حضرت منشی گلاب خان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍جنوری2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت منشی گلاب خان صاحبؓ نقشہ نویس سیالکوٹ کے حالات زندگی شائع ہوئے ہیں۔
حضرت گلاب خان صاحبؓ ولد محترم میراں بخش صاحب قوم پٹھان سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ آپ پہلے تو نقشہ نویسی کا کام کرتے رہے بعد میں ملٹری میں ملازم ہوگئے اور سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس سے ریٹائر ہوئے۔ آپؓ نے 1892ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت کا اندراج اس طرح درج ہے: 5؍مارچ 1892ء گلاب خاں ولد میراں بخش نقشہ نویس ۔۔۔۔۔ ساکن سیالکوٹ پورن دروازہ
دسمبر 1892ء میں ہونے والے دوسرے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے پر حضورعلیہ السلام نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں آپؓ کا نام 24ویں نمبر پر درج فرمایا۔ اس کے علاوہ بعض دیگر کتب مثلًا’’سراج منیر‘‘، ’’کتاب البریہ‘‘ اور ’’تریاق القلوب‘‘ میں درج مختلف فہرستوں میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
حضرت گلاب خان صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے ذریعہ بیعت کی تھی اور میرا نام منارۃ المسیح پر بھی کندہ ہے۔ قریباً 1893ء کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعودؑ دسمبر کے جلسہ کے موقع پر مغرب کی نماز پڑھا کر اس مکان میں بیٹھے ہوئے تھے جس کی دیوار مرزا نظام الدین وغیرہ کے مکان سے ملتی تھی۔ اسی دن مرزا نظام الدین وغیرہ کے ہاں لڑکا تولد ہوا تھا اور ڈھولک بڑے زور شور سے بج رہی تھی، کان بیٹھے جاتے تھے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور ڈھولکی اس زور سے بج رہی ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا، حضرت اقدسؑ فرمانے لگے کہ مجھے تو اس ڈھولکی سے رونے کی آواز آرہی ہے۔ چنانچہ قدرت نے ایسا سامان بنادیا کہ صبح ہوتے ہی وہ لڑکا فوت ہوگیا اور پھر ڈھولک کی آواز سے کہیں زیادہ رونے اور آہ زاری کی آوازیں آنے لگیں۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ 1894-95ء ہوگا مہینہ اپریل کا تھا اور جمعہ کا دن تھا۔ دو سو کے قریب لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد اقصیٰ میں جمع تھے۔ حضرت اقدسؑ اور حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ بھی وہاں موجود تھے۔ مجھے نماز ہی میں سخت بخار ہوگیا جس سے مجھے بہت تکلیف محسوس ہوئی۔ مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو چونکہ مجھ سے بہت محبت تھی، ان سے رہا نہ گیا حضرت اقدسؑ کے قریب آکر عرض کی کہ گلاب خاں کو بخار ہوگیا ہے جس سے بہت تکلیف ہے۔ حضورؑ نے فرمایا: تھوڑا ٹھہرو۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد پھر عرض کی۔ پھر حضورؑ نے فرمایا: جلسہ برخاست ہونے دو۔ تھوڑی دیر میں جلسہ برخاست ہوگیا اور حضرت اقدس اٹھ کر تشریف لے گئے اور میں وہاں ہی مسجد میں رہا۔ جلد ہی مجھے حضورؑ نے دوائی لاکر دی یا بھیج دی جس کے استعمال کے تھوڑی دیر بعد میرا بخار بالکل اتر گیا۔
حضرت اقدس کس قدر رحیم و کریم تھے اور اپنے معمولی مرید کی کس قدر عزت افزائی فرماتے تھے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسمیٰ مستری حسن دین صاحبؓ ساکن میانہ پورہ سیالکوٹ جو بہت ہی نیک آدمی تھے، مجھے کہنے لگے کہ مَیں ابھی قادیان سے آیا ہوں وہاں کنواں مکان کے اندر بنانا تھا گرمی کا موسم تھا، بسبب موسم گرم ہونے کے مجھے بہت پسینہ آگیا۔ اتنے میں حضرت اقدسؑ تشریف لائے، فرمانے لگے حسن دین! تم کام کرو میں تم کو پنکھا کرتا ہوں کیونکہ تم کو بہت گرمی لگ رہی ہے۔۔
حضرت منشی گلاب خان صاحبؓ کی آنکھیں ذکر محبوب سن کر پُرنم ہو جاتی تھیں اور رقت اور سوز و گداز سے حضرت مسیح موعودؑ کو یاد کرتے اور آپ پر سلام بھیجنے میں لذت محسوس کرتے تھے۔ خاندان مسیح موعودؑ اور خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے دلی محبت تھی۔ آپؓ نے 29جون 1943ء کو بمقام سیالکوٹ وفات پائی۔ تدفین بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ خاص میں ہوئی۔
آپ کی زوجہ حضرت برکت بی بی صاحبہ 1880ء میں پیدا ہوئیں 1898ء میں بیعت کی توفیق پائی اور 12 جولائی 1948ء کو وفات پائی اور سیالکوٹ میں دفن ہوئیں۔ بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں یادگاری کتبہ لگایا گیا۔ آپ کے ہاں پانچ بیٹے ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں