حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے!
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی اگست 2024ء)
سالانہ مقابلہ مضمون نویسی 2023ء میں سوم آنے والا مضمون
مقصد بعثت انبیاء
فہرست مضامین
show
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار
جب لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر خالق حقیقی سےمنہ موڑ لیتے ہیں اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں کھو جاتےہیں۔اشرف المخلوقات فسق وفجور میں مبتلا ہوکر قعر مذلت کی عمیق پنہائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ جب شرک کی تاریکی توحید کے نور کو ڈھانپنےلگتی ہے۔اور سعید روحیں سخت بےچین ہو کر سوالی نظروں کے ساتھ آسمان کی طرف تکنے لگتی ہیں۔ تب خدا تعالیٰ کا رحم جوش میں آتا ہے۔
خدا تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ کے باعث انبیاء اکرام علیہم السلام کو مبعوث فرماتاہے۔ انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں۔ وہ خدا آشنا ہوتےہیں اور لوگوں کو خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔اور اس غرض کو پورا کرتے ہیں جس کے لیے یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے۔یعنی تعلق باللہ۔ آنحضرت ﷺ کی آمد پر یہی ہوا۔ فسق و فجور کی انتہاؤں کو چھونے والے عرب ،نبی مقدسﷺ کی قوت قدسی کے طفیل معرفت الٰہی کے نور سے منور ہوکر آسمان روحانیت کےدرخشاں ستارے بن گئے۔ جہالت کی اتھاہ وادیوں میں گرے ہوئے عرب ،نبی مقدس ﷺ کی صحبت میں آئے تو دنیا کے معلم بن گئے اور ساری دنیاکی راہنمائی ان سے وابستہ ہوگئی۔
سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے اس روحانی انقلاب کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ وہ جو عرب کے بیا بانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا۔ کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے۔پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔‘‘ (روحانی خزائن جلد نمبر ۶ صفحہ۱۱ برکات دعا)
صحابہ کرام کی ایسی ہی کیفیت کا نقشہ سیّدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے عربی اشعار میں یوں کھینچا ہے:
اَحْیَیت اَمْواتَ القُرُونِ بِجَلْوَۃٍ
مَا ذَا یُمَاثِلُکَ بِھٰذا الشَّانٖ
تَرَکوُا الغَبُوقَّ وَ بَدَّلُوا مِنْ ذَوْقِہٖ
ذَوْقَ الدُّعَاءِ بَلَیْلَۃِ الاَحْزَانٖ
فَطَلَعْتَ یَا شَمْسَ الھُدیٰ نُصْحًا لَّھُم
لِتُضِیْئَھُمْ مِنْ وَّجْھکَ النُّورانی
– تُو نے صدیوں کے مُردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا، کون ہے؟ جو اس شان میں تیرا مثیل ہو سکے۔
– انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کی لذت کو غم کر راتوں میں کی جانے والی دُعا کی لذت سے بدل دیا۔
– سو تُو نے اے آفتاب ہدایت! ان کی خیرخواہی کے لیے طلوع کیا تاکہ اپنے نُوانی چہرہ سے تُو ان کو منوّر کر دے
ہمیں ایسا ہی انقلاب آپﷺ کے غلام صادق، امام الزماں، مہدی دوراں، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد پر بھی نظر آیا۔ جو کہ آپ علیہ السلام کی صداقت کا بین ثبوت ،اور آ پ ؑپرایمان لانے کی ضرورت پر گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام خود فرماتے ہیں،
مبارک وہ جو اَب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے ان کو ساقی نے پلادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی
یہ آپ علیہ السلام کی قوت قدسی کا معجزہ ہے۔کہ جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے خدائی وعدوں کے مطابق علم و معرفت میں ترقی کر رہی ہے۔ آج جبکہ دنیا جہالت و ظلمت ،ظلم و تعدی اور معاشرتی تنزل کا شکار ہے۔ ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جو حقیقی قیادت و امامت سےبہرہ مند ہے۔ اور امام مہدی ؑ کے خلیفہ کی قیادت میں، آلائشوں اور غلاظتوں کے ماحول سے دامن بچاتے ہوئے، خدائے عزو جل کے مقرر کردہ صراط مستقیم پر رواں دواں ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
آج ان ہلاکت آفریں اور آتشیں حالات میں ، محسن انسانیتﷺ کے ظل کا محفوظ سائبان ان الفاظ میں اعلان کر رہا ہے:
’’ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘ (فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3صفحہ34)
ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش میں
نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
پس ضروری ہےکہ امن کی گود میں آنے کے لیے دنیا امام وقت یعنی مہدی دوراں ؑ پر ایمان لائے۔اور جو ایمان لا چکے ہیں صدق ووفا میں ترقی کریں۔
انسان کی غرض پیدائش اور انبیاء کی ضرورت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تعلق با للہ کے لیے پیدا فرمایا ہے لفظ تعلق عَلَقَ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں چمٹ جانے والا مادہ۔جب کوئی چیز اتنی قریب ہو کہ گویا ساتھ ہی چمٹ جائے اس کے لیے لفظ علق بولا جاتا ہے۔ وجہ تخلیق کا ئنات افضل الرسل حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبےٰ ،ہمارے پیارے نبی ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(العلق۳:)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کریمہ کی مفصل تفسیر فرمائی ہے جو کہ تفسیر کبیر صفحہ نمبر ۲۶۵ تا ۲۶۸ پر درج ہے۔اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو جذبے کامل طور پر ودیعت کیے ہیں ایک جذبہ محبت اور دوسرا جذ بہ نفرت۔ ان دونوں جذبات کا صحیح استعمال صرف انبیاء ہی کرسکتے ہیں اورسکھا سکتے ہیں۔خدا تعالیٰ سے کامل محبت اور شیطان سے کامل نفرت ہی اصل دین ہےاور یہی حقیقی غرض ہے جس کے لیے انسان کو تخلیق کیا گیا ہے۔
جب شیطان سے نفرت اور خدائے عزوجل سے محبت اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو انسان کامل ہو جاتا ہے اسے معراج نصیب ہوتا ہے اور عرش معلّٰی سے یہ آواز آتی ہے: وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰیْ- ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی- ۙ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰیۚ- (سورۃالنجم۸:تا۱۰)
آنحضور ﷺ ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے محبت الٰہی میں عروج حاصل کیا۔ قرب الٰہی کا معراج آپ کو عطا ہوا۔آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے اتنے قریب ہوئےکہ کلام پاک میں ارشاد ہوا،جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا۔پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اتر آیا۔پھر وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا۔یا اس سے بھی قریب تر۔یہ وہ بلند ترین روحانی مقام ہے جو صرف آپﷺ ہی کا مقدّرتھا۔ آپﷺ نے وہ راستے طے کر کے دکھائے جن پر چل کر انسان اپنی پیدائش کے اعلٰی ترین مقاصد حاصل کر سکتا ہےاو ر بجز ایمان لائے اس محسن کائناتﷺ کی رسالت پر اور بجزکامل پیروی ہادی اعظم ﷺ، اور بغیر ایمان لائے اور بغیر استوار کیے تعلق صدق و وفا ،آپﷺ کے مقرر کردہ مہدی دوراں علیہ السلام کے، انسان اپنا مقام محمود حاصل نہیں کر سکتا۔
بھیج درود اس محسن پر تُو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰؐ نبیوں کا سردار
آپ ہی ہیں جو کہ خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ ہی اسوہ کامل ہیں۔جس طرح آپؐ پر ایمان لانا ضروری ہے۔اسی طرح اس آنے والے امام پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جس کی پیشگوئی آپﷺ نے فرمائی تھی۔ جو کہ آپ کا ہی ظلّ ہے اور آپؐ کے رنگ میں ہی رنگین ہوکر آیا ہے۔ مخبر صادق ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق وہی مسیح و مہدی ہے۔ وہی ایمان کو ثریا سے واپس لانے والا ہے۔وہی قرآن کی اصل تعلیم سے دنیا کو دوبارہ آشنا کرنے والا ہے۔ اسی نے اسلام کی اصل تصویر دنیا کو دکھائی ہے۔ وہی ہے جس نے بانیٔ اسلامﷺ کا حسین اور منور چہرہ دوبارہ دنیا کے سامنے ہویدا کیا۔ پس بمطابق حکم حضرت خاتم الانبیاء ﷺ اس کو آپﷺکا سلام پہنچانا اور اس کی بیعت کرنا بھی ضروری ہے۔
آئیے اب مختصراً دیکھتے ہیں کہ حضرت رسول مقبول ﷺ کے اس بارے میں کیا ارشادات ہیں۔
حضرت رسول مقبول ﷺ اور بزرگان سلف کے حضرت مسیح موعود ؑ کے بارہ میں ارشادات
انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں اسلام کا اصل حسن نا پید ہوچکا تھا۔ مسلمان ،قیادت اور اتحاد سے محروم تھے۔ سارا ہندوستان عیسائیت کی یلغار کے سامنے بےبس نظر آتا تھا۔ ہندوستان میں لاکھوں مسلمان عیسائیت کی آغوش میں جا چکےتھے۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس لبوں سے نکلنے والی مندرجہ ذیل پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آچکا تھا:
’’اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں یعنی حضرت سلمانؓ کی قوم میں سے کچھ لوگ یا ایک مرد اسے واپس لے آئے گا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قول وآخرین منہم لما یلحقون)
اس پیشگوئی کا مصداق قادیان کی بستی میں وہ مہر تاباں روشن ہوا جس کے ذمہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم الشان کام مقدر تھا۔جس کے ذمہ اسلام کی اصل حسین تصویر کو اجاگر کرنا تھا۔ وہ بطل جلیل اسلام کے خلاف اور بانی اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش اور کارروائی کے سامنے ساری عمر سینہ سپر رہا۔اور اسلام کی حسین تصویرکشی کے قلمی جہا د میں وقف رہا۔ ہاں یہ وہی امام ہے جس کے بارہ میں حضرت رسول مقبول ﷺ نے تاکیدی ارشاد فرمایا تھا:
’’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔‘‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
ہا ں یہ وہی امام ہے جس کے بارہ میں یہ ارشاد نبویﷺ حضرت انس ؓ سے مروی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا:’’ تم میں سے جو کوئی عیسیٰ بن مریم کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔‘‘ (الدر المنثورجلد ۲ صفحہ ۲۴۵)
امام مہدیؑ کی اہمیت ہر دور میں بزرگان کے دل میں عیاں رہی ہے۔ اور ان کے دل کی حسرت ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ جو کہ بارہویں صدی کے مجدد تھے فرماتے ہیں:
’’ اس فقیر کی بڑی آرزو ہے کہ اگر حضرت روح اللہ علیہ السلام کا زمانہ پاوے تو پہلا شخص جو سلام پہنچاوے وہ میں ہی ہوں۔ اور اگر وہ زمانہ مجھے نہ ملے تو میری اولاد یا متبعین میں سے جو کوئی اس مبارک زمانہ کو پاوے وہ رسول اللہ ﷺ کے سلام پہنچانے کی بہت آرزو کرے کیونکہ ہم لشکر محمدیہ ﷺ کے آخری لشکر میں سے ہوں گے۔‘‘ (مجمویہ وصایا اربعہ صفحہ ۸۴)
حضرت رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اُمّت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی اور آپؑ کی صداقت کی محکم دلیل
مَیں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر
مَیں ہوں وہ نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدا ء ہی سے خلوت پسندتھے۔دنیا سے آپ کو رغبت نہ تھی ،آپ کا زیادہ وقت یاد الٰہی اور غورو فکر میں بسر ہوتا تھا۔ آپ کی وہ خلوت گاہیں بیت الفکر اور بیت الدعا کے نام سے موسوم ہیں۔ ربّ کلیم کےمسلسل مکالمہ ومخاطبہ نے آپ کو عوام الناس سے رابطہ پر مجبور کیا تو آپؑ نے فرمایا:
’’ میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نےاس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سےمامور کرکےدین متین اسلام کی تجدیداورتائید کے لیے بھیجا ہے۔تاکہ میں اس پر آشوب زمانے میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں۔اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملے کر رہے ہیں۔ان نوروں اور برکات اور خوارق اورعلوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔‘‘ (برکات الدعاروحانی خزائن جلد ۶ ص ۳۴)
آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’مجھے خدا تعالیٰ کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعوداور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۱ ص۴)
نیز یہ بھی فرمایا:
’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔اسی نے مجھے بھیجا ہے۔اور اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے۔اور اس نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں۔جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی صفحہ ۶۸)
اسی طرح اپنے منظوم کلام میں آپ نے فرمایا:
اسمعوا صوت السماء جاءالمسیح جاءالمسیح
نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اَور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام یقین محکم کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’مجھے اس خدائے کریم کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے۔میں اسی کی طرف سے ہوں۔اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں۔اور اس کے حکم سے کھڑا ہوں۔اور میرے ہرقدم میں میرے ساتھ ہے۔ اور وہ مجھے ضا ئع نہیں کرے گا۔اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا۔جب تک اپنے تمام کام پورے نہ کر لے۔جس کا اس نے ارادہ کیا ہے۔‘‘ (اربعین حصہ سوم صفحہ۲)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس کو ن سا ذریعہ ہے جس سے وہ مدعی کے دعاوی کو پرکھ سکیں۔ کیا قرآن کریم اس سلسلہ میں کوئی راہنما اصول بیان فرماتا ہے کہ عوام الناس دھوکہ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی دو آیات بطور نمونہ پیش ہیں۔ ایک جگہ فرمایا:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃالانعام آیت۲۲)
(ترجمہ) اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جس نے اللہ پر کوئی جھوٹ گھڑا یا اس کی آیات کی تکذیب کی۔ یقیناً ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔
اس آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹے مدعی وحی و الہام کو بھی ظالم یعنی کافر قرار دیا ہے اور واضح نشانات کا انکار کرنے والوں کو بھی۔اور مدعی کی کامیابی ہی اس کی صداقت کی دلیل قرار دی ہے۔دل میں تقویٰ ہونا شرط ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ سنتے ہی ایمان لے آئے تھے۔ اسی طرح حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی مرحوم جیسے بزرگ دعوے سے پہلے ہی التجائیں کر رہے تھے۔کہ
ہم مریضوں کی ہے تمہی پر نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لیے
اگرچہ آپؓ تو دعویٰ کے انتظار ہی میں باذن الٰہی وفات پا گئے۔ مگر آپ کے مکان پر بیعت کا آغاز ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا اور پہلے روز چالیس سعید فطرت روحوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔پہلے خوش نصیب حضرت مولانا نورالدین ؓ تھے۔
صداقت مسیح پاک علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لیے دوسری دلیل قرآنی سورۃالحاقہ کی آیات نمبر ۴۵تا ۴۸ہیں۔یہ آیات کریمہ حضرت نبی کریم ﷺ کی صداقت کو پرکھنے کے لیے نازل ہوئی تھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کو جو زبردست معیار سب سے ارفع شان والے نبی کی صداقت کو پرکھنے کے لیے کافی ہو ،آپ کے ظل کے لیے اس کو کافی سمجھا جائے۔ وہ معیار یہ ہے۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْن ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِیْنَ
(ترجمہ) اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا۔تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔پھر ہم یقیناً اُس کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔پھر تم میں سے کوئی ایک بھی اُس سے (ہمیں) روکنے والا نہ ہوتا۔
یہ آیت خدا تعالیٰ کا عوام الناس پر احسان عظیم ہے۔ اس آیت کی موجودگی میں کوئی جھوٹا مدعی نبوت لوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔
جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی مندرجہ بالا دونوں آیات کی روشنی میں صداقت کی محکم دلیل ہے۔
صداقت کا منہ بولتا ثبوت۔ الہامات اور پیشگوئیاں
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلوت پسندی کے باعث بہت لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ مرزا غلام مرتضٰی صاحب کا کوئی بیٹا غلام احمد بھی ہے۔جو جانتے تھے تو وہ بھی آپ کو ملاں اور مسیتڑ کے نام سے جانتے تھے۔ حضورؑ کے والد گرامی کو فکر لاحق تھا کہ ان کی وفات کے بعدآپ کی کفالت کیسے ہوگی؟ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ پیغام بھجوایا کہ ایک بڑاا فسر والد صاحب کا دوست ہے۔ آپکے لیے اچھی نوکری کا انتظام ہو سکتاہے۔آپ نے والد صاحب کی خدمت میں یہ جواب بھجوایا کہ آپ کی شفقت اور محبت کا میں ممنون ہوں مگر میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا۔ اس پر والد صاحب نے فرمایا کہ اگر غلام احمد نے یہ کہا ہے تو ٹھیک ہے۔اللہ اس کو ضائع نہیں کرے گا۔
جون ۱۸۷۶ میں حضرت مسیح پاک ؑ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور تشریف فرماتھے۔خواب کے ذریعہ خد تعالیٰ نے اطلاع دی کہ والد صاحب کی وفات کا وقت قریب ہے۔اپنی خوابوں اور الہامات پر یقین اتنا پختہ تھا کہ آپ فوراً قادیان واپس تشریف لے آئے۔واپسی سے اگلے روز الہام ہوا :’وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق‘ یعنی قسم ہےآسمان کی جو قضاء وقدر کا منبع ہے۔اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا۔
چنانچہ اُسی روز غروب آفتاب کے بعد آپؑ کے والد گرامی کی وفات ہوگئی تو ایک لحظہ کے لیےخیال گزرا کہ اب نجانے کیا مشکلات پیش آئیں۔ اس خیال کا دل میں پیدا ہونا تھا کہ یکدم آپؑ کو دوسرا الہام ہوا: اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ حضور ؑ فرماتے ہیں:
’’اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا۔اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا۔پس مجھے خدائے عزو جل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہےکہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور پر سچا کر دکھایا کہ میرے خیال و گمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہو گاکہ کبھی کسی کا باپ ہرگز متکفل نہ ہوگا۔میرے پر اس کے وہ متواتر احسا ن ہوئےکہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں۔‘‘ (کتاب البریہ صفحہ ۱۶۲،۱۶۳)
حضورعلیہ السلام کا ایک الہام ہے:’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ (الہام ا۱۸۹۱ اشاعت الحکم۱۸۹۸ء)
۱۸۸۹ میں جماعت کا آغاز ہوا۔ابھی جماعت کی تعداد نہایت کم تھی۔ مخالفین سمجھتے تھے کہ چند رشتہ دار اور دوست اس جماعت میں شامل ہیں۔ اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم تیری آواز کو تیرے گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔ کسی نے کہا ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا کہ میں نے ہی تجھے اٹھایا تھا میں ہی تجھ گراؤں گا۔ مگر خدا جو مسیح پاک ؑ کے ساتھ تھا اس نے تسلی دی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ چنانچہ آج جماعت کا بچہ بچہ اس الہام کا ایم ٹی اے کے ذریعہ پورا ہونے کا گواہ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی بفضل خداآج جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوںسو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘۔ (روحانی خزائن جلد ۲۰ تذکرۃالشہادتین صفحہ۶۷)
الحمد للہ وہ تخم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بویا تھا اب تناور درخت بن چکا ہے اور اس کی شاخیں اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں۔اور اس کی روح پرور چھاؤں میں لاکھوں کرو ڑوں سعید روحیں روحانی تسکین حاصل کر رہی ہیں۔
مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام
برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمانؑ ہے
حقیقۃالوحی مطبوعہ ۱۹۰۷ء صفحہ نمبر ۲۷۴ کے حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا الہامی شعر درج فرمایا ہے جس میں خدائے عز وجل نے بڑےزور کے ساتھ حاصل کائنات، فخر موجودات نبی آخرالزمان ﷺ کے عالی مقام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور ساتھ ہی آپ ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے آپ کو مسیح الزمان قرار دیاہے۔ اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ جس قدر بلند شان آپﷺ کی ہے اسی نسبت سے آپؐ کے غلام صادق اور عظیم روحانی فرزند جلیل کا مقام بھی بلند ہے۔
حضرت الشیخ محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں:
( ترجمہ) آخری زمانہ میں مہدی ظاہر ہو گا تو تمام انبیاءعلوم و معارف کے لحاظ سے اس کے تابع ہوں گے۔کیونکہ اس کا دل درحقیقت قلب محمدی ہوگا۔
یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ اس کا باطن دراصل باطن مصطفیٰ ﷺ ہو گا۔ (شرح فصوص الحکم صفحہ۳۵)