حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام کی برکات
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے مارچ و اپریل 2025ء)

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سلطان القلم کی جماعت ہیں۔ اسلام کے فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی تصانیف اپنے اندر لازوال ابدی سچائی کی برکتیں سموئے ہوئے آفتاب کی مانند چمک رہی ہیں، ان میں آپ کا بر صغیر کی تین علمی زبانوں عربی، فارسی اور اردو میں منظوم کلام بھی ملتا ہے۔ جو ہر قسم کی فانی لذتوں سے پاک اور اسرارِحق و حکمت کی طرف رہبری کرنے والا لا ثانی کلام ہے جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے:
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
تاریخ احمدیت میں ہمیں حضرت منشی غلام قادر صاحب فصیح (سیالکوٹی) رضی اللہ عنہ ، خلیفہ نورالدین صاحب جمونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہم نام تھے) اور حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسماء ’’جامع در ثمین‘‘ کے طور پر ملتے ہیں۔ انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کی کتب اور اخبارات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ان موتیوں کو چنا ۔ ہمیں ان بزرگ ہستیوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔ فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء۔
حضرت اقدس علیہ السلام کے اس بے مثال منظوم کلام کے متعلق ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع، ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہو ا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہی آپ کی سچائی کی دلیل ہے۔ کوئی سعید فطرت انسان اگر اس کلام کو سنے تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کلام کے کہنے والے کےحق میں اس سچائی کی گواہی نہ دے۔ حیرت انگیز طور پر پاکیزہ جذبات عشق میں ڈوباہوا یہ کلام سن کر روح پر وجد طاری ہو جاتا ہے …. حضرت مسیح موعود کا کلام یاد کریں اور درویشوں کی طرح گاتے ہوئے قریہ قریہ پھر یں اور اس کلام کی منادی کریں اوردنیا کو بتائیں کہ وہ آگیا ہے جس کے آنے سے تمہاری نجات وابستہ ہے۔‘‘ (روزنامه الفضل 28 جون 1983ء)
حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا پُرمعارف روح پرور منظوم اردو کلام ’’درّثمین‘‘ ایک غیر معمولی فضل خداوندی ہے:
یہ کیا احساں ترا ہے بندہ پرور
کروں کس منہ سے شکر اے میرے داور
اگر ہر بال ہو جائے سخنور
تو پھر بھی شکر ہے اِمکاں سے باہر
دنیا کی تاریخ میں یہ ایک منفرد کتاب ہے جو ایک موعود امتی نبی کا منظوم کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اشاعت حق اور دفاعِ دین کے لیے غیر معمولی جوش و تپش عطا فرمائی تھی۔ آپ کے علمِ کلام کے سب موضوعات کمال حکمت سے اس کتاب میں یکجا ہیں۔ ذات و صفات خداوندی، کلامِ الٰہی کے حقائق و معارف، حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بلند و بالا اخلاق ، احکامِ شریعت کی تبلیغ ، ایمان و اعمالِ صالحہ کا ذکر اور سلسلۂ حقہ کی صداقت کے نشانات سب اس سدا بہار گلستان میں موجود ہیں۔
آپ علیہ السلام لسان و قلم کے جہاد کے داعی تھے اور اس کا حق خوب ادا کیا ہے۔ حسن بیان کا ہر پہلو اپنی انتہائی لطافتوں کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ اس الہٰی تائید یافتہ سلطان کے زبان و بیان کی خوبیوں کا بیان ممکن نہیں۔ دراصل یہ کسی انسان کے بس کا ہے بھی نہیں۔ یہ ایک عارف باللہ کا امام الکلام ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ اگرچہ شعر گوئی کو عام شاعروںسے ہٹ کر سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ آپ کا مقصد شعرگوئی سے نہ ذاتی تفنن طبع تھا اور نہ کسی مجلس و محفل میں شعر سنا کرداد و تحسین پانا تھا۔آپ کی اس خاکساری کو بارگاہ خداوندی میں قبول کیا گیا اور آپ کو الہام الٰہی کے ذریعہ یوں داد دی گئی:
’’یَا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ – کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبِّ کَرِیْم ۔ در کلام تو چیزےاست کہ شعراء رادراں دخلے نیست‘‘
یعنی : ’’اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے ۔تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 102-روحانی خزائن جلد 22صفحہ 105-106)
در ثمین فارسی رجلِ فارس حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا پُر معارف فارسی کلام ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس الٰہی نعمت کی قدردانی میں اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں نثرو نظم ہر ڈھب اور اسلوب سے اپنے قلب مطہر پر جلوہ گر ہونے والے پیارے زندہ خدا کا چہرہ دکھاتےرہے ۔ یہی عشق ہر طرف نوربار نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اشعار میں اپنے مضمون کو بیان کرنے کی ضرورت ہمیں اس لیے پیش آئی کہ بعض طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو نثر عبارت میں ہزار پیرا یۂ لطیف میں کوئی صداقت بتائی جائے وہ نہیں سمجھتے لیکن اس مفہوم کو اگر ایک برجستہ شعر میں منظوم کر کے سنایا جاوے تو شعر کی لطافت بہت کچھ اس پر اثر کر جاتی ہے، شعر سن کر پھڑک اٹھتے ہیں اور حق کو شعر کے ذریعے فوراً قبول کرلیتے ہیں ۔‘‘ ( الحکم قادیان 28 اگست تا 7 ستمبر 1938 صفحه 2)
اگر از روضه جان و دلم من پرده بردارند
به بینی اندران آن دلبر پاکیزه طلعت را
(روحانی خزائن جلد 5 آئینہ کمالات اسلام صفحہ 56)
( ترجمہ ) ’’ اگر میرے جان و دل کے چمن سے پردہ اٹھایا جائے تو تُو اس میں محبوب کا پاکیزہ خوبصورت چہرہ دیکھے گا۔‘‘
یہ پُر معارف کلام قاری کے قلب و روح میں ایک نیا ایمان اور جذبہ پیداکرنے کا موجب بنتا ہے:
براہین احمدیہ ایڈیشن اوّل
اے خداوندِ من! گناہم بخش
سوئے درگاہِ خویش راہم بخش
روشنی بخش در دل و جانم
پاک کن از گناہ پنہانم
دلستانی و دل ربائی کن
بہ نگاہے گرہ کشائی کن
در دو عالم مرا عزیز توئی
و آنچہ میخواہم از تو نیز توئی
(روحانی خزائن جلد 1 براہین احمدیہ صفحہ 16)
امام الزمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اسلام کی قلمی جنگ میں ایک فتح نصیب جرنیل کی حیثیت سے دنیا میں آئے تھے۔ اس لیے قدرت خداوندی نے ابتدا سےہی قلم کی لازوال قوتوں سے مسلح کرکے بھیجا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’اُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لیےبھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پر امرِ تائیدِ حق اور اشاعتِ اسلام کو منقسم کر دیا۔ چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اِس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صر ف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیے گئے۔‘‘
(فتح اسلا م، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 11تا12)
ایک جگہ اپنی تحریرات کی اہمیت بیان کرتےہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ رسائل جو لکھے گئےہیں تائیدِ الٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ مَیں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘
(سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 415تا416)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ صرف نثر نگاری کے وسیع و عریض میدان کے شہسوار تھے بلکہ اقلیم سخن کو بھی آپ کی تاجداری پر ناز تھا۔آپ علیہ السلام کی شاعری کی خصوصیات ایسی اعلیٰ ہیں کہ ہر شعر خواہ وہ کسی بھی صنف نظم سے تعلق رکھتا ہو، اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ آپ کے شعر کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نہایت اختصار سے اس کے پس منظر کا کچھ تذکرہ کر دیا جائے۔ تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ عام شعراء کی ڈگر سے ہٹ کر آپ نے کس ضرورت کے تحت اشعار کہے۔
آپ کی سیرت کا ابتدائی باب یہ بتاتا ہے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ آپ عوامی مجالس میں جانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ چونکہ عوامی مجالس میں ہر نوع اور ہر خیال کے حامل انسانوں سے میل جول رہتا ہے اور انسان ان کی صحبت کا کچھ نہ کچھ اثر قبول کر لیتا ہے۔ چنانچہ آپ کو الٰہی تصرف کے زیرِ اثر بچپن ہی سے عبادت و ریاضت کا شوق دامنگیر ہؤا۔ آپ کا زیادہ وقت خانۂ خدا میں گزرتا تھا۔ آپ کی یہ لگن اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ آپ کھانے کے اوقات میں بھی اکثر خانہ خدا میں ہوتے اور آپ کے والدِ بزرگوار کھانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اس ’’مسیتڑ‘‘ کے لیے کچھ بھجوا دو۔
بعض اوقات شاعر اپنے دَور کے بعض شعراء سے متأثر ہوتا ہے۔ مگر آپ اس تأثر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ آپ کے دَور کے بعض محترم احباب کوبھی کوئے شعر و ادب میں نام حاصل تھا اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں خوب ناموری حاصل کی تھی، مگر آپ ان سے قطعاً متأثر نہ ہوئےاور آپ کا جذبۂ شعر گوئی خدمتِ دین کے لیے وقف رہا۔
آپ علیہ السلام کے منظوم کلام میں درسِ توحید، خداتعالیٰ کی محبت، دین کی صداقت، قرآن کریم کی محبت اور آنحضرت ﷺ سے والہانہ عشق و محبت کے نمونے ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ بے نظیر دلائل و براہین کے ساتھ پیغامِ حق پہنچایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اخلاقی نصائح، دینی معارف و نکات، اور بے مثل دعائیں بھی ملتی ہیں۔ الغرض آپ کے کلامِ اردو کا مجموعہ ہر لحاظ سے جامع ہے۔ اردو ادب میں اس کی نظیر تلاش کرنا سعیِ لاحاصل ہے۔ ہر نظم برجستہ و برمحل ہے۔
پس آپ کا اردو کلام اوّل سے آخر تک حکمت و معرفت کے نکات کا پاکیزہ اور حسین مرقع ہے۔ بلکہ تمام کی تمام نظمیں روحانی تشنہ کامی کی سیرابی کے جام لبالب پیش کرتی ہیں۔ ایک شعر تو کجا ایک لفظ بھی آپ کے کلام میں ایسا نہیں ملتا جو آپ کے کلام کے مزاج کے خلاف آیا ہو۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا کلام معانی و مطالب کے لحاظ سے مئے عرفان کا ایک شفاف چشمہ ہے۔
حضرت اقدس ؑنے اپنی شاعری کو صرف روحانیت اور اخلاقیات جیسے بلند مقاصد کے لیے استعمال فرمایا اور اپنے شعروں میں خدا اور خدا کے نبیﷺ اور خدا کے کلام کا اس کثرت سےاور اس والہانہ انداز سے ذکر کیا کہ اس کی مثال کسی پہلے یا پچھلےشاعر کے کلام میں قطعاً نہیں مل سکتی خدا اور رسول ﷺ کے ذکر میں عشق و محبت کےرموز و نکات بھی خوب خوب بیان فرمائے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے کلام سے ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کی جھلک اور خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکراور حضور سرورِکائناتﷺ کے اوصاف کی تعریف اور خدمتِ دین، شانِ اسلام اور ہمدردیِ مخلوق صاف نظر آتی ہے۔ حضورِ اقدسؑ کا شاعری کرنے کا مقصد صرف یہی تھاکہ عوام النّاس خدا تعالیٰ کو پہچانیں اور حضورﷺ کے ذریعہ لگائے گئےاسلام کے پودے کو اپنائیں۔
غرض حضرت مسیح موعودؑ نے جو اپنا منظوم کلام بیان فرمایا ہےاس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کلام کے ذریعہ جو پیغام آپؑ دنیا کو دینا چاہتے ہیں وہ پیغام اس ذریعہ سے لوگوں تک پہنچ جائے۔ آپؑ نے یہ منظوم کلام کسی مال و دولت کی خواہش یا اپنی واہ واہی کےلیےنہیں بلکہ رضائے الٰہی کی خاطر اور خدمت دین اور اشاعت اسلام کی خاطربیان فرمایا تاکہ لوگ حق کو اس کے ذریعہ سےبھی پہچان لیں اور اس حق کو قبول کرکے خدا کے مقبولین کی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھےآنحضرت ﷺ کی اتباع میں اورآپؐ کی پیروی میں ساری دنیا کی اصلاح کےلیے مبعوث فرمایا ہے۔اس لیے مجھے وہ روحانی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ مقام بخشا ہے جو اس کام کے لیے ضروری تھا۔ اور میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع ہےاور اس کی شریعت اکمل و اتم ہےاور تمام دنیا کی اصلاح کے لیے ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرت ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اذن پاکرحضورﷺ کے ذریعہ قائم کردہ شریعت کی تجدید کا کام کیا اور اس تعلیم کو دوبارہ زندہ کیا جو لوگ بھلا چکے تھے۔ اور ایما ن کو واپس دنیا میں لائے جو کہ ثریّا ستارے پر جا چکا تھا۔اس کام کی خاطر آپؑ نے بےشمار ذریعے اختیار کیے جن میں آپؑ کی تحریرات، مناظرات، مباحثات، لٹریچر، اخبارات و رسائل، اشتہارات، پُرمعارف تقاریرو خطابات اور آ پؑ کا منظوم کلام شامل ہیں۔
حضرت اقدسؑ نے لوگوں کو خدا کی طرف بلانےاور اس کے زندہ خدا ہونےاور حضور ﷺ اور آپؐ کی قائم کردہ شریعت کی افضلیت کےلیے بے شمار کتب تصنیف فرمائیںجن کے ذریعہ سے آپؑ نےخدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔حضرت مسیح موعود ؑنےزمانہ کے تقاضے کومدّ نظر رکھتے ہوئےتبلیغ و اشاعت کےلیےشاعری کو بھی استعمال کیا۔آپؑ کا منظوم کلام، جو ’’درّ ثمین‘‘کے نام سے مرتب ہے،نہایت ہی ا علیٰ اور اپنے اندر حقائق و معارف کےخزانے سموئے ہوئے ہے۔آپؑ کا منظوم کلام عربی،اردو، فارسی تینوں زبانوں میں ملتا ہے۔اور تینوں زبانوں میں جس اعلیٰ پایہ کا آپ علیہ السلام کا کلام ہےاور جوا علیٰ تعلیم اس کے ذریعہ دی گئی ہےوہ لاجواب ہے۔حضورؑ نےاپنے کلام کے ذریعہ لوگوں تک خدائی پیغام پہنچایا اور لوگوں کی اصلاح اور تربیت کاکام کیا۔ آپؑ کے اشعار اپنے اندر ایسا اخلاقی امتیاز رکھتے ہیں جو دوسرے شعراء کے کلام میں نہیں۔
آپؑ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کے قلب مطہر میں پاکیزہ جذبات کاایک بحرمَوّاج موجود ہے۔ جو بےاختیار آپؑ کی نوک قلم سے بہ کر تمام دنیا کوسیراب کر رہا ہے اور تا قیامت سیراب کرتا رہے گا۔آپؑ کے کلام میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں۔لفظ لفظ اخلاق اور راستی پر مبنی ہے۔ آپؑ کا کلام حمدِ الٰہی،نعتِ رسولِ مقبول ﷺ،فضائلِ قرآن کریم، صداقتِ دین، ترغیبِ حسنات اور وعظ و نصیحت کا ایک ایسا بے بہا خزانہ ہے جس کی نظیر دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی۔
اسلام کے فتح نصیب جرنیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑکی تصانیف اپنے اندر لازوال ابدی سچائی کی برکات سموئے ہوئے آفتاب کی مانند چمک رہی ہیں۔اس میں آپؑ کا تین زبانوں عربی، فارسی، اردومیں کلام ملتا ہے۔ جو ہر قسم کی فانی لذّات سے پاک اور سراسر حق و حکمت کی طرف رہنمائی کرنے والا لا ثانی کلام ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی
خدا کے علاوہ ہر چیز فنا کا شکار ہونے والی ہے۔ اسی لیے آپ نے نہایت کھلے انداز اور آسان پیرائے میں فرمایا کہ کیسے بھی حالات ہوں دنیا والے کچھ بھی سلوک کریں۔ انسان کو ہر حالت میں خدائے واحد پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ جب کوئی انسان تمام سہارے چھوڑ کر خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ ہر حالت میں اس کا پشت و پناہ بن جاتا ہے۔ اہل دنیا اپنے عناد کے باوجود اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔
درس توحید کے بعد اپنا حال بیان فرماتے ہیں کہ آپؑ کس حد تک خدائے واحد کے عشق سے سرشار ہیں۔ اس طرح کہ آپ اپنے وجود کوا س کے وجود میں ضم کر چکے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:
جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل
کیا ہؤا گر قوم کا دل سنگِ خارا ہو گیا
یہ دونوں اشعار اپنے ارفع مضمون اور زبان کے معیار سے کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ مضمون ہے کہ گویا معرفت کا جام لبالب ہے۔ جسے پیتے ہی ایک عارف اپنے وجود سے بےنیاز ہو کر اپنے محبوب حقیقی کے وجود میں ضم ہو کر اپنے وجود کی نفی کا اعلان کرتا ہے اور الفاظ ہیں کہ واقعی ’’لعلِ بے بدل‘‘ ہیں۔ مضمون جتنا بلند ہے الفاظ اتنے ہی آسان ہیں۔ ’’حمدِ ربُّ العالمین‘‘ میں آپؑ فرماتے ہیں:
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بےکل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
اس بہارِ حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
خوب رویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا
چشمِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا
شور کیسا ہے ترے کوچے میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا

جماعت احمدیہ کے جید عالم، صاحب کشف بزرگ، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ’’… ایک دن ظہر کی نماز کے بعد میں اور مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو کر رہے تھے … میں نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف آئینۂ کمالاتِ اسلام، حضور اقدسؑ کی چند نظموں کے اوراق کے ساتھ مولوی صاحب کی بیٹھک میں دیکھی۔ جب میں نے نظموں کے اوراق پڑھنے شروع کیے تو ایک نظم اس مطلع سے شروع پائی ؎
عجب نُوریست در جانِ محمدؐ
عجب لعلیست در کانِ محمدؐ
میں اس نظم نعتیہ کو اول سے آخر تک پڑھتا گیا مگر سوز و گداز کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو رہے تھے۔ جب میں آخری شعر پر پہنچا کہ ؎
کرامت گرچہ بے نام و نشاں است
بیا بنگر ز غلمانِ محمدؐ
تو میرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہمیں بھی ایسے صاحبِ کرامات بزرگوں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا۔ اس کے بعد جب میں نے ورق اُلٹا تو حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ منظومۂ گرامی تحریر پایا ؎
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
چنانچہ اسے پڑھتے ہوئے جب میں اس شعر پر پہنچا کہ
کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے
تو اس وقت میرے دل میں ان لوگوں کے متعلق جو حضور اقدس علیہ السلام کا نام ملحد و دجّال وغیرہ رکھتے تھے بےحد تأسف پیدا ہؤا…چنانچہ جب مولوی صاحبؓ بیٹھک میں آئے تو میں نے آتے ہی دریافت کیا کہ یہ منظوماتِ عالیہ کس بزرگ کے ہیں اور آپ کس زمانہ میں ہوئے ہیں۔ مولوی صاحبؓ نے مجھے بتایا کہ یہ شخص مولوی غلام احمد ہے جو مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں اب بھی موجود ہے۔اس پر سب سے پہلا فقرہ جو میری زبان سے حضور اقدس علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول اللہ ﷺ کا عاشق نہیں ہوا ہوگا۔
ان ارشادات عالیہ کے پڑھتے ہی مجھے حضور اقدسؑ کے دعویٰ کی حقیقت معلوم ہو گئی اور میں نے 1897ء میں غالباً ماہ ستمبر یا ماہ اکتوبر میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
…آخرمولوی امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی خد اتعالیٰ نے حضور اقدس علیہ السلام کی کتابوں کے مطالعہ سے ہدایت بخشی اور آپ 1899ء میں میرے ساتھ حضور اقدس علیہ السلام کی دستی بیعت کے لیے قادیان روانہ ہوگئے۔‘‘ (حیاتِ قدسی صفحہ 16 تا 19)
حضرت میاں وزیر خاں صاحب رضی اللہ عنہ ساکن بلب گڑھ دہلی بعدہٗ قادیان (بیعت1892ء) تحریر کرتے ہیں:’’میں ناگہ ہل علاقہ منی پور میں بصیغہ ملازمت سب اوورسیئر متعین تھا…اس زمانے میں ایک شخص سردار نامی جو … احمدی تھا وہ میرے پاس آیا اور کتاب ’’نشانِ آسمانی‘‘ مجھے دے گیا۔ اُس کو میں نے پڑھا۔ اس میں لکھا تھا:
انبیاء در اولیاء جلوہ دہند
ہر زماں آیند در رنگے دِگر
اس شعر نے مجھ پر وہ اثر کیا کہ حضرت صاحب کی صداقت مجھ پر کھل گئی۔ ( رجسٹر روایات صحابہ نمبر 14 صفحہ 356)
مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ظاہری و باطنی خوبیوں سے معمور ہے۔نہ زبان میں طاقت کہ وہ بیان کر سکے نہ قلم میں قوت کہ وہ تحریر کرسکے۔بارہا تجربہ سےیہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ کے منظوم کلام کے پڑھنے کے بعد عبادات میںایک خاص لذت اور مزہ آتا ہے۔اور سچ ہے اللہ تعالیٰ نے یونہی تو آپ کو ’’سلطان القلم‘‘ کا لقب عطا نہیں فرمایا۔ فی الواقع آپ نظم و نثر میں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ’’سلطان القلم‘‘کا لقب آپ ہی کو زیبا ہے۔
اس کلام کی طلسمی قوت اور برکت سے بہت لوگوں نے ہدایت پائی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔
میرے داداجان بزرگوارم حاجی جلال الدین صاحب مرحوم و مغفور اپنے علاقہ کے معروف تاجر ، عالم اور کمیٹی کے صدر تھے۔ لوگوں کا بہت آنا جانا تھا۔ میرے ابا مختار احمد ایاز صاحب کو سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ ابھی 14 برس کے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس نعمت سے نوازا۔ شروع میں احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے میرے دادا ان سے ناراض بھی ہوئے۔ میرے دادا تجارت کے سلسلہ میں ایک لمبا عرصہ ایران ، بخارا، سمرقند وغیرہ میں رہے ۔ فارسی کے ساتھ آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ میرے ابا کو اتفاق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درثمین فارسی مل گئی۔ آپ نے وہ لا کر میرے دادا جان کو دی ۔ آپ کی آواز بھی اچھی تھی۔ آپ حضور علیہ السلام کا منظوم کلام خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو بھی سناتے۔ اس کلام نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور پھر اس کلام کے ذریعہ ہی دوسروں کو تبلیغ کرتے رہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے عربی حصہ کے آخر میں قصیدہ مندرج ہے۔حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قصیدہ
یا عین فیض اللہ والعرفان
کے متعلق فرمایا کرتے تھے:’’ جو شخص اس قصیدہ کو حفظ کرے گا، اس کے حافظہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے برکت دی جائے گی۔‘‘
اس قصیدہ کے متعلق ایک اور روایت مرحوم و مغفور حضرت پیر سراج الحق صاحب ؓ کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ قصیدہ تصنیف فرما چکے تو آپؑ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور آپؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ قصیدہ جنابِ الٰہی میں مقبول ہو گیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا کہ جو اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اور ہمیشہ پڑھے گا ، میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول اللہ ﷺ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام – روحانی خزائن – جلد 5)
اس کلام کے پڑھنے اور سننے سے جذبات میں جو سوز و گداز پیدا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دعاؤں کے لیے ایک خاص جوش پید اکرتا ہے اور انسان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ فکر مندی اور پریشانی کے عالم میں حضور علیہ السلام کا کلام پڑھنے والے میں توکل علی اللہ پید اکرتا ہے اور تسکینِ قلب عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے اپنے دلوں کواور اپنے گھروں کو منور کرتے رہیں کیونکہ اس میں راحت و آرام ہے۔
ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون تھا