حضرت مسیح موعودؑ کا عشق قرآن

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28ستمبر 2011ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عشق قرآن کے حوالہ سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود کے ذریعہ قرآن کریم کے انوار اور برکات اور معارف و علوم کا احیاء مقدّر تھا اس لئے خدا کی خاص تقدیر نے قادیان کو قرآن کریم سے خاص نسبت عطا فرمائی تھی اور حضورؑ کے بزرگوں کے دلوں میں قرآن کی غیرمعمولی محبت ڈال دی تھی۔ چنانچہ حضورؑ کے جدّامجد حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب عہد بابری کے دوران سمرقند سے ہجرت کرکے برصغیر میں آئے تو ایک جنگل کو آباد کرکے اس کا نام اسلام پور رکھا جو اسلام پور قاضی ماجھی سے ہوتا ہوا قادیان بن گیا۔
قادیان کی خود مختار ریاست قریباً پونے دو سو سال قائم رہی اور اس میں قرآن مجید کا غیرمعمولی چرچا رہا۔ یہاں کسی زمانہ میں سو سو حفاظ قرآن اور علماء و صلحاء ہر وقت موجود رہتے تھے۔ مگر جب سکھ اس عدیم النظیر خطہ پر قابض ہو گئے تو عالیشان مساجد یا تو مسمار کر دی گئیں یا دھرم سالہ میں بدل دی گئیں ۔ قادیان کا اسلامی کتب خانہ (جس میں قرآن شریف کے 500 قلمی نسخے تھے) جلا دیا گیا اور کئی اسلامی یادگاروں کے آثار تک معدوم کر دیئے گئے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’خداتعالیٰ نے جو کچھ اپنی خوبیوں کا قرآن شریف میں ذکر کیا ہے وہ تمام حسن اور محبوبانہ اخلاق کے بیان میں ہے اور اس کے پڑھنے سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کو خدا کا عاشق بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے ہزارہا عاشق بنائے اور مَیں بھی ان میں سے ایک ناچیز بندہ ہوں ۔‘‘
٭ حضرت مسیح موعودؑ نے 2 ؍اکتوبر 1891ء کو دہلی سے ایک اشتہار عام دیا جس میں تحریر فرمایا: وہی رسول کریم میرا مقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے اور وہی قرآن شریف میرا ہادی ہے اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے۔
٭ حضور علیہ السلام نے اس صداقت کی ہمیشہ منادی فرمائی کہ ’’میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گزرا ہے مگر مَیں سچ مچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم کو خواہ اس کا عقائد کا حصہ اور خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا‘‘۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کا خمیر محبتِ قرآن سے اٹھایا گیا تھا اس لئے آپ بچپن ہی سے دن رات قرآن شریف پڑھتے، اس پر تدبر کرتے اور حاشیہ پر نوٹس لکھتے رہتے تھے۔
٭ آپؑ کے خادم مرزا سماعیل بیگ صاحب کی روایت ہے کہ کبھی حضورؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مجھے بلاتے اور دریافت کرتے کہ سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟ مَیں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں ۔ اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے؟ پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے؟ مَیں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں ۔ اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اُس نے سارے تعلقات چھوڑ دیئے ہیں ۔ میں اَوروں سے کام لیتا ہوں ۔ دوسرا بھائی کیسا لائق ہے مگر وہ معذور ہے۔
٭ حضرت مرزا دین محمد صاحب لنگروال فرماتے ہیں : مَیں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھتا آیا ہوں اور سب سے پہلے آپؑ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا جبکہ میں بالکل بچہ تھا۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ جب صبح کی اذان ہوتی تو سنّتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے۔
٭ حضورؑ کے بچپن کے ساتھی لالہ ملاوامل کی گواہی ہے کہ آپؑ کو قرآن سے خاص عشق تھا۔ آپؑ ہمیشہ رات کو دو تین بجے کے قریب اٹھتے اور نماز شروع کر دیتے، بہت اطمینان سے نما زپڑھ کر پھر قرآن شریف پڑھتے۔ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر سو جاتے۔ اس کے بعد سیر کو جاتے اور سیر میں بھی دینی باتوں میں مصروف رہتے۔
٭ حضرت حکیم محمد زاہد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ کا آخری تین چار سالوں کے علاوہ پہلے یہ معمول تھا کہ صبح کی نماز مسجد مبارک قادیان میں ادا فرما کر حضورؑ گھر میں آتے ہی تلاوت قرآن کریم فرمانا شروع کر دیتے۔ گو تلاوت جلدی جلدی فرماتے لیکن ہر لفظ نہایت صفائی سے سمجھ آتا تھا اور عموماً ٹہل کر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ عموماً ایک سپارہ روزانہ تلاوت فرماتے تھے۔ کبھی کبھی ایک منزل قرآن کی بھی تلاوت فرما لیا کرتے تھے (قرآن کریم کو سات منازل میں تقسیم کیا گیا ہے)۔ جونہی حضور تلاوت کے لئے قرآن لیتے تو خاکسار بھی قرآن لے کر بیٹھ جاتا اور حضور کے ساتھ ساتھ تلاوت کرتا جاتا اور اپنی تلاوت میں پائی جانے والی غلطیوں کو درست کرلیتا۔ تلاوت کے بعد حضورؑ سیر کے لئے باہر تشریف لے آتے۔
٭ حضرت امّاں جانؓ بیان کرتی ہیں : حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں : اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہ۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آواز میں بہت سوز اور درد تھا اور آپ کی قراء ت لہر دار ہوتی تھی۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ جب بوجہ بیماری مسجد میں تشریف نہ لے جاسکتے تھے تو اکثر مغرب اور عشاء کی نماز گھر میں باجماعت ادا فرماتے اور عشاء کی نماز میں قریباً بلاناغہ سورہ یوسف کی بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ سے لے کر اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ تک کی آیات آپ اس قدر دردناک لہجہ میں تلاوت فرماتے کہ دل بیتاب ہو جاتا۔
٭ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضور نماز میں اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا بہت تکرار کرتے تھے اور سجدہ میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوم کا بہت تکرار کرتے۔ بار بار یہی الفاظ بولتے جیسے کوئی بڑے الحاح اور زاری سے کسی بڑے سے کوئی شے مانگے اور بار بار روتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز کو دہرائے۔ ایسا ہی آپؑ کرتے۔ عموماً پہلی رکعت میں آیت الکرسی پڑھا کرتے تھے۔ سجدہ کو بہت لمبا کرتے اور بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا کہ اس گریہ و زاری میں آپؑ پگھل کر بہہ جائیں گے۔
٭ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 1895ء کا رمضان مجھے قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہو ا اور مَیں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخر شب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ نیز سحری ہمیشہ نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے۔
٭ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں قادیان میں حضورؑ کے کمرہ کے باہر سویا ہوا تھا۔ رات کو عاجز کی آنکھ کھلی تو کیا سنتا ہوں کہ حضور چِلّا چِلّا کر قرآن شریف کی تلاوت فرمارہے ہیں ۔ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب سے عشق کا اظہار کرتا ہے۔ حضور کے عشق کی کیفیت عاجز کے بیان سے باہر ہے۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ جب تنہائی میں قرآن کریم پڑھتے تو اس میں رقّت و گداز کی لہریں پیدا ہوتی تھیں ۔ آپؑ کے رنگ میں مَیں نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو ترنم کرتے پایا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھتے یا سنتے وقت حضرت اقدسؑ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تلاوت قرآنی کے واقعات کی متواتر شہادت ان لوگوں سے ملی ہے جنہوں نے بلاواسطہ آپؑ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپؑ کے کلام میں ایک درد، رقّت اور محبت کی لہر ہوتی تھی، باوجودیکہ اس میں موسیقی کا رنگ نہ ہوتا تھا۔ مگر اس میں بے انتہا جذب اور کیف آور لہر ہوتی تھی۔ آپ کے قرآن مجید پڑھنے کے کئی طریق تھے۔ بعض اوقات آپ قرآن مجید کو اس نیت سے پڑھتے تھے جبکہ آپ کو کوئی مضمون لکھنا ہوتا تھا۔ اس کا رنگ بالکل الگ تھا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے محبت و عشق کی کیفیت میں ایک ہنگامہ خیز کیف پیدا کرنے کے لئے تلاوت کرتے تھے اور یہ علی العموم آپ رات کو فرماتے تھے جبکہ دنیا سوئی ہوتی تھی۔ اس وقت آپؑ گنگنا کر قرآن مجید پڑھتے اور آپؑ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوتی تھی اور اس کیفیت کا ذکر آپؑ نے یوں فرمایا ہے: ؎
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
٭ حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ کی روایت ہے کہ ’’آپؑ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔ اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔ مَیں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شائد دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو‘‘۔
٭ حضرت مرزا شریف احمد صاحب فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ ایک بڑی تقطیع کے قرآن شریف پر تلاوت فرما رہے تھے۔ اونچی آواز سے پڑھ رہے تھے اور ہر لفظ پر انگلی رکھتے تھے۔ گویا قرآن شریف کی تلاوت سے جہاں زبان اس کو پڑھنے کی برکت حاصل کررہی ہے اور آنکھوں کو یہ ثواب ہے کہ وہ اسے دیکھ رہی ہیں اور کان اسے سننے کا اجرپارہے ہیں ۔ وہاں انگلی اور ہاتھ بھی اس سعادت سے محروم نہ رہیں ۔
٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ پالکی میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جارہے تھے (اور یہ سفر قریباً پانچ گھنٹے کا تھا)۔ آپؑ نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورہ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورۃ کو اس استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا وہ ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے ازلی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں ۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے قیامِ سیالکوٹ کے ذکر میں شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب (استاد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال) فرماتے ہیں : حضرت مرزا صاحب پہلے اِس عاصی پُرمعاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب رہا کرتے تھے۔ کچہری سے جب تشریف لاتے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوجاتے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہوکر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
حضرت صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ آپ جب کچہری سے تشریف لاتے تو دروازہ میں داخل ہونے کے بعد دروازہ کو پیچھے مُڑ کر بند نہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر نہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوکر دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھر پیچھے مڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے۔ گھر میں سوائے قرآن مجید پڑھنے اور نمازوں میں لمبے لمبے سجدے کرنے کے اَور آپ کا کوئی کام نہ تھا۔ بعض آیات لکھ کر دیواروں پر لٹکا دیا کرتے تھے اور پھر اُن پر غور کرتے رہتے تھے۔
٭ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ آپؑ کے دعویٰ سے قبل کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اُس وقت آپؑ کے مشاغل بجز عبادت و ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن مجید اَور کچھ نہ تھے۔ آپؑ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔ دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے وہ اکثر آپ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔ قرآن مجید کی تلاوت، اس پر تدبّر اور تفکّر کی بہت عادت تھی۔ اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا اور کلام الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی اور اس تلاوت اور پُرغور مطالعہ نے آپؑ کے اندر قرآن مجید کی صداقت اور عظمت کے اظہار کے لئے ایک جوش پیدا کردیا تھا اور خداتعالیٰ نے علوم قرآنی کا ایک بحر ناپیداکنار آپ کو بنا دیا تھا۔ جو علم کلام آپ کو دیا گیا اُس کی نظیر پہلوں میں نہیں ملتی۔ غرض ایک تو قرآن مجید کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی اور اس کی عظمت اور صداقت کے اظہار کے لئے ایک رَو بجلی کی طرح آپ کے اندر دوڑ رہی تھی۔
٭ قیامِ سیالکوٹ کے حوالہ سے ہی مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ حضورؑ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بلاتے اور اُن کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اَور لوگ تو کوئی مضمون لکھیں تو مختلف کتابیں دیکھتے اور اِدھر اُدھر سے اپنے مطلب کی باتیں اخذ کرکے مضمون لکھتے ہیں اور کبھی قرآن شریف کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ لیکن حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے، مضمون لکھنا ہو یا کوئی کتاب تو اس سے قبل، آپؑ بالضرور مقدّم طور پر قرآن شریف کو پڑھتے اور اکثر دفعہ میں نے دیکھا کہ سارے کا سارا قرآن شریف پڑھتے اور خوب غور و خوض فرماتے پھر کچھ لکھتے۔ گویا آپ کی ہر تحریر قرآن شریف پر مبنی ہوتی۔ جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا وہ قرآن ہی کے مطالب بیان کئے۔ اگرچہ سارے قرآن شریف کے ساتھ آپ کو تعلق تھا لیکن بالخصوص سورہ فاتحہ کے ساتھ آپ کو بہت تعلق تھا۔ کوئی مضمون ایسا نہیں جس میں آپ نے سورۂ فاتحہ سے کچھ نہ کچھ استنباط اور استدلال کرکے پیش نہ کیا ہو۔آپؑ نے ’’اعجاز المسیح‘‘میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر عربی زبان میں لکھی۔ ایسا ہی ’’براہین احمدیہ‘‘ میں بھی ایک حصہ سورہ فاتحہ کی تفسیر پر صَرف فرمایا اور اَور جگہوں پر بھی بالخصوص اس کی تفسیر و مطالب کو بیان فرمایا۔
٭ سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران کا اکثر معمول تھا کہ آپ گھر سے باہر اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے اور صرف اتنا حصہ چہرہ کا کھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ جب کچہری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کر لیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ آپ کے اس طریق مبارک سے بعض متجسّس طبیعتوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ ٹوہ لگانا چاہئے کہ آپ کواڑ بند کر کے کیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک دن ’سراغ رسان‘ گروہ نے آپ کی ’خفیہ سازش‘ کو بھانپ لیا یعنی انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلّیٰ پر رونق افروز ہیں ، قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی اور رقّت اور الحاح وزاری اورکرب وبلا سے دست بدعا ہیں کہ یا اللہ! تیرا کلام ہے مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں ۔
٭ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ مجھے حضرت مولانا نورالدین صاحب سے قرآن پڑھنے اور ان کے درس میں بیٹھنے کی بہت تاکید فرماتے تھے۔ بلکہ خود بھی مجھے پڑھایا کرتے تھے اور قرآن شریف کے مطالب سمجھایا کرتے تھے۔
٭ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ایک صاحب کشف و الہام اور عالی پایہ بزرگ تھے۔ قرآن کے عاشق اور حدیث رسول کے شیدائی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آپؑ کو اپنے مہمانوں کے احساسات کا اس قدر گہرا خیال تھا (ہمارے) والدین سے آپ کو بہت ہی محبت تھی۔ خصوصاً والدہ صاحبہ کے ساتھ اور اس قدر احترام تھا کہ والدہ صاحبہ کی خاطر قرآن مجید کا درس عورتوں میں جاری کیا اورپہلا درس آپؑ نے دیا۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت خلیفہ اولؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو بلا کر کہا کہ والدہ عبدالرزاق رعیّہ سے تشریف لائی ہیں اور مجھے ان کے متعلق بہت ہی خیال رہتا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ ان کی خاطر عورتوں میں قرآن مجید کا درس جاری کیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے درس دیتے ہوئے یوں تمہید باندھی اور کہا کہ مَیں سید عبدالستار صاحب کی اہلیہ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کے دل میں تحریک ڈالی ہے اور عورتوں میں درس جاری کرنے کا انہیں سبب بنایا ہے۔ کاش کہ قادیان کی عورتیں اپنے اندر وہ خوبی رکھتیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ان کے متعلق بھی یہ احساس پیدا ہوتا۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ اپنے خدّام کے ساتھ سیر کے لئے جارہے تھے اور اُن دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب (حاجی پورہ والوں ) کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں ۔ حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا تو اس وقت مَیں نے دیکھا کہ آپؑ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
مکرم شیخ عبدالرحمن صاحب نے اس واقعہ کے حوالہ سے مزید فرمایا کہ حضورؑ کو قراء ت بہت پسند آئی اور وہیں حضورؑ نے فرمایا کہ روزانہ بعد نماز عشاء ہمیں قرآن مجید سنایا کریں ۔ چنانچہ قریباً ایک ماہ وہ حضورؑ کو قرآن مجید سناتے رہے۔
٭ جب حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی عزت ملی اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی۔ حافظ صاحب نہایت سقیم حالت میں تھے۔حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور اپنے ساتھ بلا کر لے گئے اور کھانا کھلایا اور پھر کہا کہ حافظ تُو میرے پاس رہا کر۔ حافظ صاحب کے لئے یہ دعوت غیر متوقع تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اس مہربانی اور شفقت کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور بڑی شکر گزاری سے آپؑ کی خدمت میں رہنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ پہلے حافظ صاحب نے سمجھا کہ شایدمجھے کوئی کام کرنا پڑے اور عرض کیا کہ مرزا جی! مجھ سے کوئی کام تو ہو نہیں سکے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حافظ! کام تم نے کیا کرنا ہے، اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے اور تُو قرآن شریف یاد کیا کر۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں : ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طبّ جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیرِ قرآن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدّق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق درعمیق طب جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں اور اگر خدا نے چاہا اور زندگی نے وفا کی تو میرا ارادہ ہے کہ قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھ کر اس جسمانی اور روحانی تطابق کو دکھلاؤں ۔
٭ حضورؑ کی تمام کتب ہی نور قرآن سے بھرپور ہیں مگر ان میں براہین احمدیہ کا ایک خاص مقام ہے۔
1880ء میں آپؑ نے قرآن مجید کی حقانیت کے ثبوت میں براہین احمدیہ (حصہ اول) جیسی معرکۃ الآراء کتاب شائع فرمائی جس نے کتاب اللہ کے دشمنوں کو ساکت و لاجواب کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ مولانا محمد شریف صاحب ایڈیٹر منشور محمدؐی (بنگلور) نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ۔ مصنف نے صداقت اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوت آخرالزماں ؐ حق ہے۔
٭ حضرت مرزا صاحب تمام اوقات خدائے عزوجل کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں یا دوسرے ایسے ہی دینی کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین اسلام کی حمایت پر اس طرح کمرہمت باندھی ہے کہ ملکہ زماں لندن کو بھی دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ہے اور روس اور فرانس اور دیگر ملکوں کے بادشاہوں کو بھی اسلام کا پیغام بھیجا ہے اور ان کی تمام تر سعی و کوشش اس بات میں ہے کہ وہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب کو جو کہ سراسر کفر ہے چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اختیار کرلیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں