حضرت مرزا عظیم بیگ صاحبؓ اور حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 23؍جون 2025ء)
313؍اصحاب میں شامل دو خوش نصیب بھائیوں کا تذکرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 13؍فروری2014ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

غلام مصباح بلوچ صاحب

حضرت مرزا عظیم بیگ صاحب آف سامانہ (پٹیالہ) ولد مکرم مرزا رستم بیگ صاحب کے خاندان کے بعض افراد نے 23؍مارچ1889ء کو یعنی پہلے ہی دن بیعت کی توفیق پائی۔ اس کے بعد بہت جلد یعنی 1890ء میں آپؓ کی وفات ہوگئی جس کے قریباً چھ سال بعد حضورعلیہ السلام نے آپؓ کا نام اپنے 313؍صحابہ کی فہرست میں شامل فرمایا۔ آپؓ کی وفات کے وقت حضورعلیہ السلام کتاب ’’فتح اسلام‘‘تصنیف فرمارہے تھے۔ اس کتاب میں حضورؑ نے اپنے بعض محبّین کا ذکر بھی فرمایا۔ اسی ضمن میں آپؓ کے بارے میں تحریر فرمایا:
میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سامانہ علاقہ پٹیالہ جس قدر مجھ سے محض للہ محبت رکھتے اور جس قدر مجھ میں فنا ہو رہے تھے مَیں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں تا اُس عشقی مرتبہ کو بیان کرسکوں اور جس قدر اُن کی بےوقت مفارقت سے مجھے غم اور اندوہ پہنچا ہے مَیں اپنے گذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر بہت ہی کم دیکھتا ہوں۔ وہ ہمارے فرط اور ہمارے میر منزل ہیں جو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہوگئے۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے اُن کی مفارقت کا غم ہمیں کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کی مفارقت کی یاد سے طبیعت میں اداسی اور سینہ میں قلق کے غلبہ سے کچھ خلش اور دل میں غم اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ ان کا تمام وجود محبت سے بھر گیا تھا۔ وہ محبّانہ جوشوں کے ظاہر کرنے کے لیے بڑے بہادر تھے اور اپنی تمام زندگی اسی راہ میں وقف کر رکھی تھی۔ اگرچہ بہت قلیل البضاعت آدمی تھے مگر ان کی نگاہ میں دینی خدمت کے لیے مال خاک سے زیادہ بےقدر تھا۔ اسرارِ معرفت کے سمجھنے کے لیے نہایت درجہ کا فہم سلیم رکھتے تھے۔ معرفت سے بھرا ہوا یقین جو اس عاجز کی نسبت وہ رکھتے تھے خدا تعالیٰ کے تصرف تام کا ایک معجزہ تھا۔ اُن کے دیکھنے سے طبیعت ایسی خوش ہوجاتی تھی جیسے ایک پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغ کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوتی ہے۔

اے خدا اے چارہ سازِ ہر دل اندوہگیں
اے پناہ عاجزان آمرزگارِ مذنبین
از کرم آں بندۂ خود را بہ بخشش ہا نواز
ایں جدا افتادگاں را از ترحم ہا بہ بین

(ترجمہ:اے خدا، اے غمگین دل کے چارہ گر، اے عاجزوں کی پناہ اور اے گنہ گاروں کو بخشنے والے! مہربانی سے اپنے اس بندے پر بخشش فرما اور ان علیحدہ رہنے والوں پر نظرِ رحمت کر۔)
حضرت مرزا عظیم بیگ صاحبؓ کی وفات کے قریباً چھ سال بعد جب حضورؑ نے اپنے 313؍اصحاب کی فہرست تیار فرمائی تو147 ویں نمبر پر آپؓ کا نام درج فرمایا:’’میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم۔ سامانہ پٹیالہ‘‘۔ اسی طرح کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں 313؍اصحاب کی فہرست میں آپؓ کے بھائی کا نام 45ویں نمبر پر درج فرمایا:’’میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانہ پٹیالہ۔‘‘
حضرت مرزا محمد یوسف بیگ صاحبؓ بھی دعویٰ بیعت سے بہت عرصہ قبل سے حضورعلیہ السلام سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں:’’… میرزا صاحب اُس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ مَیں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ226)
جنوری1888ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے نام محررہ ایک مکتوب میں بھی حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’ایک میرے دوست سامانہ علاقہ پٹیالہ میں ہیں جن کا نام مرزا محمد یوسف بیگ ہے …۔‘‘ (مکتوبات احمد جلددوم)
آپؓ نے بھی یوم تاسیس پر بیعت کی توفیق پائی۔ حضورؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اپنے بعض مخلص احباب میں آپؓ کا یوں ذکر فرمایا: ’’حبّی فی اللہ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانوی۔ … اور وہ تمام الفاظ جو مَیں نے اخویم مرزا عظیم بیگ صاحب مغفورومرحوم کےبارے میں فتح اسلام میں لکھے ہیں ان سب کا مصداق میرزا محمد یوسف بیگ صاحب بھی ہیں۔ ان دونوں بزرگوار بھائیوں کی نسبت مَیں ہمیشہ حیران رہا کہ اخلاق اور محبت کے میدانوں میں زیادہ کس کو قرار دوں۔ میرزا صاحب موصوف ایک اعلیٰ درجہ کی محبت اور اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور اعلیٰ درجہ کا حُسنِ ظن اس عاجز سے رکھتے ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے مَیں اُن کے خلوص کے مراتب بیان کرسکوں۔ یہ کافی ہے کہ اشارہ کے طور پر مَیں اسی قدر کہوں کہ ھُوَ رَجُلٌ یُحِبُّنَا وَ نُحِبُّہٗ وَ نَسْئَلُ اللّٰہَ خَیْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ۔ مرزا صاحب نے اپنی زبان اپنا مال اپنی عزت اس للّہی محبت میں وقف کر رکھی ہے اور ان کا مریدانہ و محبّانہ اعتقاد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اب ترقی کے لئے کوئی مرتبہ باقی نہیں معلوم ہوتا۔ …‘‘
1899ء میں منعقد ہونے والے جلسہ الوداع کے موقع پر حضورؑ نے اپنی تقریر میں اپنے فدائی اصحاب کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ کا ذکر یوں فرمایا: ’’میرزا یوسف بیگ صاحب میرے بہت ہی مخلص اور صادق دوست ہیں۔ … اُس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ مَیں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ان کا دل محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اندر جوش رکھتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ225)
آپؓ کے ایک بیٹے حضرت مرزا محمد ابراہیم بیگ صاحبؓ نے بھی پہلے روز ہی بیعت کی توفیق پائی تھی اور رجسٹر بیعت اولیٰ کے ریکارڈ میں چالیسویں نمبر پر اُن کا نام درج ہے۔ نیز 313؍اصحاب کی فہرست میں بھی اُن کا نام 148ویں نمبر پر درج ہے: ’’میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم سامانہ پٹیالہ‘‘۔ اُن کی بیماری کی اطلاع ملنے پر دعا کے نتیجے میں حضورؑ کو کشفًا اُن کی وفات اور انجام بخیر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ جس کی اطلاع حضورؑ نے حضرت مرزا یوسف بیگ صاحب کو بذریعہ خط دے دی تھی اور اس الہامی خبر کی صداقت کو ’’تریاق القلوب‘‘ میں 69ویں نشان کے طور پر بھی پیش فرمایا۔ حضورؑ نے اس کے گواہان میں حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ کا نام بھی رقم فرمایا ہے۔
حضرت مرزا یوسف بیگ صاحبؓ کی وفات بھی حضورعلیہ السلام کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی تاہم اُن کی تاریخِ وفات کا علم نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں