حضرت مصلح موعودؓ کی یادیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18فروری 2022ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 17؍فروری 2014ءمیں مکرم منور احمد خالد صاحب اپنی یادداشتوں کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد حضرت چودھری غلام صاحبؓ بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے تینوں چھوٹے بھائیوں اور اپنے والد صاحب کے ہمراہ سندھ آگئے تاکہ سندھ کی آبادکاری کے لیے انگریزوں کی نئی سکیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔ آپؓ نے بعدازاں سندھ کی پہلی باقاعدہ جماعت کوٹ احمدیاں آباد کی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جب 1934ء میں اپنے خاندان اور تحریک جدید کے لیے زمینیں خرید فرمائیں تو ان کی آبادکاری میں میرے والد کو بھی خدمت کا موقع ملا۔ جو احمدی اس سکیم سے استفادہ کرنا چاہتے اُنہیں مرکز کی طرف سے کوٹ احمدیاں جانے کی ہدایت ملتی اور ہمارے ہاں اُن کی مہمان نوازی اور راہنمائی کی جاتی۔ حضورؓ کی سندھ میں تشریف آوری کے وقت بھی ہمیں خدمت کی خاص سعادت ملتی۔
میری پیدائش 1936ء کی ہے اور اسی سال حضرت مصلح موعودؓ پہلی بار سندھ تشریف لائے تو آپؓ کے ہمراہ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت اُمّ طاہرؓ بھی تھیں۔ میری دو بڑی بہنوں نے حضورؓ اور خاندان اقدس کی خدمت کی توفیق پائی۔ یہ روایت پھر حضورؓ کے تمام دوروں میں جاری رہی اور اس طرح بی بی جمیل کے ساتھ ان کی دوستی بھی ہوگئی۔ جب حضورؓ کا دورہ اختتام کو پہنچتا تو کوٹ احمدیاں اطلاع بھجوادی جاتی کہ آکر بچیوں کو لے جائیں۔ ایک بار یہ اطلاع نہ بھجوائی جاسکی تو حضورؓ نے پسند نہ فرمایا کہ بچیاں کسی اَور کے ساتھ بھجوائی جائیں اور یہ پیغام آیا کہ ہم بشیرآباد جارہے ہیں، بچیوں کو وہاں آکر لے جائیں۔ بچپن میں مجھے بھی اندرونِ خانہ جانے کی اجازت ہوتی اور تبرک سے خوب حصہ ملتا۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے میرے بڑے بھائی کو اور 1950ء میں مجھے بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں داخل کروادیا گیا۔ ہم کبھی پیدل اور کبھی سائیکل یا بس پر ربوہ جاکر حضورؓ کے درس سنتے اور جمعہ کی نماز بھی ادا کرتے۔ حضرت مسیح موعودؑ سلطان القلم تھے تو آپؑ کے مثیل سلطان البیان تھے۔
پھر ہمارا سکول ربوہ منتقل ہوگیا۔ 1953ء کے فسادات میں قصر خلافت کے اندرونی دروازے پر پہرہ دینے کی سعادت ملتی رہی۔ ہمارے ایک ساتھی کی والدہ بطور خادمہ قصرخلافت میں کام کرتی تھیں۔ ہر صبح ہمارا ساتھی اپنی والدہ کے ذریعے بطور تبرک وہ مکھن کا پیڑہ منگواتا جس میں سے حضورؓ نے کچھ لیا ہوتا۔جب حضورؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو یہ عاجز بھی مسجد میں موجود تھا۔ پھر حضورؓ کا دردناک پیغام جماعت کے نام آیا تو نیندیں حرام ہوگئی تھیں اور شفایابی کے لیے دعاؤں میں چیخیں نکل نکل جایا کرتیں۔
ربوہ میں ایک دفعہ مجھے سخت بخار ہوگیا کہ تھرمامیٹر کی حد پار کرنے لگا۔ ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ نے گھبراکر حضرت سیّد محموداللہ شاہ صاحبؓ (ہیڈماسٹر) کو اطلاع کی۔ انہوں نے حضورؓ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا تو حضورؓ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں کا ہے؟ بتایا گیا سندھ کا ہے۔ حضورؓ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گا اور لڑکا سندھ کا ہے تو فکر نہ کریں وہاں ملیریا بعض اوقات اتنا تیز ہوجایا کرتا ہے۔ چنانچہ حضورؓ کی دعا میرے لیے معجزہ بن گئی۔ ساری عمر سندھ کے مچھروں میں گزاری۔ آج اس دعا کو ساٹھ سال سے زیادہ ہورہے ہیں لیکن مجھے اس کے بعد کبھی ملیریا نہیں ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کی اطلاع کوٹ احمدیاں میں ملی تو بظاہر ناممکن تھا کہ حضورؓ کے چہرے کے دیدار کے لیے ربوہ پہنچ پاتا۔ حیدرآباد پہنچا تو چناب ایکسپریس نکل گئی تھی اور لاہور جانے والی خیبرمیل تیار تھی چنانچہ اس پر سوار ہوگیا۔ کئی اَور احمدی بھی اس میں سوار تھے۔ مَیں نے سوچا کہ لاہور جاکر ربوہ جاؤں گا تو بہت وقت لگ جائے گا لیکن اگر کسی طرح یہ ٹرین چیچہ وطنی میں رُک جائے تو وہاں سے بس کے ذریعے ربوہ جلدی پہنچا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے شدّت سے دعا شروع کردی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور ٹرین چیچہ وطنی کے سٹیشن سے آگے نکل کر سگنل کے پاس عین اُس جگہ ایک منٹ کے لیے اچانک رُک گئی جہاں سے سڑک سیدھی فیصل آباد کو جاتی ہے۔ مَیں چھلانگ لگاکر نیچے اُتر آیا اور اپنے ساتھیوں کو بھی مشورہ دیا کہ یہاں اُترجائیں لیکن انہیں فیصلہ کرنے میں ذرا دیر ہوئی اور ٹرین چل دی۔ مجھے فورًا ہی وہاں سے بس مل گئی اور مَیں اپنے ساتھیوں سے پانچ گھنٹے پہلے ربوہ پہنچ گیا۔ حضورؓ کے چہرۂ مبارک کا دیدار کیا، خلافتِ ثالثہ کی بیعت بھی کی اور نماز جنازہ میں شرکت بھی نصیب ہوگئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کے وقت خاکسار کوٹ احمدیاں میں موجود تھا۔ قائدعلاقہ اور دیگر عہدیدار بھی ایک پروگرام کے سلسلے میں وہاں آئے ہوئے تھے۔ ہمیں جب حضورؒ کی وفات کی اطلاع ملی تو ربوہ جانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اُس وقت میرے پاس ایک پرانی جیپ ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اُسی میں ربوہ کا سفر شروع کردیا۔ جب ہم میرپورخاص پہنچے تو ایک غیرازجماعت وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہیں اپنے سفر کا پروگرام بتایا تو انہوں نے کہا کہ اس جیپ میں اتنی دُور کیسے پہنچوگے۔ یہ جیپ میرے پاس یہیں چھوڑ جاؤ اور میری کار لے جاؤ۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور پھر سولہ گھنٹے مسلسل اُن کی کار میں سفر کرتے ہوئے ربوہ پہنچے۔ چہرۂ مبارک کا دیدار کیا، خلافت رابعہ کی پہلی بیعت میں اور پھر نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی جب وفات ہوئی تو مَیں دعوت الی اللہ کی غرض سے ہنگری میں مقیم تھا۔ مَیں نے اپنے بیٹے کو جرمنی میں اطلاع دی کہ مَیں ٹرین پر فلاں وقت کوبلنز کے سٹیشن پر پہنچ رہا ہوں۔ لندن جانے کے لیے وہ خود بھی تیار رہے اور گاڑی بھی تیاررکھے تاکہ وقت ضائع کیے بغیر ہم لندن روانہ ہوسکیں۔ چنانچہ ہنگری سے بارہ گھنٹے کا سفر کرکے مَیں پہلے جرمنی اور پھر چھ گھنٹے کا مزید سفر کرکے لندن پہنچا۔ الحمدللہ خلافتِ خامسہ کی پہلے ہی دن بیعت نصیب ہوئی اور حضوررحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی توفیق بھی ملی۔ کئی بار خیال آتا ہے کہ دراصل یہ اُسی دعا کی قبولیت کا تسلسل ہے جس نے حضرت مصلح موعودؓ کے چہرے کے دیدار اور جنازے میں شرکت کے لیے ٹرین کو چیچہ وطنی میں روک دیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں