حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ر بوہ 12نومبر 2012ء میں مکرم عبدالہادی ناصر صاحب نے حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کی بحیثیت استاد تصویرکشی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1954ء کی ایک صبح کو جامعہ احمدیہ (احمدنگر) میں داخلہ کے لئے حاضر ہوا۔ میرا احمد نگر جانے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ مقامی لوگ مجھے اجنبی لگے، پنجابی زبان ہم سے کچھ مختلف لہجے میں بولتے تھے۔ عورتیں کالے کپڑے پہنے دودھ کے برتن سروں پر رکھے ہوئے رواں دواں تھیں۔ مَیں سوچنے لگا کہ جامعہ احمدیہ کس جگہ بنایا گیا ہے۔ لاہور سے نکل کر ایک بالکل نیاماحول دیکھا۔ القصہ لوگوں سے پوچھتا جامعہ پہنچ گیا۔ جونہی جامعہ میں داخل ہوا تو ماحول یکدم بدل گیا جس طرح کہ بادل چھٹ جائیں اور دھوپ نکل آئے۔ طلباء صاف ستھرے کپڑے پہنے اور مہذب انداز میں مؤدب بیٹھے ہوئے بہت اچھے لگے۔ گویا یہاں ایک اپنی دنیا آباد ہے۔ مٹی کے کچے کمروں میں بعض کلاسیں تھیں اور بعض دیوارکے سایہ میں باہر بیٹھی ہوئی تھیں۔
محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری (پرنسپل) سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ بہت محبت سے ملے۔ مجھے داخل کرکے از راہ شفقت خود درجہ اولیٰ میں چھوڑنے آئے جو اس وقت باہر سایہ میں بیٹھی تھی۔ اُس وقت مولانا ظہورحسین صاحب طلباء کو صرف ونحو پڑھا رہے تھے ۔ گویاکہ مولانا صاحب جامعہ میں میرے پہلے استاد تھے۔ قاضی صاحب نے مولانا موصوف کو فرمایا کہ مولوی صاحب یہ آپ کا نیا شاگرد آیا ہے۔ مولانا نے میرا نام پوچھا اور پھر اپنے پاس بٹھالیا۔ آپ اس وقت طلباء سے فعل مضارع کی گردان سن رہے تھے۔ طالبعلم فرفر گردان سنا رہے تھے۔ مَیں نے پہلے کبھی صَرف و نحو نہیں پڑھی تھی۔ یہ دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا اور مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ یاالٰہی یہ دقیق علم مجھے کیسے حاصل ہوگا۔ پہلے دن پہلی کلاس نے ہی مجھے دلبرداشتہ کردیا۔ دو تین دن اسی ادھیڑ بن میں رہا۔ مولانا بھانپ گئے اور ایک دن مغرب کے وقت ہوسٹل میں میرے کمرہ میں تشریف لائے۔ مجھے بڑی محبت سے دلاسہ د یا کہ فکر نہ کرو میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر خود ہوسٹل آکر زائد وقت دے کر انہوں نے میری مدد کی اور مَیں جلد ہی کلاس کے ساتھ چل پڑا۔
اپنے اساتذہ کا سوچتا ہوں تو یوںلگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ان کی آوازیں عالم تصوّر میں سننے کی کوشش کرتا ہوں تو ان کی آوازیں کانوں میں گونج اٹھتی ہیں۔ استاذی المکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کی پر شوکت آواز اب بھی سن رہا ہوں۔ پُرشوکت آواز میں منطق فلسفہ پڑھا رہے ہیں۔
مولانا سردار ظفر محمد ظفر صاحب جوکہ عربی ادب و نظم کے استاد تھے جو اپنی مترنم آواز میں متنبی اور حماسہ پڑھاتے تھے یاد آگئے۔ انہوں نے کبھی کتاب ہاتھ میں نہیں پکڑی تھی بلکہ اشعار زبانی یاد تھے۔ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیربھی پڑھاتے تھے۔ دلکش آواز میں تلاوت کرتے جو دل کو مسحور کردیتی۔ آیات کے اچھوتے نکات بیان کرتے کہ مزہ آجاتا۔ آپ اردو،عربی، فارسی تینوں زبانوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔
محترم ابوالحسن قدسی صاحب (جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے فرزند تھے وہ) عربی نثر کے استاد تھے۔ کم گو، زاہد بزرگ تھے۔ فارسی، اردو اور عربی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ آپ کا اکثر وقت لائبریری میں گزرتا۔ مکرم مفتی ملک سیف الرحمن صاحب فقہ کے استاد تھے اور فقہ میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ صرف و نحو اور تفسیر کے بھی استاد تھے۔ مکرم ملک مبارک احمد صاحب عربی ادب اور انشاء کے استاد تھے اور مصر میں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ مولانا حکیم خورشید احمد صاحب حدیث کے استاد تھے اور علم حدیث میںایک خاص مقام رکھتے تھے۔
جب ہم ان اساتذہ سے علم حاصل کر رہے تھے کبھی ان کے بارہ میں سوچا نہ تھا کہ وہ کتنے عظیم ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا قد اتنے سال گزرنے کے باوجود اتنا نمایاں ہے جیسے پہاڑ اپنی بلندی میں سطح زمین سے نمایاں نظر آتے ہوں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے۔
محترم مولانا ظہورحسین صاحب نہ صرف مولوی فاضل تھے اور ایک اچھے استاد بلکہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی بھی تھے۔ آپ اکثر اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ میں اُن دنوں میچ کھیلنے کے لئے امرتسر بھی جایا کرتا تھا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ میرے ساتھ کھیلنے کے لئے جاتے اور وہ بھی بہت اچھی ہاکی کھیلتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بہت اچھے تیراک بھی تھے۔ میرے یہ شفیق استاد نہ صرف اپنے شاگردوں کی عزت کرتے تھے بلکہ ان کے والدین کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ ایک دن میرے والد محترم لاہور سے مجھے ملنے ربوہ تشریف لائے۔ انہوں نے میرے اساتذہ سے ملاقات کرکے میری پڑھائی کے متعلق رپورٹ لی۔ مولانا نے تسلی بخش رپورٹ دی اورپھر رات کے کھانے کی دعوت بھی دی۔ میرے والد صاحب مولانا صاحب کے اخلاق سے بہت متأثر ہوئے۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تم کتنے خوش نصیب ہو کہ تمہاری زندگی ان بزرگ اور شفیق اساتذہ کے درمیان گزر رہی ہے۔ یقینا یہ بات سچ تھی۔ دن رات ان کی نگرانی میںاپنے جوانی کا زمانہ ایسے گزارا کہ ہمیںجوانیوں کے ہیجان کا کوئی احساس تک نہ ہوا۔
مولانا صاحب گھٹنے کی درد کے باوجود ہمیشہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں پڑھتے تھے۔ سوزوگداز سے نماز ادا کرتے۔ اور ساری نماز میںشروع سے آخر تک یہ حالت طاری رہتی۔ قرآن کریم کے ساتھ بہت عشق تھا۔ ہرسال رمضان میںدوسرے علماء کے ساتھ مسجد مبارک میںقرآن کا درس دیتے اور آیات کی تفسیر کرتے وقت درثمین، کلام محمود اور دیگر شعراء کے شعر بھی حسب حال پڑھتے۔ اس لئے بھی آپ کا درس پسند کیا جاتا۔ آپ نے قرآن کریم کی تین جلدیں جلدساز سے بنوا رکھی تھیں۔ قرآن کے ہر ورق کے بعد سفید کاغذ رکھوائے ہوئے تھے جن پر اپنے نکات درج کرلیتے۔
ایک دفعہ آپ سورئہ طٰہٰ کا درس دیتے ہوئے خداتعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مکالمہ بیان کررہے تھے کہ جب خدا تعالیٰ نے پوچھا کہ ’’اے موسیٰ یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا۔ اس نے کہا یہ میرا عصا ہے میں اس پر سہارا لیتا ہوں اور اس کے ذریعے اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لئے اَور بھی بہت سے فوائد ہیں‘‘۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ تیرے داہنے ہاتھ میںکیا ہے۔ آپؑ کو چاہئے تھا کہ اتنا جواب دیتے کہ یہ عصا ہے لیکن آپؑ نے تفصیل بیان کرنی شروع کردی۔ یوںمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ دیر تک کلام کرنے کا بہانہ ڈھونڈا۔
1955ء کے بعد جامعہ احمدیہ ربوہ میں جلسہ سالانہ کے لنگرخانہ میں منتقل ہوا۔ لنگر خانہ کے تنوروں کو پُر کیا گیا۔ تنوروں پر چھت چھپر کی تھی جو کچی مٹی کے ستونوں پر ڈالی گئی تھی۔ اس میں کلاسیں لگتی تھیں۔ کلاسوں کے درمیان کوئی حدبندی نہیں تھی۔ سردیوں میں سردی بغیر روک ٹوک کے حملہ آور رہتی اور کمبل اپنے گرد لپیٹ کر طلباء کلاسوں میں بیٹھے رہتے اور پھر گرمیوں میں لُو اپنا جوبن دکھاتی۔ لنگر کے وہ چھوٹے چھوٹے کچے کمرے جن میں اناج وغیرہ رکھا جاتا تھا ہمارا ہوسٹل بنایا گیا۔ ان دنوں ربوہ میں بجلی نہیں آئی تھی۔ رات لیمپ کی روشنی میں پڑھتے۔ گرمیوں میں ایک ہاتھ میں پنکھا ہوتا تھا جو پڑھائی کے دوران متواتر چلتا رہتا۔ برسات میں بارش دو گھنٹے برستی تو تین گھنٹے ہمارے کمروں کے اندر برستی۔ چھت ہمارے قد سے ایک فٹ اونچی تھی۔ بارش میں سب سے پہلے ہم کتابیں کاپیاں سمیٹتے اور کمبلوں میں لپیٹ کر چارپائی پر بیٹھے رات گزارتے اور کتابوں کے ساتھ خود بھی بھیگا کرتے تھے۔
ہمارے اساتذہ نے بہت قربانیاں کی ہیں۔ اُن دنوں قادیان سے ہجرت کے بعد مالی تنگی تھی۔ انہوں نے اور اُن کے اہل و عیال نے بڑے حوصلے اور صبر سے کام لیا۔
محترم مولانا ظہور حسین صاحب ہمارے ہوسٹل کے ٹیوٹر بھی تھے۔ ہماری پڑھائی کی نگرانی کے لئے رات گئے تک ہوسٹل میںرہتے تھے ۔ انتہائی سردیوں میں بھی آپ ہوسٹل کے طلباء کی پڑھائی کی نگرانی کرتے۔ سب کمروں میں حاضر ہوتے اور پھر اُس بے درودیوار چھپر کے نیچے بیٹھ کر نگرانی کرتے۔ میرا کمرہ اس چھپر کے قریب تھا۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ میں پانی لینے کیلئے باہر نکلا۔ رات بہت اندھیری تھی۔ مَیں نے چھپر میں سے آواز سنی جیسے مولانا کسی سے بات کررہے ہوں۔ میں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اتنی رات گئے آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ آہستہ آہستہ ٹہل رہے ہیں اور کوئی دوسرا آدمی نہیں۔ مولانا کو میری موجودگی کی مطلقاً کوئی خبر نہیں ہوئی۔ آپ بہت تضرّع سے اپنے خدا سے مخاطب ہوکر اُس کے احسانوں کو یاد کرکے شکرگزار ہورہے تھے۔ اس حالت کو صوفی مراقبہ کی حالت کہتے ہیں۔ آپ کو بارہا بہت الحاح سے نماز پڑھتے اور پھر دعا کی حالت میں گڑگڑاتے دیکھا ہے۔
مولانا ظہورحسین صاحب1957ء میں جامعہ احمدیہ سے ریٹائر ہوئے۔ ان کو الوداعی پارٹی دی گئی۔ طلباء جامعہ احمدیہ یونین کا نائب صدر ہونے کی وجہ سے مَیں نے الوداعی ایڈریس پیش کیااور اشکبار آنکھوں سے اپنے شفیق استاد کو الوداع کہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سالہاسال ملاقات رہی۔ بہت ہی محبت سے ملتے اور دعائیں دیتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں