حضرت مصعبؓ بن عمیر
حضرت مصعبؓ قریش کے قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک انتہائی شریف و نجیب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم مکہ کے انتہائی متموّل اور عزت و شرافت میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ والدہ خناس بن مالک بھی بڑی مالدار اور بارعب تھیں اور اپنے بیٹے سے انتہائی شفقت سے پیش آتیں گویا اُن کا دین و دنیا یہی بیٹا ہو۔ چنانچہ جب مصعبؓ نے اسلام قبول کیا تو وہ دَور مسلمانوں کے لئے بڑا ہی مصائب کا دور تھا اسلئے آپؓ نے ابتداء میں اپنی والدہ کے دل کو ٹھیس سے بچانے کے لئے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ لیکن ایک روز آپؓ کے چچازاد نے آپؓ کو دار ارقم میں خدائے واحد کے حضور سجدہ ریز دیکھ کر آپؓ کی والدہ سے سارا ماجرا بیان کیا تو آپؓ کی والدہ کی ساری محبت اُسی وقت نفرت میں بدل گئی اور جب آپؓ گھر پہنچے تو دنیا بدل چکی تھی۔ لعن طعن اور مار پیٹ ہونے لگی۔ پھر آپؓ کو رسیوں سے جکڑ کر قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اب روزانہ ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی کہ محمدؐ کے دین کو چھوڑ دو۔ اس کے لئے کبھی مارا پیٹا جاتا اور کبھی لالچ دی جاتی۔ جب مظالم کی انتہاء ہوگئی اور مسلمانوں کو آنحضورﷺ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت عطا فرمائی تو حضرت مصعبؓ بھی ابتدائی مہاجرین میں شامل ہوگئے۔ تین سال بعد جب یہ افواہ حبشہ پہنچی کہ اہل مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے تو آپؓ واپس آئے لیکن یہاں تو اب بھی وہی عالم تھا بلکہ پہلے سے بڑھ کر ظلم کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ دوبارہ حبشہ تشریف لے گئے اور پھر ہجرت مدینہ سے تین برس قبل واپس تشریف لائے۔ آپ ؓ ایک بہت خوبصورت جوان رعنا تھے لیکن غریب الوطنی نے آپؓ کا جو حال کیا اُسے دیکھ کر آنحضورﷺ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا ’’چند سال پہلے میں نے اس نوجوان کو دیکھا تھا کہ سارے مکہ میں اس سے بڑھ کر ناز و نعمت کا پروردہ، خوش رُو، خوش پوشاک اور آسودہ حال کوئی نہ تھا مگر آج اللہ اور اُس کے رسولؐ کی محبت پر اس نے اپنے تمام عیش آرام کو قربان کردیا اور حسنات اخرویہ سے محبت نے اس کو دنیوی لذّت اور اسباب راحت سے بے نیاز کردیا ہے‘‘۔
حضرت مصعبؓ ایک فقیہہ، عالم دین اور حافظ قرآن تھے اور آنحضورﷺ کی شفقتوں اور محبتوں کے مورد تھے۔ جب مدینہ کے اسلام قبول کرنے والوں نے آنحضورؐ سے ایک معلم بھجوانے کی درخواست کی تو آنحضورؐ نے آپؓ کو منتخب فرمایا اور آپؓ اسلام کے پہلے مبلغ بن کر مدینہ تشریف لے گئے۔ آپؓ کی سادگی، پاکبازی، انکساری اور شیریں بیانی نے لوگوں کے دلوں کی کایا پلٹنا شروع کی اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ میں اسلام کو بڑی وسعت حاصل ہوگئی۔ اس پر ایک قبیلے کے سردار سعد بن معاذ نے اپنے چچا زاد بھائی اسید کو آپؓ کو ماربھگانے پر آمادہ کیا۔ جب اسید اپنی برچھی لے کر آپؓ کو دھمکانے کیلئے آئے تو آپؓ نے نہایت شیریں زبان میں فرمایا کہ تشریف رکھئے، ذرا ہماری بات سُن لیجئے، اگر پسند نہ آئے تو پھر جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ پھر آپؓ نے چندآیاتِ قرآنی کی تلاوت کی تو اسیدؓ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ جب وہ واپس سعد کے پاس پہنچے تو کہا کہ مجھے تو اُن میں کوئی بھی خرابی نظر نہیں آئی۔ سعد نے یہ سنا تو غصے میں اپنا نیزہ پکڑے خود مصعبؓ کے پاس پہنچے اور فوراً مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ آپؓ نے اِن سے بھی وہی مکالمہ دہرایا اور سعدؓ نے بھی اسی وقت اسلام قبول کرلیا اور اس کے ساتھ ہی اُن کا سارا قبیلہ بھی مسلمان ہوگیا۔
حضرت مصعبؓ جنگ بدر میں اپنی شجاعت کا لوہا منوا چکے تھے اور اسلامی عَلَم بھی آنحضورﷺ نے آپؓ کے سپرد فرمایا تھا۔ غزوہ احد میں بھی یہ شرف آپؓ کو ہی حاصل رہا۔ جب ایک موقعہ پر جنگ کا پانسہ پلٹا تو آپؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ کے عَلم کو سرنگوں نہ ہونے دوں گا۔ یہ کہہ کر ایک ہاتھ میں شمشیر لی اور دوسرے میں عَلَم پکڑا اور کفار پر ٹوٹ پڑے۔ ایک بدبخت ابن قمیہ نے تلوار سے جب آپؓ کا داہنا ہاتھ کاٹا تو آپؓ نے عَلَم بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ جب اُس نے بایاں بھی کاٹ دیا تو آپؓ نے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حلقہ بناکر عَلَم سینہ سے چمٹا لیا۔ اِس پر اُس نے اپنا نیزہ آپؓ کے سینہ میں اتار دیا اور آپؓ شہید ہوگئے۔ جب آنحضورﷺ نے حضرت مصعبؓ کی نعش دیکھی تو آبدیدہ ہوکر فرمایا ’’میں نے مکہ میں تمہارے جیسا حسین اور خوش لباس اور کوئی نہ دیکھا تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال گرد آلود اور الجھے ہوئے ہیں اور تمہارے جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کی حیثیت سے اٹھو گے‘‘۔
شہادت کے بعد جو چادر حضرت مصعبؓ کی نعش پر ڈالی گئی تھی وہ کچھ چھوٹی تھی اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ چادر سے سر ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو۔ چنانچہ آپؓ اسی حالت میں دفن کئے گئے۔ آپؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍ستمبر 1998ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔