سلامت اور عزت کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے حکم کے ماتحت آپؓ کو بھی قادیان سے لاہور آنا پڑا۔ لیکن اہل قادیان کے لئے آپؓ نے مشکلات کو آسان کر دیا تھا حسن تدبیر سے، حسن انتظام سے اور دعاؤں سے۔
قادیان کے درویشوں کی خدمت ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ معاملہ تھا۔ قادیان کے ہر درویش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا۔ اس کے رشتہ داروں اور متعلقین کی مشکلات کو دُور کرنا۔ ہر درویش کے لئے آرام، آسائش بہم پہنچانا۔ بیماروں کی تیمارداری ، ناداروں کی حاجت روائی۔ کوئی تنازعات یا مقدمات پیدا ہوں تو ان کو نپٹانا۔ حکومتوں سے ربط و ضبط رکھنا۔ جلسہ سالانہ پر وفود کا بھیجنا ۔ یہ اور اس قسم کے سینکڑوں کام تھے جنہیں آپ تن تنہا سرانجام دیتے تھے اور ہر کام اس قسم کا تھا جس میں انتہائی احتیاط اور تدبّر کی ضرورت تھی۔ ہر درویش اور اس کے رشتہ دار سے آپ کو ایسی محبت جو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے ہوتی ہے اور ہر ایک کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانتے تھے۔ آپؓ اللہ تعالیٰ کے درویش اور دریشوں کے سرتاج تھے تمام عمر درویشانہ زندگی گزاری اور نام و نمود سے فطرتاً نفور رہے۔
بڑے وفادار اور دلنواز دوست تھے۔ پرانے احمدی خاندانوں کی خاص تکریم فرماتے تھے۔ خاکسار نے والد صاحب مرحوم کی آخری بیماری کی آپ کو اطلاع دی اور یہ لکھا کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے تو آپ نے فوراً مجھے لکھا کہ آپ کا السلام علیکم والد صاحب کو پہنچا دیا جائے اور والد صاحب کی وفات پر آپ نے جو درد انگیز مضمون لکھا اس میں اس خوشی کا اظہار کیاکہ وفات سے پہلے والد صاحب کو السلام علیکم پہنچ گیا ہے ۔ والد صاحب کی وفات کے متعلق میںنے آپؓ کو تار دیا اور آپ نے تدفین کا اہتمام فرمایا اور مقبرہ بہشتی قادیان کے اندر حضرت مسیح موعودؑ کے مزار سے جو جگہ قریب ترین میسر ہوسکتی تھی وہاں قبر کھدوانے کا بندوبست کر وا دیا۔ خاکسار قادیان پہنچا تو آپؓ کو اس وفات کی وجہ سے بڑا مغموم اور دردمند پایا اور نہایت رقّت کی حالت میں آپؓ نے مجھے سینے سے لگا لیا اور حالات پوچھتے رہے ۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی تدفین مقبرہ بہشتی ربوہ کے اندر ہورہی تھی۔ چاردیواری کے اندر خاکسار مغموم حالت میں ایک طرف الگ کھڑا تھا۔ آپؓ نے میرے چہرے پر نظر ڈالی۔ بڑی محبت سے آگے بڑھے اور مجھے چھاتی سے لگا لیا۔ آپ کی طبیعت کے اندر بہت ضبط تھا ۔ لیکن ان دونوں مواقع پر آپ نے جو بے اختیاری اختیار کی اس کا سبب مَیں کیا عرض کروں!۔
دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا اور مصلحت کو کام میں لانا آپ کا ایک خاص وصف تھا۔ ایک دفعہ خاکسار نے آپ کو خط میں ایک شخص کے متعلق بعض تیز الفاظ لکھ دیئے جو آپؓ کو پسند نہ آئے۔ یہ بھی ضروری تھا کہ مجھے ٹوکا جائے اور یہ بھی کہ میرے جذبات کا لحاظ رکھا جائے۔ دیکھئے ان دونوں متضاد باتوں کو آپ نے کس خوبی سے ادا کیا۔ آپ نے مجھے لکھا: ’’میں تو سمجھتا تھا کہ آپ کی طبیعت میں جمال ہے لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جلال بھی ہے‘‘۔ خاکسار ان الفاظ سے شرمسار بھی ہوا اور شکر گزار بھی۔ دراصل خدا کے پاک بندے ایسے طریق پر خطا پوشی کرتے ہیں جو خطا نوازی معلوم ہوتی ہے۔ اصلاح کا یہ طریق کتنا دلنشیں، کتنا کمیاب اوردرد انگیز ہے۔
جب کوئی ذمہ داری آپ کو سونپ دی جاتی تو آپؓ مردانہ وار اس کی انجام دہی میں مشغول ہو جاتے۔ ہر پہلو پر غور کرتے، آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاتے اور ایک ضابطۂ عمل مرتب فرماتے۔ گویا منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک پٹڑی بچھا دیتے اور پھر کام کو رواں کر دیتے اور اس ضابطہ کی پابندی ضروری سمجھتے۔ خدمت درویشان اور نگران بورڈ کے سلسلہ میں بھی آپ نے ایسے ہی ایک راہ عمل تجویز فرمایا۔
آپؓ کے ساتھ کام کرنے والے گواہ ہیں کہ بیماری اور کمزوری کی حالت میں بھی آپؓ کام کو جاری رکھتے اور ہمارے یہ عرض کرنے پر کہ آپ کمزور ہیں یا آپ کو بخار ہے آپ تکلیف نہ فرمائیں۔ آپؓ اس بات کو قبول نہ فرماتے اور کام کو اٹھا نہ رکھتے بلکہ اسے ختم کرکے ہی اٹھتے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی اطاعت اور فرمانبرداری آپؓ کو بدرجۂ کمال منظور تھی اور کسی کام کے متعلق اگر حضورؓ کی کوئی ہدایت یا اشارہ پیش کیا جاتا تو آپ من و عن اس کی تعمیل کو لازم جانتے کیونکہ آپ کو اس بات کا لمبا تجربہ تھا کہ امام کی اطاعت میںہی برکت اور سعادت ہے۔ خصوصاً وہ امام جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سخت ذہین اور فہیم ہو گا اور مظہرالحق والعلا ء کے مقام پر ہو گا۔
اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت فرماتے اور اس کی قدر کرتے اور ہر ایک رائے سے عمدہ حصہ لے کر تمام آراء کو ہموار کرتے۔جو ایک ایسے عسل مصفی کا مصداق ہوتا جو مختلف پھولوں سے جمع کیا گیا ہو۔ مال تجارت سے بڑھتا ہے اور علم بحث سے۔ اسی طرح صحیح نتیجہ اختلاف رائے کو ہموار کرنے اور ہر رائے میں سے اچھا حصہ لے لینے سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ آسان کام نہیں ہے بلکہ بڑے حوصلہ اور حکمت۔ وسیع علم اور لمبے تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ میںیہ باتیں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
آپؓ کی محبت، حکمت اور دانائی سے نفسیاتی اثرات پیدا ہوتے تھے اور آپ کے رفقاء کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ آپ کے ساتھ کام کرنا اور مشقّت اٹھانا راحت ہے اور ایک نعمت غیر مترقبہ۔ جو شخص اپنے طریق کار سے مشقّت کو نشاط روح میں تبدیل کر دے، اس کے اخلاق اور ہمت کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے آئیں!۔
خندہ پیشانی سے ملتے، خوش ہوتے اور خوش کرتے۔ دو موقعوں کے سوا خاکسار نے آپ کو خفگی کی حالت میں نہیں دیکھا اور یہ دونوں موقعے دینی غیرت اور جماعتی نظام سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کی خفگی بالکل برمحل اور اصلاح آفرین تھی۔
خطوں کا جواب بڑی پابندی اور باقاعدگی سے دیتے تھے، آپ کی ڈاک بڑی کثیر ہوتی تھی۔ لیکن کسی شخص کو یہ شکایت پیدا نہ ہوتی تھی کہ اس کے خط کا جواب نہیں دیا گیا۔ یا بروقت نہیں دیا گیا۔
آپ بڑے صبار و شکور تھے۔ ایک شخص نے آپ کو بہت تنگ کرنا شروع کیا۔ خطوں میں دھمکیاں دیں۔ خاکسار سے آپ نے مشورہ کیا۔ میں نے اینٹ کا جواب کم از کم اینٹ سے دینا چاہا اور جوابی مضمون لکھا۔ لیکن آپؓ نے سختی کا جواب سختی سے دینا گوارا نہ فرمایا اور یہ کوہ وقار اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ آپ کے مدّنظر یہ بات تھی کہ بعید کو بعید تر نہ کیا جائے بلکہ قریب لانے کی کوشش کی جائے اور صبر و تحمل کو نہ چھوڑا جائے۔میرے لئے یہ نرمی بڑی حیران کن اور سبق آموز تھی اور حضرت مسیح موعودؑ کی یہ تعلیم کہ ؎

گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو ، تم دکھاؤ انکسار

خاکسار نے آپؓ کے اخلاق میں عملاً اس کا مشاہدہ کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں