حضرت مسیح موعودؑ کی بچوں سے شفقت

ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 2010ء میں مکرم محمد اکرام صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بچوں کے ساتھ شفقت کے حوالہ سے متفرق واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصاً شفقت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اولاد میں خودداری اور عزت نفس پیدا کرنے کے لئے ہدایت فرمائی:

اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ ۔

اس ارشاد میں تربیت اولاد کا بہترین راز مضمر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کا کامل نمونہ تھے۔ آپؑ کا طرز عمل تربیت اولاد اور بچوں پر شفقت کے متعلق بڑا ہی حسین تھا۔
٭ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تحریر فرماتے ہیں کہ: آپؑ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپؑ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمار داری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں۔ مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور خدا کے لیے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدّنظر ہے۔ آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی۔ آپؑ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیادار دنیا کی عرف و اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مَر گئی تو آپؑ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔
٭ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں کہ : ’’حضرت بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف ہیں۔ میں نے بارہا دیکھا ہے ایسی کسی چیز پر برہم نہیں ہوتے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچہ کو مارا ہے۔ یہاں ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے لڑکے کو عادتاًمارا تھا۔ حضرت بہت متأثر ہوئے اور انہیں بلاکر بڑی درد انگیز تقریر فرمائی۔ فرمایا میرے نزدیک بچوں کو یوں مارناشرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ فرمایا: ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے۔ اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے۔ مگر مغضوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔ فرمایا: جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کر لیں۔ اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔ فرمایا: میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں۔ اوّل اپنے نفس کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ خدا مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔ اور پھر اپنے گھر والوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃالعین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔ پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدّام بنیں اور پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام اور پھر ان سب کے لیے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے۔ مدرسہ تعلیم الاسلام میں جب کبھی کسی استاد کے خلاف شکایت آتی کہ اس نے کسی بچے کو مارا ہے تو سخت ناپسند فرماتے اور متواتر ایسے احکام نافذ فرماتے کہ بچوں کو جسمانی سزا نہ دی جائے۔ چھوٹے بچوں کے متعلق فرمایا کرتے کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تو مکلف ہیں ہی نہیں پھر تمہارے مکلف کیونکر ہو سکتے ہیں۔
٭ حضورؑ کی تربیتِ اولاد کے حوالہ سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ابھی بچے ہی تھے۔ 11 فروری 1904ء کی شام کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حسب معمول مسجد میں تشریف فرما تھے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مسجد میں آ گئے اور حضرت اقدسؑ کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آنے پر آپ دبی آواز سے کھلکھلا کر ہنس پڑتے تھے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ’’مسجد میں ہنسنا نہ چاہئے‘‘۔ جب میاں صاحب نے دیکھا کہ ہنسی ضبط نہیں ہوتی تو چپکے سے چلے گئے اور حضرت اقدسؑ کی نصیحت پر اس طرح عمل کر لیا۔
٭ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔
٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنا ایک ذاتی واقعہ سیرت المہدی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے حجرہ میں کھڑے تھے۔ والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں۔ مَیں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین صاحب کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے۔ اس طرح نام نہیں لیا کرتے۔
٭ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ آپ کس شفقت پدری کا نمونہ تھے۔ ایک بار محمود نے جو اس وقت بچہ تھا۔ آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپ جب لیٹیں تو وہ اینٹ چبھے۔ مَیں موجود تھا۔ آپ حامد علی صاحب سے فرماتے ہیں حامد علی! چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا۔ اور آپ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا اور آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی ۔ مسکرا کر فرمایا کہ ’’اوہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں مَیں اس سے کھیلوں گا‘‘۔ اس واقعہ سے حضور کے استغراق کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی کہ بچہ کی دلداری کا کس قدر خیال ہے۔
٭ ایک مرتبہ حضرت خلیفہ ثانی نے جبکہ وہ چار برس کے تھے دیا سلائی لے کر حضور کے مسودّوں کو آگ لگا دی اور آن کی آن میں ساری محنت کو ضائع کر دیا۔ مگر آپ نے کسی بھی خفگی یا رنج کا اظہار نہیں کیا بلکہ مسکرا کر صرف اتنا کہا: ’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہوگی۔ اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے‘۔
٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد صاحب کو چھیڑنے لگ گئے کہ ابّا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے۔ میاں شریف بہت چڑتے تھے۔ حضرت نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو۔ مگر ہم بچے تھے لگے رہے۔ آخر میاں شریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی۔ حضرت صاحب اُٹھے اور چاہا کہ ان کو گلے لگا لیں تاکہ ان کا شک دُور ہو مگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا ہے پرے پرے کھنچتے تھے۔ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شاید اِسے تکلیف ہے اس لیے دُور ہٹتا ہے۔ چنانچہ کافی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھنچتے تھے اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے۔
٭ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ: جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابّا پیسہ دو۔ اور آپؑ رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے۔ اگر ہم کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تو آپؑ فرماتے تھے کہ میاں اس و قت کام کر رہا ہوں تنگ نہ کرو۔
٭ عام طور پر بچوں میں کہانیاں کہنے اور سننے کا شوق ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے بھی اس کلّیہ سے مستثنیٰ نہ تھے۔ خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ حضرت اقدسؑ بھی ان کی دلداری نہیں بلکہ تربیت کے خیال سے کہانیاں سننے کی اور دوسروں کو سنانے کی نہ صرف اجازت دیتے تھے بلکہ خود بھی بعض اوقات سنا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایک برے بھلے آدمی کی کہانی بھی آپؑ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بُرا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا۔ آخر کار بُرے آدمی کا انجام بُرا ہوا اور اچھے کا اچھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ اچھی کہانی سنا دینی چاہئے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے۔
٭ کبھی کبھی بچے بھی آپؑ کو کہانیاں سنایا کرتے تھے اور آپ بیٹھے ہوئے کہانیاں سنتے اور اُکتاتے نہ تھے۔ آپ کا یہ فعل شوق سے نہ تھا بلکہ محض بچوں کی دلداری اور تربیت کے پہلو سے تھا۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تحریر فرماتے ہیں: بارہا مَیں نے دیکھا ہے اپنے اور دوسرے بچے آپؑ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپؑ کو مضطر کر کے پائینتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوّے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں۔ گویا کوئی مثنوی مُلّائے روم سنا رہا ہے۔ حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ بچے کیسے ہی بسوریں، شوخی کریں، سوال میں تنگ کریں اور بے جا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیرموجود شئے کے لئے حد سے زیادہ اصرار کریں۔ آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں۔
٭ 15 فروری 1901ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلباء کا کرکٹ میچ تھا۔ بعض بزرگ بھی بچوں کی خوشی بڑھانے کے لئے وہاں موجود تھے۔ حضرت اقدسؑ کے ایک صاحبزادے نے بچپن کی سادگی میں کہا کہ ابّا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے۔ آپؑ نے جو جواب دیا وہ آپ کی فطرتی خواہش اور مقصد اعلیٰ کا اظہار کرتا ہے فرمایا: ’’وہ تو کھیل کر واپس آ جائیں گے مگر میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا‘‘۔
آپ بچوں کو اس قسم کے کھیلوں میں شریک ہونے سے کبھی نہیں روکتے تھے بلکہ پسند فرماتے تھے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کی خوابوں کو بھی نظر انداز نہ فرماتے تھے بلکہ بعض اوقات فرماتے کہ بچوں کا نفس ذکیہ ہوتا ہے اور اس لیے ان کی خوابیں بھی صحیح ہوتی ہیں۔ اور اپنی اولاد ہی کی خوابوں تک اس امر کو محدود نہ رکھتے تھے بلکہ کسی بھی بچہ کی خواب آپؑ تک پہنچ جاوے اگر وہ خواب کوئی حقیقت رکھتی ہے جس کو حضور خوب سمجھ سکتے تھے تو نہ صرف اُسے نوٹ کر لیتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے۔ غرض اکثر رؤیا بچوں کی آپ نوٹ کر لیا کرتے تھے اور بعض کی ان میں سے اشاعت بھی ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب آپؑ 1905ء کے زلزلہ عظیمہ کے بعد باغ میں تشریف لے گئے تو ڈاکٹر صادق صاحب کے بڑے لڑکے منظور صادق نے ایک رؤیا دیکھی کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس خواب کو سن کر اپنے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکرا ذبح کیا اور آپ کی اتباع میں ہر شخص نے جو مقدرت رکھتا تھا ہر ممبر خاندان کی طرف سے ایک ایک یا اپنے کُل خاندان کی طرف سے ایک ہی بکرا ذبح کیا اور اس قسم کی قربانیوں سے خون کی ایک نالی جاری ہو گئی تھی۔ کم از کم ایک سَو بکرا ذبح ہوا ہو گا۔
٭ بچوں کی ہر قسم کی خوشی کی تقریب کو آپؑ مناتے تھے۔ آمین کے جلسے ہوتے تھے اور اس تقریب پر سچی اور حقیقی خوشی کا اظہارہوتا تھا۔ لیکن آپ یہ کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ ان تقریبات پر کسی قسم کا کوئی ایسا فعل ہو جو خلاف شریعت اور خلاف سنّت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ بچوں کے عقیقہ کی تقریب تو ان کے بچپن کے ایسے وقت ہوتی ہے کہ ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا۔ البتہ آمین کی تقریب ایسی تھی کہ وہ محسوس کرتے تھے اور جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔
٭ حضورؑ بچوں کو گود میں اُٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے اور سیر میں بھی اُٹھالیا کرتے۔اس میں کبھی آپ کو تأمل نہ ہوتا تھا۔ اگرچہ خدام جو ساتھ ہوتے وہ خود اُٹھانا اپنی سعادت سمجھتے مگر حضرت بچوں کی خواہش کا احساس یا ان کے اصرار کو دیکھ کر آپ اٹھا لیتے اور ان کی خوشی پوری کر دیتے پھر کچھ دُور جاکر کسی خادم کو دے دیتے۔
صاحبزادی امۃ النصیر کی وفات پر ان کا جنازہ بھی حضور نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھایا تھا اور چھوٹے بازار سے باہر نکلنے تک حضورؑ ہی اُٹھائے ہوئے لے گئے تھے۔
یہ تمام واقعات حضورعلیہ السلام کی کمال شفقت اور محبت پر دلالت کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں