حضرت مسیح موعودؑ کی معجزانہ شفا
بعثت سے قبل ہی 1880ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ قولنج زحیری سے بیمار ہوئے اور 16 دن تک برابر آپؑ کوخون کے دست آتے رہے۔ سخت تکلیف تھی لیکن شدت کرب میں بھی آپؑ کے مونہہ سے کوئی بے صبری کا کلمہ نہ نکلا بلکہ برابر تسبیح و تحمید میں لگے رہے۔ ایسے میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے والد شیخ رحیم بخش صاحب عیادت کے لئے آئے تو کہنے لگے کہ یہ بیماری تو وباء کے طور پر پھیلی ہوئی ہے اور میں بٹالہ میں ایک جنازہ پڑھ کر آ رہا ہوں جو اسی بیماری سے فوت ہوا ہے۔ قادیان میں بھی میاں محمد بخش اسی بیماری میں مبتلا ہوکر صرف آٹھ روز میں فوت ہوگیا تھا۔ مگر حضورِ اقدس 16 روز تک یہ تکلیف اٹھاتے رہے اور آخر نقاہت کا یہ عالم ہوگیا کہ بولنا بھی مشکل تھا۔ حتّی کہ نومیدی کی حالت ہوگئی۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر القا کیا کہ دریا کی ریت جس کے ساتھ پانی بھی ہو تسبیح اور درود کے ساتھ اپنے بدن پر ملو۔ چنانچہ ریت منگوائی گئی اور جوں جوں آپ تسبیح و درود کے ساتھ وہ ریت ملتے جاتے تھے بدن آگ سے نجات پاتا جاتا تھا اور صبح تک خدا کے فضل سے وہ مرض بالکل دور ہوگیا۔
سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 22 مارچ 1997ء کی زینت ہے۔
آپؓ مزید لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام اپنی بیماری کو خدا تعالیٰ کی کسی عظیم الشان مصلحت کا نتیجہ یقین کرتے تھے اور آپکی توجہ دعا اور خدا تعالیٰ کی طرف بے حد مبذول ہو جاتی تھی، خود بھی دعا کرتے اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہتے تھے۔ … آپؑ کی علالت عام طور پر کسی خدائی خبر کا پیش خیمہ ہوتی تھی اور جس قدر شدت سے بیماری کا حملہ ہوتا تھا اسی قدر عظیم الشان نشان نازل ہوتا تھا۔ بعض اوقات علاج بھی آپ کو بتا دیا جاتا تھا۔