حضرت مسیح موعودؑ کا بھوکوں کو کھانا کھلانے کا الہام پورا ہونے کی گواہی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مارچ 2007ء میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں آپؓ نے بطور گواہ یہ چشمدید شہادت بیان کی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ہونے والے ایک الہام کے نتیجہ میں آدھی رات کو لنگر خانہ کھول کر بھوکوں کو کھانا کھلایا گیا۔
اس واقعہ کی تفصیل آپؓ یوں بیان فرماتے ہیںکہ خاکسار 1907ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں حاضر تھا اور اُن دنوں جماعت پٹیالہ کا سیکرٹری تھا۔ جلسہ کے آخری دن صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری کی جانب سے اعلان ہواکہ آج بعد نماز عشاء صدرانجمن احمدیہ کا جنرل اجلاس مسجد مبارک میں ہوگا جس میں بیرونجات کی انجمنوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی شمولیت لازمی ہے۔ چنانچہ خاکسار باوجودیکہ سخت بھوکا تھا کیونکہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا۔ مگر غیرحاضری کے خوف سے کھانا کھانے نہ گیا۔ مگر نماز کے بعد تمام مسجد خالی ہو گئی۔ میں نے خیال کیا کہ اراکین صدر انجمن ابھی تشریف لے آئیں گے مگر کافی دیر گزرنے پر بھی کوئی نہ آیا۔ ایک طرف بھوک ستارہی تھی دوسری طرف غیر حاضری کا ڈر۔ اسی حالت میں قریباً دو گھنٹے گزر گئے۔ تب اراکین مجلس تشریف لائے اور اجلاس شروع ہوا اور پونے بارہ بجے رات ختم ہوا تو میں لنگر خانہ کی طرف گیا جسے بند پایا۔ تب میں اسی حالت میں اپنی قیام گاہ میں چلاگیا۔ ابھی لیٹنے کو تھا کہ کمرہ کے دروازہ پر کسی نے دستک دے کر کہا: جس بھائی نے کھانا نہیں کھایا، وہ لنگر خانہ میں پہنچ کر کھانا کھالے۔ لنگر خانہ دوبارہ کھولا گیا ہے۔ چنانچہ میں گیا اور شکر کے ساتھ کھانا کھالیا۔ اس وقت میرے سوا غالباً دو بھائی اَور تھے۔
اگلی صبح حضرت مسیح موعودؑ سیر کے لئے باہر تشریف لائے تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو بلاکر فرمایا کہ ’’معلوم ہوتا ہے آج رات کے کھانے کا انتظام اچھا نہ تھا کہ بعض مہمانوں کو کھانا نہیں ملا۔ کسی کی بھوک عرش تک پہنچی ہے اور مجھے دس بجے کے قریب بشدّت الہام کیا گیا : بھوکے اور بے حال کو کھانا کھلاؤ۔ سو میں نے اسی وقت باہر کہلا بھیجا تھا کہ جن مہمانوں کو کھانا نہیں ملا ان کو کھانا کھلایا جائے۔
یہ سُن کر میں دل میں خوش ہورہا تھا کہ رات میرے خدا نے مجھے کھانا کھلوایا ہے۔ پھر الہام کے پورا ہونے کی خوشی بھی تھی۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ الہام کی وجہ سے جب دوبارہ لنگر خانہ کھولا گیا تھا تو کوئی ایسا شخص ہی نہ ملتا جس نے کھانا نہیں کھایا تھا مگر دو تین ایسے آدمیوں کا پایا جانا جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ الہام خدا کے سچے مامور کو خدائے علیم و بصیر کی جانب سے کیا گیا تھا۔ لیکن حضورؑ کا یہ فرمانا کہ کسی کی بھوک عرش تک پہنچی ہے جس نے اسے ہلایا ہے ظاہر کرتا ہے کہ کسی خاص شخص کی بھوک ہے جس کا یہ کرشمہ ہے۔ پس اس جگہ میں خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں اس رات سخت بھوکا تھا کہ آٹھ بجے صبح کا کھانا کھایا ہوا تھا پھر دن میں کچھ میسر نہ آیا تھا اور عمر نوجوانی کی تھی۔ بھوک کی یہ تکلیف مجھے سلسلہ کے کام کی وجہ سے برداشت کرنا پڑی تھی۔ پس میں اپنی ناداری اور جسمانی کمزوری اور کمزوری طبع کے باعث اس وقت نہایت قابل رحم تھا اور میرا یقین ہے کہ وہ میری ہی بھوک تھی جس نے عرش کوہلایا اور بعد کے واقعات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے۔
جلسہ ختم ہونے پر خاکسار پٹیالہ آگیا اور فکر روزگار میں مبتلا ہو گیا کیونکہ تاحال میرا کوئی مستقل روزگار نہ تھا اور والد صاحب کو فوت ہوئے چار ماہ گزر چکے تھے۔ گویا لفظ معتر مجھ پر پورا صادق آتا تھا۔ ہمارے بھائی بابو عبدالحمید صاحب سیالکوٹی نے، جو اکونٹنٹ جنرل پٹیالہ کے محکمہ میں ممتاز عہدہ پر تھے، مجھے ازراہ ہمدردی کہا کہ مَیں اُن کے محکمہ میں ملازم ہوجاؤں۔ میں نے جواباً کہہ دیا کہ آپ کے محکمہ میں موسم سرما میں دفتری اوقات (دس بجے سے چار بجے) میں جمعہ کی نماز کے لئے وقت نہیں ملتا اور میں نماز جمعہ کو چھوڑ نہیں سکتا۔ پھر بھی مجبوراً میں نے محکمہ تعلیم میں ملازمت کی درخواست دیدی لیکن محکمہ نے التفات نہ کی۔ میں زیادہ پریشان حال ہو گیا تو محترم شیخ عبداللہ صاحب مرحوم نے میرے لئے ایک آسامی فوجی کمپنی کی اکونٹنٹی کی تلاش کی اور پوچھا کہ اگر تم اس جگہ ملازم ہونا چاہو تو میں کوشش کردوں کیونکہ یہ اسامی کرنل محمد رمضان کے ہاتھ میں ہے جو میرا لحاظ کرے گا۔ میں نے جواباً کہا کہ میں تو حاجتمند ہوں۔ اس پر آپ کرنل سے ملے۔ مگر کرنل نے، یہ کہہ کر کہ یہ لڑکا تو مرزائی ہے، ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ شیخ صاحب مرحوم نے مجھے کہا کہ کل اُن کے ساتھ جا کر کرنل کو ملوں اور اگر کرنل مرزائی وغیرہ کا سوال کرے تو خاموش ہو جاؤں، وہ خود ہی جواب دے لیں گے۔ اُن کی مراد یہ معلوم ہوتی تھی کہ میں اپنی احمدیت کو چھپالوں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ملازمت تو صرف تیس پینتیس روپے ماہوار کی ہے۔ میں تو اگر ہزار روپے ماہوار کی بھی ہو تب بھی اسے قبول نہ کروں اگر مجھے اپنی احمدیت چھپانی پڑے۔ اس پر آپ خاموش ہو گئے۔
اتفاق سے اسی روز حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانہ سے تشریف لائے تو اُنہیں کرنل کے ہاں ملازمت کا معلوم ہو گیا۔ وہ اصرار کرکے اگلی شام مجھے کرنل کی کوٹھی پر لے گئے۔ ہم ابھی گیٹ سے باہر ہی تھے کہ صحن میں کھڑے کرنل نے بلند آواز سے کہنا شروع کر دیا کہ مولانا! ایتھے کوئی نوکری نئیں۔ بایں ہمہ حضرت مولوی صاحب مجھے ساتھ لئے کرنل کے قریب پہنچ ہی گئے۔ تب کرنل نے حاکمانہ لہجہ میں کہا کہ جو نوکری تھی وہ کل ایک سکھ لڑکے کو دیدی ہے۔ اس پر ہم واپس آگئے۔ میرا دل کرنل کے بُرے سلوک پر سخت آزردہ تھا اور مَیں نے مغرب کی نماز کی سنتوں میں نہایت عاجزی سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے ایسا رزق دے کہ میں کرنل جیسے لوگوں کا محتاج نہ بنوں۔
اگلے روز میں اپنی دکان کھولے بیٹھا تھا۔ کوئی گاہک تھا، نہ مال۔ میرا ایک سکول فیلو مادھو رام آیا اور مجھے کہنے لگا کہ دکان میں چیزیں تو ہیں نہیں اس لئے گاہک بھی نہیں آتے، تم کماتے کیا ہو اور کھاتے کہاں سے ہو؟ میں نے کہا کہ میرے پاس روپیہ ہی نہیں تو سامان کہاں سے لاؤں، ملازمت بھی کسی نے نہیں دی۔ وہ بولا کہ تم میٹرک پاس ہو، میڈیکل سکول لاہور میں کیوں داخل نہیں ہوجاتے؟ میں نے کہا کہ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو اپنے شہر کے کالج ہی میں کیوں نہ داخل ہوجاتا۔ وہ کہنے لگا کہ میڈیکل سکول کے لئے ریاست سے وظیفہ ملتا ہے۔ میں نے کہا مجھے وظیفہ کس نے دینا ہے؟ اُس نے کہا کہ میرے محلہ میں میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کا سیکنڈکلرک لالہ مولک رام رہتا ہے، مَیں اسے کہوں گا کہ تمہیں وظیفہ دلوادے۔ میں نے کہا کہہ دو۔ تب اُس لڑکے نے اسی شام کلرک صاحب کو کہا اور اُس نیک دل کلرک نے چند دن بعد کی تاریخ بتلا دی اور کہا کہ Major Ainsworth کی کوٹھی پر اتنے بجے درخواست لے کر پہنچ جانا۔ چنانچہ میں پہنچ گیا اور حسب وعدہ کلرک نے میری درخواست پیش کر دی۔ صاحب بہادر نے میرا چہرہ دیکھ کر صرف یہ پوچھا کہ کیا تم میڈیکل سکول لاہور میں داخلہ لینا چاہتے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے پرنسپل کے نام چٹھی لکھ کر مجھے دی اور فرمایا کہ کل ہی لاہور روانہ ہو جاؤ کہ پرسوں داخلہ لیا جارہا ہے۔ چنانچہ میں 20؍اپریل 1908ء کو میڈیکل سکول میں داخل ہو گیا۔ تب میں نے خداتعالیٰ کو پہچانا کہ وہ غریبوں کا خبرگیر ہے اور صرف وہی ہے جو سچی محبت کرسکتا ہے۔
لاہور میں میرے چار سال نمازوں اور سجدوں میں گزرے۔ میں ایک حقیر ترین طالبعلم سے باعزت بنتے ہوئے آخری امتحان میں کامیاب ہوا۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے میری جسمانی غذا کا انتظام غیرمعمولی طور پر فرمایا، اسی طرح میری روحانی غذا کا انتظام بھی معجزانہ رنگ میں فرمادیا ۔ چنانچہ مجھے لاہور میں آئے صرف دس روز ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ 29؍اپریل 1908ء کو لاہور تشریف لے آئے تا میں حضورؑ کے فیض صحبت اور کلمات طیبات سے مستفید ہو سکوں۔
میڈیکل سکول میں کامیاب ہوکر مَیں 12 جون 1912ء کو راجندر ہسپتال پٹیالہ میں ملازم ہو گیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے میرے افسر میرے کام سے خوش تھے اور ابھی ایک سال بھی نہ ختم ہونے پایا تھا کہ مجھے اہم کام سپرد کر دیئے گئے۔ سب سے بڑے افسر ڈاکٹر کاون نے تو عملہ کے سامنے یہ بھی کہہ دیا کہ اُس نے مجھ جیسا سب اسسٹنٹ سرجن اپنی تمام سروس کے زمانہ میں نہیں دیکھا۔ ایک دو سال کے عرصہ میں میری شہرت ہر خاص و عام میں پھیل گئی یہاں تک کہ مجھے مہاراجہ صاحب کے خاص طبی عملہ میں لیا جانے لگا۔ جو میری متضرعانہ دعا کی وجہ سے رُک گیا۔ کیونکہ مجھے اپنے دین کے برباد ہو جانے کا خطرہ تھا۔
ایک روز جبکہ میں اپنے ہسپتال کے آپریشن روم کے (جس کا میں انچارج تھا) باہر چبوترے پر کھڑا ہوا تھا کہ سامنے وہی کرنل رمضان نظر آیا۔ اُس نے مجھے فرشی سلام کیا اور لجاجت سے کہنے لگا کہ میرے بزرگ کی آنکھ کا آپریشن ہونا ہے۔ مہربانی فرما کر اس کا خیال رکھیں۔ میں نے اسے تسلی بخش جواب دیدیا اور اس کے برے سلوک کو نہ جتایا۔ مگر میرا دل اپنے ربّ محسن کے حضور سجدہ میں گر گیا۔
اب خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے فراخیٔ رزق تو حاصل ہو چکی تھی لیکن خداتعالیٰ مجھے روحانی رزق بھی بکثرت دینا چاہتا تھا۔ میں 1906ء سے جماعت پٹیالہ کا سیکرٹری تھا نیز 1906ء سے انجمن تشحیذالاذہان کا ممبر بھی تھا لیکن میرا ذاتی تعارف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن نہ معلوم میرے مولیٰ نے حضورؓ کے دل میں میرا خیال کس طرح ڈالا کہ حضورؓ کی جانب سے شفقت نمائی ہونے لگ گئی۔ پھر 1918ء میں انفلوئنزا کی سخت وبا پھوٹی اور سخت موتا موتی لگی۔ قادیان میں بھی اس کا زور ہوا اور کئی احباب کی موت کا موجب بنی۔ حضورؓ پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔ یہاں تک کہ اپنی حالت کے پیش نظر حضورؓ نے وصیت بھی لکھوا دی۔ حضورؓ کا علاج یونانی اور انگریزی دونوں طریقوں سے کیا جارہا تھا۔ لیکن ایک مرحلہ ایسا آگیا کہ دوسرے ڈاکٹر کی ضرورت پڑگئی۔ ایسے میں بیک وقت دوتار حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کی جانب سے دیئے گئے۔ ایک حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو پانی پت میں اور دوسرا خاکسار کو۔ خاکسار کو یہ تار جمعہ کی نماز کے وقت ملا۔ صاحب سول سرجن نے بمشکل دو دن کی میری رخصت منظور کی۔ میں نے اسی شام کو قادیان کی راہ لی اور اگلے روز دو تین بجے قادیان پہنچ گیا۔ قریب چار بجے مجھے حضورؓ کی خدمت میں لے جایا گیا۔ حضورؓ دالان میں زمین پر کئے ہوئے بستر پر، جہاں حضرت مسیح موعودؑ رہا کرتے تھے، لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضورؓ خوش ہوئے اور اپنی بیماری کا حال بیان فرمانے لگ گئے۔ بیان کے دوران اتفاق سے اہل پیغام کا (غالباً ان کی ایذارسانی) کا ذکر آگیا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ حضورؓ کا بیان ختم ہونے پر میں نے آپؓ کا طبی معائنہ کیا اور بشرح صدر بتلایا کہ پھیپھڑے اور دل خداتعالیٰ کے فضل سے بالکل محفوظ ہیں اور دونوں نہایت عمدہ ہیں۔ یہ سن کر حضور کو بہت تسلی ہوئی اور حضور کا چہرہ پُررونق نظر آنے لگا۔ حضورؓ نے میری چارپائی اسی دالان میں لگوا دی اور میری دو دن کی رخصت میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کو پٹیالہ بھیج کر تین ماہ کی توسیع کروادی۔ علاج معالجہ کا سلسلہ جاری ہو گیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے صحت میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی۔ میری رہائش رخصت کے اختتام تک اسی دالان میں رہی اور حضورؓ بھی اسی کمرہ میں قیام فرما رہے۔ رات کو صرف میں ہی حضورؓ کے پاس سوتا تھا اور ہم دونوں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔
جس روز میں پٹیالہ کو واپس روانہ ہورہا تھا، اُس روز حضورؓ نے میرے اعزاز میں بہت سے احباب کو دعوت طعام دی اور مجھے قصبہ کے باہر تک چھوڑنے کے لئے تشریف لائے۔ پٹیالہ میں مجھے چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ حضورؓ نے خطوں کے ذریعہ علالت طبع کا لکھنا شروع کر دیا۔ آخر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کو پٹیالہ بھجواکر میری چھ ماہ کی رخصت منظور کروادی اور میں صرف تیرہ روز بعد دوبارہ قادیان پہنچ گیا۔ اس دفعہ مجھے دارالبرکات میں ٹھہرایا گیا اور پھر روزانہ ایک وقت اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کا کئی ماہ تک موقع مل گیا۔ چندہ ماہ بعد حضور کے منشاء سے میں نے اپنا استعفیٰ لکھ بھیجا اور اپنے اہل و عیال کو پٹیالہ سے بلاکر عافیت کے قلعہ میں بسالیا اور مجھے 45 سال سے حضورؓ اور دیگر افراد خاندان کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ گویا اُس الہام کی عجب شان ہے کہ مجھے سالہاسال سے تاایں دم (1964ٰء) حضرت مسیح موعودؑ کے مثیل اور خلیفہ برحق کے دسترخوان سے کھانا کھلوارہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں