حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کی چند خوشگوار یادیں
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری فروری 2025ء)
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے ہمارے خاندان کو احمدیت کے نور سے منورکیا جب 1909ء میں خاکسار کے دادا جان محترم محمد الیاس خانصاحب نے چارسدہ کی سنگلاخ زمین میں قبول ِاحمدیت کی سعادت پائی۔ ان کے بعد میرے پیارے بزرگ والد خان عبدالسلام خان صاحب نے احمدیت کی شمع کو سینے سے لگائے رکھا اور اپنی نسل کو یہ مقدس امانت منتقل کی۔ خاکسار کی پیدائش 1943 ء میں ہوئی اور میں نے احمدیت کے ماحول میں ہی ہوش سنبھالا۔
یہ حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا مبارک دَور خلافت تھا۔ ہم پشاور میں رہتے تھے اور ہم سب بہن بھائیوں کو سارا سال جلسہ سالانہ کا بے چینی سے انتظاررہتا تھا اور والد صاحب کے ساتھ ہمارا سارا کنبہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے باقاعدگی سے ربوہ جایا کرتا تھا۔ یوں نہایت چھوٹی عمر سے ہی الحمدللہ ہمیں باقاعدگی سے ربوہ جاکر جلسہ کے روحانی ماحول سے مستفیض ہونے کی توفیق ملتی رہی۔ ہم جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓ کی تقاریر سنتے، ان ایام میں حضورؓ سے ہونے والی جماعتی وفود کی ملاقاتوں کا حصہ بنتے۔ اس طرح ہمیں حضورؓ کے پُرنور، مبارک اور روحانی چہرہ کا دیدار نصیب رہتا۔ ہماری جماعت پشاورکی ملاقات کے دوران سرحد کے صوبائی امیر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب حضور ؓ کے بائیں طرف بیٹھا کرتے تھے۔
اُ س انتہائی بچپن کے زمانہ کے باوجود خاکسار نے مشاہدہ کیا کہ حضور ؓ کا مبارک چہرہ اتنا پُر نورہےاورآپ کی آنکھوں میں ایک ایسی خاص کشش ہے کہ باوجودکوشش کے ہم حضور کے ساتھ زیادہ دیر تک آنکھ نہیں ملا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کوایک غیر معمولی رعب عطا کیا ہوا تھا۔
ایک نہ بھولنے والا واقعہ
مَیں آج بھی اس واقعہ کو یاد کرکے اپنی خوش نصیبی پر خدا کا خاص شکر ادا کرتا ہوں۔ میری عمر غالباً 14-15 سال ہوگی جب پشاور کی جماعت کی اجتماعی ملاقات کے دوران خاکسار بھی قطار میں کھڑا تھا۔ اپنی باری آنے پر حضرت مصلح موعودؓ سے مصافحہ کا شرف پایا۔ حضورؓ نے ازراہِ شفقت میرا ہاتھ کچھ دیر تک تھامے رکھا اور فرمایا کہ اپنا تعارف کرواؤ۔ اس پر خاکسار نے والد صاحب کا نام لیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اَور بتاؤ ۔ پھر مَیں نے اپنے نانا حضرت خان خواص خان صاحب کا نام لیاتو حضورؓ نے پھر فرمایا کہ اَور بتاؤ ۔ اب کی بار خاکسار نے اپنے داداحضرت مولوی محمد الیاس خانصاحب کا نام لیا (جنہیں چارسدہ میں قبول احمدیت کے بعد شدید مخالفت کاسامنا ہوا تو وہ ہجرت کرکے مستونگ صوبہ بلوچستان چلے گئے اور وہاں احمدیت کی خوب تبلیغ کرنے کی توفیق پائی۔ آپ نے حکومت بلوچستان کے وزراء، مقامی سرداروں اور نوابوں کو بھی پیغامِ احمدیت پہنچایا۔ آپ کی وفات 1948ءمیں پشاور میں ہوئی تھی۔) میرا جواب سن کر حضورؓ نے فرمایا:’’وہ تو ہمارے آنریری مبلغ تھے۔ اُنہوں نے بلوچستان کے نوابوں کو بھی تبلیغ کی تھی۔‘‘ اس وقت تک حضورؓ نے مجھ ناچیز کا ہاتھ تھامے رکھا ۔ الحمدللہ علی ذٰلک
خاکسار کو حضور انور کی روحانی نوبت خانہ والی تقاریر کا سننا بھی یاد ہے۔ حضور کی تقاریر بہت ایمان افروز ہوتیں اور بہت دیر سے ختم ہوا کرتیں۔
جابہ میں حضورؓ سے جماعتی ملاقات
قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں گرمی کے شدت کے دنوں میں حضرت مصلح موعود ؓ کچھ وقت کے لیے ربوہ سے قریب ایک بستی جابہ تشریف لے جاتے تھے۔ حضورؓ کا دفتری عملہ اور افرادِ خاندان بھی ساتھ ہوتے تھے۔ خوشاب کے قریب واقع اس جگہ کے نسبتاً بہتر موسم میں حضورؓ کی مصروفیات بھی جاری رہتی تھیں۔ غالباً یہ زمین محترم نواب مسعود احمد خان پسر حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ملکیت تھی۔ میری اہلیہ محترمہ صاحبزادی امۃالحی مرحومہ بنت ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب بتایا کرتی تھیں کہ ان کو بھی حضورؓ کے ساتھ متعدد مرتبہ جابہ جاکر رہنے کا موقع ملا۔ وہ بتایا کرتی تھیں کہ تب حضورؓ جابہ میں قیام کے دوران تفسیرِ صغیر مرتب فرمایا کرتے تھے۔
ایک دفعہ پشاور کی جماعت بھی خصوصی بس میں سوار ہوکر حضورؓ کی ملاقات کے لیے جابہ گئی تھی۔ اس سفر میں خاکسار بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ گیا تھا اور مجھے حضورؓ کی محفل میں بیٹھنے اور آپؓ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔
دعائیہ خطوط
میرے والد محترم خود بھی ہمیشہ حضورؓ کو دعائیہ خط لکھتے اور ہم سب بہن بھائیوں کو بھی نصیحت کرتے کہ اپنے سب معاملات کے لیے حضورؓ کو دعا کے لیے لکھا کریں۔ چنانچہ ابتدائی عمر سے ہی خاکسار بفضلہ تعالیٰ باقاعدگی سے حضورؓ کو دعا ئیہ خط لکھنے لگا جن کا جواب حضور ؓ کی طرف سےایک پوسٹ کارڈ پرآتا تھا جس پر حضورؓ کے نام کی مہر لگی ہوتی تھی۔
ایک اور ملاقات
خاکسار کے خاندان میں میرے دادا حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب رضی اللہ عنہ کو احمدیت کی نعمت سب سے پہلے ملی تھی۔انہوں نے ایک بزرگ صحابی حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ 1909 ءمیں بیعت کی سعادت پائی تھی۔
حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ کا آبائی گاؤں اصل میں مدھ بھیلووال (Mudh Bhillowal) ضلع امرتسر ہے (جماعتی لٹریچر میں اس گاؤں کا نام صرف ’’مُد‘‘ مشہور ہے۔) لیکن آپؓ مردان میں پیدا ہوئےجہاں آپ کے والد میاں احمد بخش صاحب نائب تحصیلدار تھے۔یوں حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ نے ساری زندگی مردان میں ہی گزاری۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’’اعجاز احمدی‘‘ اور ملفوظات نیز احمدیہ لٹریچر میں آپؓ کانام ’’مباحثہ مُد‘‘ اور دیگر خدمات سلسلہ کے حوالہ سے مذکو ر ہے۔
حضرت میاں محمد یوسف صاحب جو میاں جی کے نام سے مشہور تھے، مردان کی احمدیہ جماعت کے امیر بھی رہ چکے تھے اور بہت سے لوگوں کو احمدیت کے آغوش میں لانے کا باعث ہوئے۔یہ 1959کا واقعہ ہے جب خاکسار میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تو میری مرحومہ نانی جان محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محترم خان خواص خان صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ آف مردان کے ساتھ وعدہ کیا ہواہے کہ ان کی حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے سفرکا انتظام کروں گی۔ تبآپؓ کی عمر 100 سال سے زیادہ تھی۔ آپ جسمانی طور پر کافی کمزور ہوچکے تھے اور کسی کا سہارا لے کرچلتے تھے۔ محترمہ نانی صاحبہ نے مجھے کہا کہ چونکہ تم اب اپنے امتحانات کے بعد فارغ ہو اس لیے میری خواہش ہے کہ تم میاں جی کو حضرت مصلح موعودؓ کی ملاقات کے لیے ربوہ لے جاؤ۔
میری نانی جان مرحومہ نے خاکسار کا اور حضرت میاں جی ؓ کے سفر کا خرچ خود ادا کیا اور اس یادگارسفرمیں معاونت اور خدمت کی سعادت میرے حصہ میں آئی۔ الحمدللہ ۔ خاکسار حضرت میاں جی صاحب کو بذریعہ چناب ایکسپرس پشاور سے ربوہ لے گیا ۔ ربوہ پہنچ کر حضور ؓ کے ساتھ ملاقات کے لیے وقت لیاگیا اورجیسا کہ ذکر ہوچکا حضرت میاں جی صاحب سہارا سے چلتے تھے، ملاقات کے لیے جاتے ہوئے ان کے ایک طرف خاکسار اور دوسری طرف ہمارے رشتہ دار محمدحسن خان درّانی صاحب نے میاں جی کو سہارا دیاہوا تھا۔
مجھے اچھی طرح منظر یاد ہے کہ جب ہم اندر داخل ہوئے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک صاف بستر پر آرام فرما تھے اور اخبار پڑھ رہے تھے۔ حضور ؓ نے از راہ شفقت حضرت میاں جیؓ سے ان کا حال احوال اور صحت کے بارے میں پوچھا۔ نیز حضور ؓنے حضرت میاں جی ؓسے فرمایا کہ میں نے سنا ہے آپ ابھی تک ماشاءاللہ نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں۔ اس پر حضرت میاں جیؓ نے اثبات میں جواب دیا۔ حضرت میاں جیؓ نے حضورؓ کی خدمت میں قرآن پاک کاایک چھوٹے سائز کا نسخہ تحفۃً پیش کیا، جوغالبا مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کا ہاتھ کا لکھا ہواتھا۔ یہ میرے لیے ایک نہایت اہم ، حسین اوریادگار موقع تھا کہ مجھےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس قدر قریب سے دیکھنے کی سعادت ملی۔ الحمدللہ علی ذٰلک
حضرت میاں جیؓ نے 6؍مئی 1961ء کو مردان میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپؓ کے بھتیجے مکرم میاں محمد حسین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ مردان کی طرف سے اخبار ’’الفضل 21؍مئی 1961ء صفحہ6 ‘‘ پر لکھا:’’حضرت میاں محمد یوسف صاحب احمدی اپیل نویس، جو حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی اور 1901ء کے بیعت شدہ تھے، قریبا ًایک سو سال کی عمر پاکر 6؍مئی 1961ء بوقت ساڑھے تین بجے صبح بروز شنبہ مقام بکٹ گنج مردان وفات پاگئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔ اسی دن شام کو انھیں امانتاً سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے جنازہ میں جماعتہائے احمدیہ ہوتی، مردان، نوشہرہ، پشاور کے احباب، اقرباء اور معززین بکٹ گنج نے شمولیت کی۔ غسل کے بعد وہ قمیض جو مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھی، پہنا کر تکفین کی گئی۔ نماز جنازہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ہائے سابق صوبہ سرحد نے پڑھائی۔‘‘
حضرت میاں جی کی وفات کے بعد 1961ءمیں ہی خاکسار نے جب ایف ایس سی (میڈیکل) کا امتحان دیا تو میری شدید خواہش تھی کہ مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے۔ میں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور میں داخلہ کے لیے درخواست دی تو میرا نام waiting list میں آیا جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا۔ خاکسار نے حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو دعا کے لیے خطوط لکھے۔ میرے والدمحترم عبدالسلام خان صاحب بہت دعاگو انسان تھے۔ انہوں نے بھی میرے لیے بہت دعائیں کیں اور مجھے تسلی دیتے رہے۔خاکسار خود بھی دعاؤں میں مصروف رہا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت میاں جی کی بیٹی ہمارے گھر آئیں اور میرے بارے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ حامداللہ کو کیوں اتنی پریشانی ہے۔ حالانکہ میرے والد صاحب حضرت میاں جی ؓ دوبار میرے خواب میں آئے ہیں اور کہا ہے کہ حامد اللہ کو کہو کہ مکمل تسلی رکھے، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل، خلیفۂ وقت کی دعا اور بزرگانِ سلسلہ کی دعاؤں کے طفیل خاکسار کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ الحمد للہ ۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق و مدد سے خاکسار نے 1966ء میں پشاور سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد عملی زندگی میں انگلستان آکر طب کے شعبہ میں کام کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ نیز متفرق جماعتی خدمات کی بھی سعادت ملتی رہی۔
جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے سفروں کی چند یادیں
جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ ہم لوگ اپنے والد صاحب کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ ہر سال جلسہ سالانہ پر ربوہ جاتے اور وہاں کے خاص روحانی ماحول سے مستفید ہوتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری پشاور کے احمدی احباب جلسہ سےدوتین دن پہلے بذریعہ چناب ایکسپرس ربوہ کے لیے پشاور اسٹیشن سے اکٹھے سفرشروع کرتے تھے۔اس سفر کا ایک اپناہی الگ مزہ ہوتاتھا۔ راستہ میں باجماعت نمازیں ہوتیں۔ ہمارے ڈبّے کے دروازے کے قریب کھڑا ہوا کوئی شخص بلند آواز سے تکبیر کہتا اور سب نماز میں شامل ہوجاتے۔ جونہی ربوہ قریب آتاتو نعرہ ہائے تکبیر سے صدا گونجنے لگتی۔ جلسہ کے مہمانوں کے استقبال کے لیے ربوہ اسٹیشن پر استقبال کے لیے خدام ڈیوٹی پر موجود ہوتے اور وہ ہی سامان اُٹھا کر ہمیں ہماری رہائش گاہوں تک پہنچا دیتے۔ ہماری پشاور کی جماعت کے قیام کا انتظام مجلس انصاراللہ کے یا تحریک جدید کے دفاتر میں ہو تاتھا۔ ہم لوگ اپنا بستر ساتھ لے کر ربوہ جاتے تھے اور فرش پربچھی ہوئی پرالی پر اپنا اپنا بستر لگالیتے۔ وہ بہت ہی روحانی ماحول ہوتا تھا جبکہ سب بزرگ بھی اوربعض صحابہ بھی فرش پر بستر لگا کر سوتےتھے۔
ہم لوگ جلسہ سالانہ کے ایام میں مسجد مبارک میں تہجد اورنماز فجر کے لیے حاضر ہوتے۔ اس کے بعد خاکسار اپنے والد صاحب کے ساتھ بہشتی مقبرہ دعا کرنے جاتا اور پھر جلسہ پروگرام کے مطابق دن کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ہم لوگ ایک بڑی چادر لے کر جلسہ گاہ میں اوّل وقت میں ہی پہنچ جاتے اور ہماری کوشش ہوتی کہ ہمیں سٹیج کے قریب جگہ مل جائے۔
خاکسار کو حضورؓ کی سیرِ روحانی کی تقاریرسننا بھی یاد ہیں جوگو بہت لمبی ہوتی تھیں لیکن احباب سارا وقت پوری توجہ سے تقاریر سنتے۔ حضورؓکی تقاریر بہت ہی دلچسپ ہوتی تھیں جن میں بعض دفعہ لطیفہ بھی آجاتا۔ الغرض تقاریر کے دوران سامعین کی توجہ قائم رہتی تھی۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓافتتاحی تقریر کے بعد اور اسی طرح اختتامی تقریر کے بعد بہت لمبی اورپُر سوز دعا کرواتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ رقّت کی وجہ سے اکثر احباب دورانِ دعا زارو قطار رورہے ہوتے تھے اور خود حضور ؓ کی رقّت و گریہ و زاری کی آواز لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے ہم تک پہنچ جاتی تھی۔
یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا کہ 1961ء سے حضور ؓ کی بیماری میں بہت اضافہ ہوگیا اور پھر ملا قات کے مواقع کم ہوتے گئے۔ تب حضور ؓجلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس پر کچھ وقت کے لیے تشریف لاتے۔ بعض دوست حضورؓ کو کچھ سہارا بھی دے رہے ہوتے تھے۔ آپؓ مختصر خطاب فرماتے۔ اوردور دراز سے آئے مخلصین حضورؓ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قادیان کے ذکر پرحضور ؓ بھی جذبات سے بہت مغلوب ہو گئے اور بے اختیار رونے لگے، جس پر جلسہ گاہ میں موجود احمدیوں کی حالت ہی عجیب ہوگئی۔
حضورؓ کے جنازہ میں شمولیت
حضرت مصلح موعود ؓ کی طبیعت آخری چند سال بوجہ کمزوری اور مختلف عوارض شدید علیل رہی۔ 1965ءمیں خاکسار میڈیکل کالج کے چوتھے سال کا طالب علم تھا۔ ایک روز مَیں اپنے ایک دوست مکرم ظاہر اللہ بابرصاحب کے گھر کھانے پر مدعو تھا تو مَیں نے وہاں ریڈیو کے خبرنامہ میں یہ نہایت افسوسناک خبر سنی کہ امام جماعت احمدیہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب وفات پا گئے ہیں۔ یہ اچانک خبر سن کر میں شدّتِ غم سے نڈھال ہوگیا اور اپنے دوست سے معذرت کرکے کھانا ادھورا چھوڑ کرفورًا گھرچلا گیا۔وہاں بھی سب لوگ یہ خبر سن کر بہت زیادہ افسردہ اور غمگین تھے۔ پشاور اسٹیشن سے شام کے وقت چناب ایکسپرس ربوہ کے لیے روانہ ہوتی تھی۔ خاکسار بھی اپنے والدصاحب اور مقامی جماعت کے دوسرے احباب کے ساتھ ربوہ کے لیے روانہ ہوا۔ اس سفر کے دوران سرگودھا اسٹیشن پر ایک دوست نے اخبار خریدا جس میں یہ خبر تھی کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب کو امام جماعت منتخب کیا گیا ہے۔ اس پر ہماری جماعت کے ایک بزرگ ( مجھے نام یاد نہیں) نے کہا کہ ہم نے اخبار کی خبر پر یقین نہیں کرنا اور ربوہ پہنچ کر خود تصدیق ہو جائے گی۔ ہماری ٹرین صبح کے وقت ربوہ پہنچی اور اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو خلیفۃالمسیح الثالث منتخب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم سب بھی بیعت میں شامل ہوئے۔
حضرت مصلح موعود ؓ کے جنازے میں اور آخری دیدار کے لیے کثرت سے بیرونی جماعتوں کے لوگ پہنچ رہے تھے۔ حضورؓ کے جسدِ مبارک کو قصرِخلافت میں رکھا گیا تھا۔ آخری دیدار کے لیے اپنی باری کے انتظار میں احباب کی لمبی قطاریں گول بازار تک چلی گئی تھیں اورہر جگہ خدام احسن طریق پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔حضورؓ کا جنازہ ایک چارپائی پر رکھا گیا تھا جس کے ساتھ بہت لمبے لمبے بانس لگائے گئے تھے۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو صرف مخصوص لوگوں کو جس میں خاندانِ حضرت مسیح موعود کے افراد ،ناظران، وکلاء، اُمرائے جماعت اور قائدینِ اضلاع وغیرہ کوہی کندھا دینے کا موقع مل رہا تھا۔ خاکسار گول بازار کے قریب کھڑا تھا جہاں لوگوں کا بہت بڑا ہجوم تھا اور سب ہی بہت افسردہ تھے۔ اُن دنوں خاکسار پشاور احمدیہ انٹرکالجیٹ کا صدر تھا۔ خاکسار نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور انٹرکالیجیٹ کے صدر کے طور پر کندھا دینے کے لیے شامل ہوگیا۔ مجھے دائیں طرف سے کندھا دینے کا موقع ملا۔ میرے پیچھے محترم پیر انوار الدین صاحب مرحوم کندھا دے رہے تھے۔ جب کچھ دیر بعد خاکسار دوسرے احباب کو موقع دینےکے لیے الگ ہونے لگا تو محترم پیر صاحب نے مجھے آواز دے کر فرمایا کہ اپنی جگہ پر موجود رہو۔ یوں خاکسار کو بہشتی مقبرہ تک کندھا دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فالحمدللہ علی ذٰلک۔ نماز جنازہ بہشتی مقبرہ میں ادا کی گئی جہاں احاطہ کے اندر اور باہر لوگ ہی لوگ تھے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کے درجات بلند کرتا چلاجائے اور ہم سب کو خلافت کا وفادار حقیقی احمدی بنائے رکھے۔ آمین
Informative essay may Allah the Almighty bless all buzurgan